بروقت انصاف ہر شہری کا حق ہے، سپریم کورٹ کا سول مقدمات میں تاخیر پر اظہارِ افسوس
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
سپریم کورٹ نے سول مقدمات میں مسلسل تاخیر اور بار بار ملتوی کیے جانے کے رجحان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بروقت انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور غیر ضروری تاخیر عدالتی نظام کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے منگل کے روز سول مقدمات میں مسلسل تاخیر اور بار بار ملتوی کیے جانے کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ رویے نہ صرف مقدمات کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ عدلیہ کی کارکردگی اور ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
جسٹس شکیل احمد نے لاہور ہائی کورٹ کے 21 مئی کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ سول تنازعات کا بروقت حل صرف فریقین کا قانونی حق نہیں بلکہ ایک مؤثر عدالتی عمل کی لازمی خصوصیت بھی ہے۔
انہوں نے اپنے 11 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ تحقیق کے مطابق مقدمات کو بار بار اور بلاوجہ ملتوی کرنا تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ہے، جس سے فریقین کو مالی اور ذہنی نقصان ہوتا ہے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد کم ہوتا ہے اور بروقت انصاف کا حق متاثر ہوتا ہے۔
یہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب عرفان رشید نے 25 کنال زمین 90 لاکھ روپے میں خریدی، جس میں سے 39 لاکھ روپے بطور ایڈوانس 5 جون 2018 کو ادا کیے گئے، تحریری معاہدہ طے پایا اور پراپرٹی اس حد تک مدعی کے نام منتقل کر دی گئی۔
بعد میں مدعا علیہان نے اپنی باقی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار کر دیا، اس پر مدعی نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا، جس میں عدالت نے عارضی حکم جاری کیا، اسی دوران مدعا علیہان نے معاہدہ منسوخ کرنے کے لیے الگ مقدمہ دائر کیا، جس کا فیصلہ 18 جولائی 2019 کو ان کے حق میں ہوا۔
مدعی نے سول کارروائی کے ضابطہ، 1908 (سی پی سی) کے سیکشن 12(2) کے تحت حکم اور فیصلہ کالعدم کرنے کی درخواست دائر کی، جس میں دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا دعویٰ کیا اور کہا کہ یہ حکم دیگر مدعا علیہان کے ساتھ سازش کے تحت حاصل کیا گیا۔
مدعا علیہان نے تحریری جواب کے ذریعے اس درخواست کی مخالفت کی، بعد میں ٹرائل کورٹ نے 29 جنوری کو آرڈر 17 رول 3 سی پی سی کے تحت یہ درخواست مسترد کر دی، اپیل کورٹ نے 12 اپریل کو اس فیصلے کو برقرار رکھا اور لاہور ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواست بھی اسی طرح خارج کر دی گئی۔
جسٹس شکیل احمد نے 2015 کے رانا تنویر خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور ہدایت دی تھی کہ صرف معقول وجوہات پر ہی ملتوی کرنے کی اجازت دی جائے، جب کہ مقدمات میں تاخیر کی کوششوں کو سختی سے روکا جائے۔
اسی طرح 2020 کے مون انٹرپرائزز کیس میں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ سختی سے عملدرآمد کریں اور واضح طور پر بتائیں کہ اگر مقررہ وقت میں ثبوت پیش نہ کیے گئے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، جن میں ثبوت بند کرنا بھی شامل ہے۔
مزید یہ کہ 1976 کے سیٹلمنٹ اتھارٹی کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ اگر کوئی فریق یا اس کا اصل وکیل موجود نہ ہو تو وکیل کی طرف سے ملتوی کرنے کی درخواستیں عام طور پر قبول نہیں کی جانی چاہییں۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ یہ تمام مقدمات اس بات کی یاددہانی ہیں کہ فریقین کو عدالت کی کارروائی میں سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ حصہ لینا چاہیے، بار بار ثبوت پیش کرنے کے لیے ملتوی کرنا، سی پی سی کے رول 3 کے مقصد کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جب عدالت کسی فریق کو مناسب مواقع دے چکی ہو تو اس کے بعد ثبوت پیش کرنے کا حق ختم ہو جاتا ہے اور عدالت کو دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ سنانا چاہیے۔
1986 کے گل حسن کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اگر کوئی فریق بار بار ملتوی کروانے کے باوجود ثبوت پیش نہ کرے تو ایسی تاخیر ناقابلِ قبول ہے اور مقدمہ خارج کیا جا سکتا ہے، اس اصول کا مقصد عدالتی کارروائیوں میں غیر ضروری تاخیر کو ختم کرنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ جو فریق اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا، وہ مقدمے کو بلاوجہ لمبا نہ کرے۔
جسٹس شکیل احمد نے زور دیا کہ ہر فریق کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کا معقول موقع ملنا چاہیے، لیکن یہ حق لامتناہی ملتوی کرنے یا بار بار رعایت لینے کی اجازت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس شکیل احمد نے سپریم کورٹ نے مدعا علیہان مقدمات میں ثبوت پیش ہے اور کہا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ کی بیسمنٹ میں سلنڈردھماکا،4افرادزخمی
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سپریم کورٹ کی بیسمنٹ میں سلنڈر دھماکے سے 4افرادزخمی ہوگئے ،دھماکے سے سپریم کورٹ کی عمارت لرز گئی ،دھماکے کے بعد وکلا اورعملہ عدالت سے باہرنکل آئے ،ذرائع کے مطابق دھماکا سنٹرل اے سی کے مرمتی کام کے دوران ہوا۔