سندھ ہائیکورٹ نے ٹی ایل پی پر پابندی کیخلاف درخواست اعتراض لگاکر نمٹا دی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, November 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر عائد پابندی کے خلاف دائر درخواست اعتراض لگا کر نمٹا دی۔
کالعدم ٹی ایل پی پر پابندی کے خلاف درخواست کی سندھ ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، عدالت نے قرار دیا کہ پابندی کے خلاف پہلے متعلقہ فورم سے رجوع کریں، اگر ریلیف نہیں ملتا تو پھر عدالت میں درخواست دائر کی جائے۔
قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ظفر احمد راجپوت نے ٹی ایل پی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے جو درخواست دائر کی ہے، وہ کس سیکشن کے تحت دائر کی ہے، اس میں درخواست گزار کون ہے؟
وکیل درخواست گزار کا جواب سننے کے بعد عدالت عالیہ نے درخواست نمٹاتے ہوئے پہلے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔
پابندی کا پس منظر
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ٹی ایل پی کی جانب سے حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی معاہدہ ہونے کے بعد غزہ میں مظالم کے خلاف صوبہ پنجاب سے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے تک احتجاجی مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس اعلان کے بعد پارٹی کے سربراہ سعد رضوی اپنے کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے تھے، تاہم مریدکے شہر میں داخل ہونے کے بعد پنجاب پولیس نے آپریشن کرتے ہوئے مارچ کے شرکا کو منتشر کر دیا تھا، تاہم سعد رضوی اور ان کے بھائی اس کے بعد سے اب تک منظر عام سے غائب ہیں۔
مارچ کے دوران پر تشدد کارروائیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے مقدمات درج کیے تھے، ان مقدمات میں سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی بھی نامزد ہیں۔
بعد ازاں پنجاب حکومت نے صوبے میں پرتشدد احتجاج اور سرکاری املاک کے نقصان کا ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تھا، جس پر پنجاب کابینہ نے پابندی کی سفارشات وفاقی کابینہ کا ارسال کی تھیں۔
وزیراعظم کے زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کے لیے پنجاب کابینہ کی سفارشات کو منظور کرلیا تھا۔
24 اکتوبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت سمجھتی ہے کالعدم ٹی ایل پی دہشت گردی میں ملوث ہے، تحریک لبیک پاکستان کو فرسٹ شیڈول کے تحت دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے، حتمی فیصلے کے لیے نوٹی فکیشن سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا۔
وفاقی وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے نوٹی فکیشن دیگر اداروں کو بھی ارسال کردیا تھا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا تھا۔
حکومت نے ٹی ایل پی کے دہشت گردی سے مبینہ روابط کے شواہد کی بنیاد پر یہ اقدام اٹھایا تھا، نوٹی فکیشن کی کاپیاں تمام صوبوں کے گورنرز، چیف سیکریٹریز، آئی جیز اور خفیہ اداروں کو بھی ارسال کی گئی تھیں۔
نیکٹا، ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فوری اقدامات کی ہدایت بھی جاری کی گئی، تحریک لبیک پاکستان کے امیر کو بھی نوٹی فکیشن کی کاپی ارسال کر دی گئی تھی۔
نوٹی فکیشن کے بعد ٹی ایل پی کے تمام اکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیا تھا، ٹی ایل پی کوئی سیاسی اور سماجی سرگرمی نہیں کرسکے گی اور اس کا نام لینے پر بھی پابندی ہے۔
ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے حتمی فیصلے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا، وفاقی حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی تیاری کرلی ہے، وزارت داخلہ نے حتمی رپورٹ وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کو بھجوا دی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹی ایل پی پر پابندی تحریک لبیک پاکستان وزارت داخلہ نے نے ٹی ایل پی ٹی ایل پی کو ٹی ایل پی کے نوٹی فکیشن کے خلاف کو بھی کے تحت کے بعد
پڑھیں:
کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ گورنر ہائوس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات اور رسائی کے تنازع نے بالآخر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔
موجودہ گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں عدالت نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کی مکمل رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ اس مقدمے کی پیر 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کو آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گورنر ہاو ¿س کے تمام حصوں تک بلا تعطل رسائی ہونی چاہیے۔
تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات اور انتظامی دائرہ کار سے تجاوز کے مترادف ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
سیاسی و قانونی حلقوں کی نظر اب سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہے، جو اس اختیاراتی تنازع کے مستقبل کا تعین کرے گی۔