خون میں چربی کی زیادتی (ڈس لپیڈی میا) پر تحقیقی جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر قدیم اخلاطی نظریہ اور جدید بایومیڈیکل شواہد کو ایک ساتھ سمجھا جائے تو قلبی اور میٹابولک بیماریوں کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر عابد رضا
حافط محمد الیاس انسٹیٹیویٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل سائنسز، جامعہ ہمدرد کراچی
خون میں چربی کی زیادتی، جسے طبی اصطلاح میں ڈِس لپیڈی میا (Dyslipidemia) کہا جاتا ہے، عالمی سطح پر قلبی اور میٹابولک بیماریوں کے اہم عوامل میں شامل ہے۔ جدید حیاتیاتی اور کلینیکل تحقیق سے واضح ہوا ہے کہ خون میں لیپڈ پروفائل میں غیر متوازن سطحیں، جیسے کولیسٹرول اور ٹرائیگلیسرائیڈز کی بڑھتی ہوئی مقدار، شریانوں کی سختی، ایتھیروسکلروسیس، اور دل کے عارضہ جات کے خطرات میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امراضِ قلب، شریانوں کی تنگی، اور دیگر میٹابولک پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، جو عالمی صحت کیلئے سنگین چیلنج ہیں۔
قدیم یونانی اطباء، جیسے ابنِ سینا، علی بن عباس المجوسی، اور چغمنی نے انسانی صحت اور بیماریوں کے مطالعے میں اخلاطی نظریہ (Humoral Theory) کو بنیاد بنایا۔ ان کے مطابق جسم میں چار بنیادی اخلاط موجود ہیں: خون، بلغم، صفرا اور سودا، اور ان کا توازن صحت کیلئے لازمی ہے۔ خون میں موجود روغنی مواد (Lipids) نہ صرف توانائی اور حرارت کا ذریعہ تھا، بلکہ اعضاء کی فعالیت اور مجموعی مزاج کیلئے بھی ضروری تھا۔ قدیم اطباء نے واضح کیا کہ خون میں چربی کی زیادتی یا کمی جسمانی توازن میں خلل پیدا کرتی ہے، جس سے دل، جگر اور دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے نظریات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ غذا، مزاج، اور ماحولیات اخلاط کی مقدار اور معیار کو متاثر کرتے ہیں اور مناسب توازن کو برقرار رکھنا بیماریوں کی روک تھام کیلئے ضروری ہے۔ یہ فکری بصیرت آج کے جدید حیاتیاتی اور کلینیکل علم کے ساتھ قابلِ تطبیق ہے اور انسانی جسم کے پیچیدہ نظامات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
جدید تحقیق نے ڈِس لپیڈی میا کے بایومیڈیکل میکانزم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ خون میں موجود LDL کولیسٹرول، جسے عموماً "خراب کولیسٹرول" کہا جاتا ہے، شریانوں میں جمع ہو کر ان کی سختی اور ایتھیروسکلروسیس کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس HDL کولیسٹرول، جسے "اچھا کولیسٹرول" کہا جاتا ہے، اضافی چربی کو شریانوں سے دور لے کر دل اور دیگر اعضاء کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے۔ متعدد مطالعات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خون میں چربی کی غیرمتوازن سطحیں قلبی امراض، ذیابیطس اور دیگر میٹابولک عوارض کے خطرے میں اضافہ کرتی ہیں،
یہ تحقیقی جائزہ یونانی طب کے کلاسیکی نظریات اور جدید حیاتیاتی سائنس کے اصولوں کو جوڑنے کی ایک کامیاب کاوش ہے۔ تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈِس لپیڈی میا یعنی خون میں چربی کی زیادتی یا کمی، آج کے دور میں قلبی امراض، شریانوں کی تنگی، اور دیگر میٹابولک پیچیدگیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔
قدیم یونانی اطباء صدیوں قبل ہی جسم میں چربی کے توازن، حرارت اور مزاج کے تعلق کو بیان کر چکے تھے۔ ان کے مطابق اعضاء میں چربی کا جمع ہونا جسم کی سرد مزاجی کی علامت ہے اور خون میں موجود چربی توانائی اور حرارت کا ذریعہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے چراغ کو جلانے کیلئے تیل ایندھن کا کام کرتا ہے۔ اس طرح، قدیم یونانی معالجین نے خون میں موجود روغنی مادّے (Lipids) کو انسانی غذا، توانائی اور جسمانی ساخت کیلئے بنیادی حیثیت دی، اور ان کا عدم توازن وہی اثرات پیدا کرتا ہے، جنہیں آج ہم ڈِس لپیڈی میا کہتے ہیں۔ یہ تحقیق نہ صرف یونانی طب کے علمی و نظریاتی ورثے کی توثیق کرتی ہے بلکہ جدید حیاتیاتی تحقیق کیلئے ایک نیا فکری پل بھی فراہم کرتی ہے۔
اس جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر قدیم اخلاطی نظریہ اور جدید بایومیڈیکل شواہد کو ایک ساتھ سمجھا جائے تو قلبی اور میٹابولک بیماریوں کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی ہے۔ ڈِس لپیڈی میا کے مطالعے سے بیماری کے پیدا ہونے اور ظاہر ہونے کے عمل کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور قدیم نظریاتی فریم ورک اور جدید سائنسی شواہد کا امتزاج بروقت تشخیص اور مؤثر علاج کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق عالمی سائنسی کمیونٹی کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ تاریخی طبی حکمت کو جدید سائنسی طریقوں کے ساتھ یکجا کرتی ہے اور مستقبل کی تحقیق اور طبی عمل میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خون میں چربی کی زیادتی جدید حیاتیاتی اور جدید اور دیگر کرتی ہے ہے اور
پڑھیں:
چیٹ جی پی ٹی جیسے تمام اے آئی پلیٹ فارمز سے متعلق پریشان کن انکشاف!
ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے آلات کو صحیح اور غلط معلومات کے درمیان فرق کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم نے ایک تحقیق میں تمام بڑے اے آئی چیٹ بوٹس کو مسلسل غلط خبر کی نشاندہی میں ناکام پایا۔
تحقیق لارج لینگوئج ماڈلز (ایل ایل ایمسز) کے استعمال سے متعلق قابلِ تشویش نتائج پیش کرتی ہے، جہاں صحیح اور غلط معلومات کا تعین کرنا اہم ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ چونکہ لینگوئج ماڈلز (ایل ایمز) کا قانون، طب، صحافت اور سائنس میں استعمال بڑھتا جا رہا ہے، اس لیے ان کی حقیقت اور افسانے کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت اہم ہو جاتی ہے اور ایسا کرنے میں ناکامی ان کے بیماری کی تشخیص میں کوتاہی، قانونی فیصلوں میں مسائل اور گمراہ کن معلومات پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔
تحقیق میں 24 ایل ایل ایمز کا جائزہ لیا گیا جس میں سب کے سب صحیح اور غلط معلومات کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہے۔