Islam Times:
2025-11-08@13:35:27 GMT

ایران میں اقبال ؒ شناسی

اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT

ایران میں اقبال ؒ شناسی

اسلام ٹائمز: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، انکی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنیوالے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔ تحریر: توقیر کھرل

شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی فکر اور شاعری نے نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں طبع آزمائی کی اور ہر زبان کو اپنے بلند افکار کی بدولت اعلیٰ مقام عطا کیا۔ شاعری کے لیے انہوں نے خاص طور پر اردو اور فارسی کو منتخب کیا، جو ان کی فکری گہرائی اور روحانی وسعت کی غماز ہے۔ علامہ اقبال ایران میں ''اقبال لاہوری'' کے نام سے معروف ہیں اور ان کی شاعری کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ فارسی میں ہے، جو انہیں ایرانی ادبی اور فکری ورثے کا ناگزیر جزو بناتا ہے۔ اقبال نے کبھی ایران کا دورہ نہیں کیا، مگر ان کی فکر نے 1979ء کے اسلامی انقلاب کو گہرا اثر دیا اور آج بھی ایرانی دانشوروں، طلباء اور عوام میں مقبول ہیں۔

انہوں نے فارسی کو اپنے فلسفیانہ اور روحانی افکار کے اظہار کے لیے منتخب کیا، کیونکہ یہ زبان ان کے خیالات کی گہرائی کو بہتر طور پر بیان کرسکتی تھی۔ ایرانی دانشور اقبال کو مولانا رومی کے بعد فارسی کا سب سے عظیم شاعر قرار دیتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایران کو اسلامی اتحاد کا مرکز گردانتے ہیں، جیسا کہ اقبال نے فرمایا: ''اگر تہران مشرق کا جنیوا بن جائے تو دنیا کی حالت بدل جائے گی۔'' ایران میں اقبال کی شاعری کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ''زبور عجم'' جو انقلاب سے قبل نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنی۔ ایک زمانے میں ایران بھر میں کوئی ''خیابان اقبال'' موجود نہ تھا اور اقبال کی نظم ''جوانان عجم'' کی آواز پر لبیک کہنے والے کم تھے، مگر اقبال خود آگاہ تھے کہ ان کی صدا ایک دن ضرور گونجے گی۔

آج ایران کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں، جہاں اقبال کے نام سے منسوب شاہراہ نہ ہو۔ مشہد میں وزارت تعلیم کے تحت چلنے والا کالج اقبال کے نام پر ہے، جبکہ تہران کی شاہراہ ولی عصر پر ''اقبال لاہوری سٹریٹ'' واقع ہے، جہاں استعمال شدہ کتابوں کی دکانوں میں اقبال کی کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ تہران یونیورسٹی اور فردوسی یونیورسٹی مشہد میں اقبال پر تحقیقاتی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان علمی تعاون کی روشن مثال ہیں۔ پاکستان اور ایران نہ صرف مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر جڑے ہوئے ہیں، بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال سے گہری عقیدت بھی ان کا مشترکہ ورثہ ہے۔ علامہ اقبال دونوں اسلامی جمہوریاؤں کے درمیان تاریخی اور فکری روابط کا ایک اہم باب ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے اور انہیں ''مرشد'' کا درجہ دیا ہے، وہ اقبال کو ''مشرق کا بلند ستارہ'' قرار دیتے ہیں، جو ایرانی عوام میں ان کی قدر و منزلت کی عکاسی کرتا ہے۔

علامہ اقبال کو ایران اور اس کی ثقافت سے گہرا لگاؤ تھا، انہوں نے اپنی شاعری میں ہر خوبصورت چیز کو ایران سے تشبیہ دی اور کشمیر کو ''ایران صغیر'' کہہ کر اس کی خوبصورتی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تہران میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی اقبال کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے اقبال کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کا فارسی کلام بھی میرے نزدیک شعری معجزات میں سے ہے۔ ہمارے ادب کی تاریخ میں فارسی میں شعر کہنے والے غیر ایرانی بہت زیادہ ہیں، لیکن کسی کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی، جو فارسی میں شعر کہنے میں اقبال کی خصوصیات کا حامل ہو۔ اقبال کی مادری زبان فارسی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ پائے کی فارسی شاعری کی، جو نہ صرف عوامی زبان سے بلند تھی بلکہ ادبی حلقوں کی زبان بھی تھی۔ ایرانی عوام نے اقبال کی شاعری کو بے حد پسند کیا اور اس کی پذیرائی کی۔

ایران میں اقبال شناسی کا سلسلہ دونوں برادر اسلامی ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان ثقافتی اور فکری رابطوں کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ اس روایت کی بنیاد جامعہ عثمانیہ کے شعبہ ایرانیات کے استاد سید محمد علی داعی الاسلام نے رکھی، جنہوں نے لیکچرز اور مقالات پر مبنی کتاب ''اقبال و شعر فارسی'' تحریر کی۔ اسی طرح سید محیط طباطبائی نے 1945ء میں اپنے مجلے کا ایک خصوصی اقبال نمبر شائع کیا، جو اقبال کی فکر کو ایرانی حلقوں میں متعارف کرانے کا اہم ذریعہ بنا۔ مرحوم پروفیسر سعید نفیسی نے فارسی میں اقبال شناسی کی بنیادوں کو مزید پختہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، جبکہ ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری نے مجلہ سخن میں ایک گراں قدر مقالہ لکھ کر اس روایت کو وسعت بخشی۔ 1951ء میں ایران کے مجلہ ''دانش'' نے ''اقبال نامہ'' کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جس میں 1950ء سے 1951ء کے دوران یوم اقبال کے موقع پر پڑھے گئے مقالات اور نظمیں شامل تھیں، جو اقبال کی شاعری اور فلسفے کی ایرانی معاشرے میں گونج کی عکاس تھیں۔

1970ء میں ایران کے مذہبی ادارے ''حسینہ ارشاد'' نے اقبال کی یاد میں ایک یادگار کانفرنس کا اہتمام کیا، جہاں تقاریر، مضامین اور شاعری کے ذریعے اقبال کے افکار کو اجاگر کیا گیا۔ 1973ء میں تہران یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر فضل اللہ نے ''محمد اقبال'' کے عنوان سے ایک مختصر مگر مدلل مقالہ تحریر کیا، جو محض پچاس صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود اقبال شناسی کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ 1975ء میں فخرالدین حجازی نے تہران سے ''سرود اقبال'' نامی کتاب شائع کی، جو اقبال کی شاعری کی موسیقی اور لسانی خوبصورتی کو نمایاں کرتی ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی اقبال شناسی کے میدان میں ایک تابناک ستارہ ہیں، جو اقبال کے جلسوں اور کانفرنسوں میں پیش پیش رہتے اور ان کے خیالات کی ترویج میں دیانتداری کا مظاہرہ کرتے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، ان کی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔

اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، ان کی شاعری کے تقریباً بارہ ہزار اشعار میں سے سات ہزار فارسی میں ہیں، جو ان کے دس شعری مجموعوں میں سے چھ پر مشتمل ہیں۔ یہ انتخاب ان کی ایرانی تہذیب و فلسفہ سے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اور فلسفے نے ایرانی معاشرے پر گہری چھاپ چھوڑی، جہاں متعدد سڑکیں، لائبریریاں، جامعات اور ادارے ان کے نام پر ہیں، جو ان کے نظریات کی قدر کے غماز ہیں۔ یہ سب پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ روابط کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ ہیں، جو قومی اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستان اور ایران کے درمیان اقبال کی شاعری اقبال کی شخصیت علامہ اقبال کی اقبال شناسی خامنہ ای نے فارسی میں ایران میں میں اقبال میں ایران کی فتح سے اور فکری اقبال کے اقبال کا کہ اقبال آیت اللہ انہوں نے جو اقبال میں ایک کی جھلک کی فکر اور ان کے نام

پڑھیں:

ایران کی پاکستان و سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں شمولیت کی خواہش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: ایران نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی تعاون کے معاہدے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو نیٹو کی طرز پر مشترکہ فوج تشکیل دینی چاہیے تاکہ امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اس دفاعی معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے کیونکہ یہ خطے کے امن اور مسلم ممالک کے اتحاد کے لیے ضروری قدم ہے،  اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو نیٹو کی طرز پر اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج بنانی چاہیے تاکہ فلسطینیوں کا بھرپور دفاع کیا جا سکے۔

ایرانی اسپیکر نے کہا کہ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ صرف فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے اپنی افواج غزہ بھیجیں  نہ کہ ایسے اقدامات کریں جن سے اسرائیلی تسلط مزید مضبوط ہو۔

قبل ازیں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے صدر عاطف اکرام شیخ اور ان کے وفد سے ملاقات کے دوران محمد باقر قالیباف نے کہا کہ  پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کے دوران جس طرح ایران کا ساتھ دیا، وہ قابلِ تعریف ہے، اور کوئی ایرانی اسے بھلا نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان امتِ مسلمہ کا قیمتی اثاثہ ہے، اور دونوں ممالک مشترکہ چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جن کا حل تعاون اور اتحاد میں پوشیدہ ہے۔

ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ میڈیکل، توانائی اور بینکنگ سمیت مختلف شعبوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں،  دونوں برادر ممالک کو تجارتی روابط کو مزید فروغ دینا چاہیے تاکہ خطے میں معاشی استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار ہو۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • امن کے خواہاں ہیں، خودمختاری اور جوہری پروگرام پر سمجھوتا نہیں  ہوگا، ایرانی صدر
  • ایرانی وفد کی ملاقات‘ علامہ اقبال کا دن ملکر منائیں گے: عظمیٰ بخاری
  • امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر
  • پاکستان اور ایران عالمی امن و مسلم امہ کے اتحاد کیلئے پرعزم ہیں: وزیراعظم
  • پاکستان اور ایران عالمی امن اور مسلم امہ کے اتحاد کے لیے پرعزم ہیں، وزیراعظم
  • ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
  • یمم
  • ایران کی پاکستان و سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں شمولیت کی خواہش
  • چین اور ایران کا ایرانی جوہری مسئلے پر تفصیلی تبادلہ خیال