سندھ کے فنکار نے موہنجودڑو کا 5ہزار سالہ قدیم بھورینڈو نامی مٹی کا ساز دوبارہ زندہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
موہنجودڑو کی 5ہزارسالہ قدیم تاریخ میں پیوستہ بھورینڈو نامی مٹی کے ساز کو سندھ کے فنکار فقیر ذوالفقار نے دوبارہ زندہ کردیا، بانسری جیسی آوازیں بکھیرنے والا آلہ موسیقی لمبائی کے بجائے ایک چھوٹے گلک سے مشابہہ ہے، گولائی کے حامل اس ساز میں بیک وقت 8 سوراخوں پر فنکار کی انگلیاں متحرک رہتی ہیں، جن سے نکلنے والی مسحورکن آوازوں سے سننے والے سر دھننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بھورینڈو ساز کو دوام بخشنے کےلیے اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ہیں، بھورینڈو کو مٹی سے بنانے والے کمہار کی بینائی بھی زائل ہوچکی ہے۔
تیاری کے بعد بھورینڈو کو جاذب نظر بنانے کے بعد مختلف رنگوں کے ذریعے ان پر نقش نگاری بھی کی جاتی ہے، ماضی کے بھورینڈو میں تین سر ہوا کرتے تھے، اب یہ سات سروں کا حامل سازہے، جس سےنئی نسل کو روشناس کروایا جارہا ہے۔
سندھ کے آثارقدیمہ موہنجودڑو کے5 ہزار سال پرانی تہذیب یقینا دیکھنے والوں پر سحرطاری کردیتی ہے، جس کی کھدائی کے دوران کھنڈرات سےملنے والی انسانی استعمال کی اشیا آج بھی عقل انسانی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔اسی قدیم تہذیب کے بطن سے ملنے والا ایک ساز جیسے بھورینڈو (مقامی زبان میں معنی مٹی سے بنا خالی اور چند سوراخوں کا حامل برتن) کی مدھر آوازیں آج بھی دیہی سندھ کےگاوں، دیہات اور کھیت کھلیانوں میں کہیں نہ کہیں گونج رہی ہیں۔
مگر دیہی سندھ کے فنکار فقیرذوالفقار اور ان کےآباواجداد کا ذکر یقینا ضروری ہے جنھوں نے اس ہزاروں سال قدیم ساز کو مسلسل زندہ رکھا ہوا ہے، جس کی جڑیں موہنجودڑو کی قدیم تہذیب میں پیوستہ ہیں،گمان ہےکہ کبھی اس بھولے بسرےساز کو موہنجودڑو کی تہذیب میں خوشی کے مواقعوں پر بجایا جاتا ہوگا۔
یہ کہا جائے تو بےجانہ ہوگا کہ اس ساز کو فقیر ذوالفقارکےگھرانے نے دوبارہ دوام بخشنےمیں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں ماضی اس قدیم ساز سے مدھر آوازیں پھوٹ کر کانوں میں رس گھول رہی ہیں، یہ نادرو نایاب ساز گولائی نما چھوٹے سے مٹی کے پیسے جمع کرنے والے ایک گلک سے ملتا جلتا ہے، جس میں 8 باریک سوراخوں پرجب فنکار جب اپنی انگلیوں کوایک خاص ترتیب سے حرکت دیتا ہے، تو مدھر سر سننے والوں پر سحرطاری کر دیتےہیں۔
اس قیدم ساز پر عبور رکھنے والے فنکار فقیر ذوالفقار کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہناتھا کہ ان کے خاندان کی تیسری نسل اس بھوریندو ساز کو بجا رہی ہے، جس کی ابتدا ان کے والد میر محمد لوند نےکی تھی، بھورینڈو صرف ایک ساز نہیں بلکہ سندھ دھرتی کی قدیم تہذیب کی پہچان ہے، بظاہر یہ ساز کئی صدیوں تک خاموش رہا، مگرماضی اور حال کا وہ رشتہ اس وقت بحال ہوا اور انسانی ہاتھوں میں پہنچ کر اس آلہ موسیقی کو دوبارہ زبان مل گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ بھورینڈو کو اکثر کمہار آسانی سے بنا لیتے ہیں کیونکہ اس کی تیاری ہر وہ کمہار باآسانی کر سکتا ہے جو عموما برتن تیار کر سکتےہیں، مگر ایک کمہار ایسا ہے جو بھوریندو کو انتہائی چاہ سے تیار کرتےہیں، جس سےاس آلہ موسیقی کے سرکا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، عمر رسیدہ اللہ جڑیو کی بینائی اب کافی حد تک زائل ہوچکی ہے، مگر ان کا جذبہ ماند نہیں ہوا، وہ آج بھی ایک عام چکنی مٹی سے اس ساز کو بنانےکی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فقیر ذوالفقار کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور اور قدیم دور کے بھوریندو میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں،پہلے کے بھورینڈو میں دوسوراخ ہوا کرتےتھے،جو 2 ہی سر بجانے کا حامل تھا،مگر موجودہ بھورینڈو کےذریعے7سر بجائے جاسکتےہیں۔
محققین کے مطابق موہنجودڑو کے آثار میں اس جیسے ساز کی شکلیں مٹی کے مجسموں میں دیکھی گئی تھیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ 5 ہزارسال قبل اس ساز کے ذریعے فنکار سر بکھیرا کرتے تھے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ عادل احمد کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے سندھ انسٹیٹوٹ آف میوزک اینڈ پرفارمنگ آرٹس میں یہ ساز بچوں کو سکھانے کے منصوبے پر کام جاری ہے، بھورینڈو کو یونیسف کے غیر محسوس ورثے کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے، اس فہرست میں تاریخی رسومات، زبانی روایا،فنون لطیفہ اور ورثہ جبکہ کئی قدیمی چیزیں شامل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھورینڈو کو سندھ کے ساز کو
پڑھیں:
زندہ رہنا سیکھئے! (حصہ اول)
اکثر لوگوں سے ملتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ خوش نہیں ہیں۔ ماننا یا نہ تسلیم کرنا تو خیر ذاتی جذبہ ہے۔ اپنے اردگرد‘ انسانوں کے رویوں کو غور سے پڑھیے۔ فوری طور پر معلوم پڑ جائے گا‘ کہ خوشی کے ساتھ وقت کے دریا میں تیر رہے ہیں یا مجبوری میں صرف وقت گزار رہے ہیں۔ پختہ عمر کے مرد اور عورتوں میں تو خیر یہ الم زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سنجیدہ عمرمیں ہوں ‘ اور اس عمر میں زندگی اور رشتوں کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ یقین فرمائیے کہ میں نے دکھ اور رنج کو اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکا ہے۔
یہ کس طرح ممکن ہوا ہے اس پر بعد میں عرض کرتا ہوں۔ جوانی میں پر مسرت رہنا بہت آسان ہے۔ آپ کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ شادی ہوتی ہے‘ جو بنیادی طور پر ذمے داری کی ایک اہم قسم ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں وقت گزرتا ہے۔ قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ نوجوان لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ بالکل ہوتے ہیں مگر اس کی وجوہات‘ سنجیدہ عمر کے مقابلے میں یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے انسان کی سوچنے کی قوت حیرت انگیز حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت کو ’’گیان‘‘ کی عمر کہا جاتا ہے۔ جب مرد اور عورت لاتعداد بہاریں دیکھ چکا ہوتا ہے تو اس کی اپنی زندگی میں خزاں ہی خزاں رہ جاتی ہے۔
اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ اور یہ اکلاپا‘ اسے کھا جاتا ہے۔ پر یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس سخت کوش کیفیت کو کسی طرح بدلا جائے؟ کون سا ایسا طرز زندگی اختیار کیا جائے کہ آپ کا ذہن بٹ جائے اور مزاج اور فہم مثبت طرز پر چلنا شروع کر دے۔ طالب علم کی نظر میں یہ بہت ہی آسان کام ہے۔ تمہید کے طور پر عرض کروں گا کہ جب ایم بی بی ایس کر رہا تھا تو میرا پسندیدہ شعبہ‘ سائیکٹری تھا۔ میرے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ میں سرجن بنوں یا میڈیسن کا کامیاب اور نامور طبیب بنوں۔ پوری کوشش تھی کہ انسانی ذہن کو سمجھ سکوں اور اس کے لیے میں نے بہت کچھ پڑھا۔
سائیکٹری وارڈ میں جا کر ‘ مریضوں سے ان کی ذہنی کیفیت معلوم کرنے کے لیے گھنٹوں بلکہ کئی بار دنوں پر مبنی گفتگو کرتا رہا۔ ان کے مرض کو جاننے کے بعد‘ اس کا علاج بھی کرتا رہا۔ مگر مجھے یہ احساس ضرور ہوا کہ ہمارے ملک میں انسانوں کا بہت بڑا مسئلہ‘ ان کی زندگی میں خوشی کے عنصر کا بہت کم ہونا ہے۔ حوادث زمانہ کے تھپیڑے ان کے ذہنوں کو اس طرح جکڑے ہوتے ہیں کہ ان کے قیدی بن جاتے ہیں۔
ان منفی عناصر سے باہر نکلنے کا سوچتے تک نہیں ہیں۔ اس طرز عمل کی بدولت‘ مزید ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دراصل انسانی ذہن کو آج تک مکمل طور پر کوئی بھی نہیں سمجھ پایا۔ شواہد صرف یہی ہیں کہ پانچ سے دس فیصد سے زیادہ‘ سائنس کو ادراک ہی نہیں ہے کہ انسانی فکر اور جذبات کی ہیئت کیا ہے۔ عظیم ترین فلسفی بھی ‘ اس نازک جگہ پر خاموش نظر آتے ہیں۔ ویسے کیا یہ بذات خود ایک سانحہ نہیں ہے کہ انسان کے سب سے اہم ترین جزو ِزندگی کے متعلق ہم بہت ہی کم جانتے اور اس سے بھی کم سمجھتے ہیں۔
یہاں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان کو ہمارے جیسے تضادات سے بھرے سماج میں اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کی کیفیت کے متعلق کوئی بات ہی نہ کی جائے۔ نہیں صاحب‘ ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ ہم بہتری کی کوشش ہی ترک کر دیں۔ کوئی حتمی بات نہیں کر رہا، صرف یہ گزارش کر رہا ہوں کہ دکھوں کی پر خار وادی کو مضبوطی سے عبور کر کے آگے نکلیے ۔ خوشبوئیں اور رنگوں کا میدان آپ کا منتظر ہو گا۔ انسانی ذہن کو پڑھنے کی کوشش ضرور کرتا رہا ہوں۔ مگر ‘ کبھی بھی عام لکھاریوں کی طرح یہ بیانیہ نہیں بنایا کہ Motivational Speaker یا motivatorبنوں۔ مجھے ان دونوں الفاظ سے اتنی ہی الجھن ہے جتنا کہ ان لوگوں سے‘ جو ہر جگہ جاہلانہ باتیں کر کے لوگوں کو مرعوب کرتے نظر آتے ہیں۔ داد کے ساتھ ساتھ پیسے بھی سمیٹتے ہیں۔ چلیے چھوڑیے۔ آپ زندگی کے کسی بھی حصے میں ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں ہیں۔
سب سے پہلے‘ یقین ِمحکم کیجیے کہ آپ اس دنیا کے اہم ترین جزو ہیں۔ کائنات کی ہر چیز ‘ آپ اور صرف آپ ہی کی خدمت پر مامور ہے۔اپنی اہمیت کو پہچانیے اور اس کی قدر کیجیے۔ بھول جایئے کہ مختلف عزیزوں یا دوستوں یا نظام نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ عمر کو بالائے طاق رکھیے، بغیر کسی سہارے اور ساتھ کے‘ معمولی سی ورزش کی جانب فیصلہ فرمایئے۔ خدانخواستہ اگر کوئی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے آپ چل پھر نہیں سکتے۔
اس کے باوجود ‘ بستر سے اٹھنے کی کوشش ضرور کیجیے۔ تھوڑے سے قدم اٹھایئے ۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو ایک ایسا نکتہ عرض کرتا ہوں جس سے آپ کاوقت بھرپور طریقے سے گزرے گا۔ رنگین مچھلیوں کا چھوٹا سا اکویورم Aquarium اپنے کمرے میں ایسی جگہ رکھ لیجیے جہاں آپ انھیں ہر وقت دیکھ سکیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیوں کو پانی میں گھومتے پھرتے دیکھ کر‘ وقتی طور پر آپ کے دماغ میں منفی خیالات کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے۔ اس مشورہ کو بالکل ناقدری کی نگاہ سے نہ دیکھیے ۔ کیونکہ‘ جدید تحقیق کے لحاظ سے‘ مچھلیوں کو دیکھنے کی یہ عادتStress اور Monotonyکو ختم کرنے کے لیے بہترین عمل ہے۔
آیئے، اب اپنی عمر کے حساب سے ہلکی پھلکی ورزش شروع کیجیے۔ جو مرضی ہو جائے ‘ کیسا بھی موسم ہو۔ اپنی جسمانی ورزش کو ہفتے میں چھ دن مسلسل کرتے رہیں۔ صرف ایک دن چھٹی کیجیے۔ واک ‘ ہر عمر کے لیے ایک کمال ورزش ہے۔ پیدل چلنے سے جو ذہنی اور جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بیان سے باہر ہیں۔ معاملہ کو آگے بڑھایئے ۔ اگر جوگنگ کر سکتے ہیں تو ضرور کیجیے۔
تیز دوڑیئے ‘ پسینہ نکالیے‘ اپنے آپ کو تھکا دیجیے ۔ دنوں میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگیں گے۔ جسمانی ورزش کو بالکل اس طرح سمجھیے جیسے یہ ایک مقصد حیات ہے۔کسی بھی طرح کی جسمانی حرکت‘ ذہن کو سکون بخشے گی۔ نیند بہتر ہوجائے گی۔ نیند کی گولیوں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ صرف یہ سوچیے کہ ‘ کسی کے لیے نہیں ۔ اپنے لیے ‘ صرف اپنی ذات کے لیے بہتری کے کام کر رہے ہیں۔
آگے بڑھیے۔ اپنی غذا کی مقدار پر خود قابو حاصل کیجیے۔ کھانے کی زیادتی یا کمی ‘ دونوں خطرناک عوامل ہیں۔ بہت سی ذہنی الجھنیں ایسی ہیں جن میں انسان کا اپنے کھانے پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ انسان ہر وقت کھاتا رہتا ہے۔ اس کی بھوک ختم ہی نہیں ہوتی۔ متضاد رویہ یہ بھی ہے‘ کہ انسان‘ کھانا بہت ہی کم کر دیتا ہے۔ کئی بار تو اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اسے غذا کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ یہ دونوں علامات صرف ایک امر کی ہیں کہ آپ شدید ذہنی دباؤ میں ہیں۔ صحت کی کنجی یہ ہے کہ ‘ اپنے کھانے کی مقدار کو ترتیب دے دیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ ہر وقت مٹن‘ فش اور مہنگی اشیاء کھایئے۔ دالیں‘ سبزیاں اور سلاد کو فوقیت دیں۔ Carbohydrates جیسے روٹی ‘ چاول اور اس قماش کی چیزوں کو کم سے کم کر دیں۔ پانی زیادہ استعمال کریں۔ ہاں اگر آپ اتنی قوت رکھتے ہیں تو ایک دن بالکل کھانا نہ کھائیں ۔ صرف پانی پئیں۔ Interimittent Fasting کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔یہ فاقہ کشی اندر سے اتنا مضبوط کر دے گی کہ آپ خود حیران رہ جائیں گے۔
ہاں‘ پھلوں کو اپنی غذا بنا لیجیے ۔ مہنگائی کے اس دور میں‘ امردو‘ کینو‘ تربوز اور اس طرح کے سستے پھلوں کی طرف متوجہ ہوں۔بلکہ دن رات میں ایک کھانا ترک کر کے صرف اور صرف پھل استعمال کیجیے۔ اپنی ذات کے مالک آپ خود ہیں۔ کھانا اپنے اختیار میں ہے۔ پوری ذہنی طاقت سے اسے قابو میں لایئے۔ جو کھا رہے ہیں اسے ایک ڈائری پر لکھنا شروع کر دیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں‘ ایک حیرت انگیز تبدیلی آئے گی۔ احساس ہو جائے گا کہ کتنی غیر ضروری اشیاء کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی لیکچر نہیں دے رہا، عام سی باتیں کر رہا ہوں۔ یہ ہر ایک کے علم میں ہیں۔ مگر اکثریت ان کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرونگا کہ اپنے پورے دن اور رات پر غور کیجیے۔ دنیا میں اربوں لوگ رہتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اس محدود وقت میں‘ اتنے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دے ڈالتے ہیں کہ ان کا نام امر ہو جاتا ہے۔
صدیاں گزر جاتی ہیں مگر وہ زندہ رہتے ہیں۔ مگر اکثریت ان چوبیس گھنٹوں کو اس بے دردی سے ضایع کرتی ہے کہ رزق ِخاک بننے کے بعد‘ ان کا نام تک کسی کو یاد نہیں رہتا۔ اپنے دن اور رات کے اوقات احتیاط سے ترتیب کریں۔ اس روٹین میں بالکل نئے شوق شامل کریں۔ انھیں بہتر بنانے کی کوشش کریں۔اپنی عمر اور استطاعت کے حساب سے کوئی نیا ہنر سیکھئے ۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کوشش کر کے ایک نئی ہابی کو زندگی میں استوار کیجیے ۔پرندے ‘ جانوروں اور سبزے پر توجہ دیجیے ۔مگر جو چیز مناسب نہیں لگتی اس سے مکمل اجتناب کیجیے ۔
(جاری ہے۔)