غزہ پر حملے کی قانونی حیثیت کیا ہے، اسرائیلی فوج کے وکلا سر پکڑ کے بیٹھ گئے
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
عالمی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے وکلا کو اس بات پر بڑھتی ہوئی تشویش تھی کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔
یہ معلومات جنگ کے پہلے سال کے دوران جمع کی گئیں اور اس کی تصدیق 5 سابق امریکی حکام نے کی۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں وسیع فوجی کارروائیاں شروع کیں۔ غزہ کے صحت حکام کے مطابق ان جوابی حملوں اور زمینی آپریشنز میں اب تک 68,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے الزام میں اعلیٰ اسرائیلی فوجی افسر گرفتار
اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقاتی کمیشن نے اسرائیل پر نسل کشی جیسے اقدامات کا الزام عائد کیا ہے، اور اسرائیل کے خلاف 2 بین الاقوامی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ ایک بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) میں اور دوسرا بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج کے اندرونی قانونی ماہرین نے اپنی حکمتِ عملی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا جو اسرائیلی حکومت کے سرکاری مؤقف کے بالکل برعکس تھا، جو مسلسل اپنی کارروائیوں کا دفاع کر رہی ہے۔
سابق امریکی عہدیداران کے مطابق، دسمبر 2024 میں امریکی کانگریس کے بریفنگ سے قبل امریکی انٹیلی جنس نے جو مواد اکٹھا کیا، وہ جنگ کے دوران اعلیٰ امریکی پالیسی سازوں کے لیے’سب سے حیران کن ‘ رپورٹس میں شمار ہوا۔
رائٹرز کے مطابق، ’تشویش تھی کہ اسرائیل شہریوں اور انسانی امدادی کارکنوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے‘، تاہم رپورٹ میں مخصوص واقعات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
امریکی حکام اس بات سے بھی فکرمند تھے کہ بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتیں بین الاقوامی قوانین کے تحت قابلِ قبول نقصان کی حد سے تجاوز کر رہی ہیں۔
اگرچہ امریکا نے عوامی سطح پر اسرائیل کا دفاع جاری رکھا، لیکن مئی 2024 میں بائیڈن انتظامیہ کی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ ’یہ معقول خدشات موجود ہیں‘ کہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر امریکی حکومت باضابطہ طور پر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتی، تو اسے اسلحے کی فراہمی اور انٹیلی جنس تعاون معطل کرنا پڑتا۔
یہ بھی پڑھیے: فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے ICC کے خلاف دباؤ مہم شروع کی تھی۔ دی انٹرسپٹ کے مطابق، واشنگٹن نے اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کی دستاویزات کو دبانے کی ایک وسیع مہم کی سرپرستی کی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں متعلقہ ویڈیوز یوٹیوب سے ہٹا دی گئیں۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج کی اعلیٰ قانونی افسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے ایک ویڈیو لیک کرنے کا اعتراف کیا جس میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ بدسلوکی کرتے دکھائے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، اس ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ان پر تحقیقات روکنے کا دباؤ بڑھا، جس کے باعث انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل غزہ فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل فلسطین بین الاقوامی اسرائیلی فوج کے مطابق کی ایک
پڑھیں:
افغانستان: عالمی سطح پر افیون کی 80 فیصد سے زائد پیداوار کا بڑا مرکز ، حیثیت تاحال برقرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغانستان طویل عرصے سے دنیا کی 80 سے 90 فیصد افیون پیدا کرتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم کے مطابق سال 2022 میں افغانستان میں افیون کی کاشت 2 لاکھ 32 ہزار ہیکٹر تک پہنچ گئی جس سے تقریباً 6,200 ٹن افیون حاصل ہوئی جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان اب بھی عالمی سطح پر غیر قانونی افیون کی فراہمی میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے جبکہ ملک میں موجود باقی پیداوار اور ذخائر عالمی منڈیوں کو مسلسل سپلائی کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کہتی ہے کہ فارم گیٹ سطح پر افیون کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا، 2021 میں تقریباً 100 امریکی ڈالر فی کلوگرام سے بڑھ کر سنہ 2024 میں 700 سے 750 امریکی ڈالر فی کلوگرام تک جا پہنچی۔ یہ اضافہ منافع میں تسلسل اور عالمی طلب کی عکاسی کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ2024 میں پوست کی کاشت میں بھی اضافہ ہوا۔ 12,800 ہیکٹر رقبے پر کاشت کی گئی جو سنہ 2023 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔
مزید برآں افغانستان اب صرف افیون تک محدود نہیں رہا بلکہ میتھیمفیٹامائن جیسی مصنوعی منشیات کی پیداوار میں بھی تیزی سے ابھر رہا ہے جو منشیات کی نئی شکلوں کی طرف ایک واضح تبدیلی ہے۔