Express News:
2025-11-09@23:29:33 GMT

یہ سنگدل مائیں اور بیویاں

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

میاں بیوی کے جھگڑے جب شدت اختیار کرجاتے ہیں تو اس کا نتیجہ شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل، عام بات تھی اور ذمے دار ہمیشہ بیوی کو ہی ٹھہرایا جاتا تھا۔ ان پڑھ معاشرے اور پس ماندہ علاقوں میں خواتین کا قتل، ان کے آشنا سے تعلقات کو قتل کا لائسنس تو نہیں دیتا مگر نام نہاد غیرت کے نام پر ملک میں بدچلنی کا الزام لگا کر عورت اور مرد کو کاروکاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو کبھی موت کی سزا نہیں ہوتی اور مجرم چند سال کی سزا کاٹ کر بری ہو جاتا ہے اور معاشرہ اسے مطعون بھی نہیں کرتا جس کی وجہ سے کاروکاری کے تحت قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کیونکہ مجرم کو قتل کی دیگر وارداتوں کی طرح زیر دفعہ 302 کبھی پھانسی کی سزا نہیں ملتی جس سے کاروکاری کے الزام میں قتل کم نہیں ہو رہے اور ان میں بہت سے قتل بے گناہوں کے بھی ہو رہے ہیں اور بعض جگہ یہ قتل تعلیم یافتہ لوگ بھی کر رہے ہیں جن میں ایسے بھی ہیں جو بیوی سے چھٹکارا پانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔

کچھ عرصے سے اب شوہروں کا بیوی کے ہاتھوں قتل بھی بڑھنے لگا ہے جس کی ایک وجہ بیوی پر شوہر کے بہیمانہ مظالم تو ہوتے ہی ہیں مگر مہنگائی و بے روزگاری کے باعث شوہروں کا غصہ بیویوں پر نکلتا ہے اور میاں بیوی کی لڑائی میں کبھی کبھی شوہر بھی قتل ہو جاتا ہے اور جذبات اور غصے میں اپنا ہی گھر اجاڑ لیا جاتا ہے اور اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں کیا جاتا اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ نہ کرنے والے دونوں فریق یہ نہیں سوچتے کہ جھگڑے میں اگر کوئی قتل ہو جائے تو دوسرے کا مقدر جیل ہوتا ہے مگر ان کے اس اقدام کی سزا ان کے بچے بھگتتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور ماں باپ کے جھگڑوں میں وہ در بدر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ میاں بیوی سے اور بیوی شوہر سے جان چھڑانے کے لیے قتل کے منصوبے بناتے ہیں جن میں کامیابی کم ہوتی ہے اور کرائے کے قاتل بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔

انتہائی شرم ناک مقام تو یہ آگیا ہے کہ تعلیم یافتہ اولاد ہی باپ کی دشمن بن جاتی ہے اور ناخلف اولاد باپ کی ماننے کے بجائے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے کرائے کے قاتلوں سے باپ کا قتل کرانے سے بھی گریز نہیں کرتی، تاکہ باپ کی جائیداد ہتھیا کر من پسند شادی یا من مانیوں میں آزاد ہو جائیں انھیں اپنی آخرت کالی کرنے کا بھی خوف نہیں ہوتا اور گنہگار الگ ہوتے ہیں۔

کچھ عرصے سے بعض وجوہات، شوہروں کے رویے، غربت اورگھریلو جھگڑوں کے باعث مائیں اتنی سنگدل ہو گئی ہیں کہ اپنا غصہ اپنی اولاد پر اتارتی ہیں جس کی وجہ سے معصوم بچے اپنی سنگدل ماؤں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں جب کبھی اپنا سوچا بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ ماں اپنے بچوں سے باپ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتی ہے اور ماں سے اپنے کسی بچے کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی اور بیٹی ہو یا بیٹا ماں کے نزدیک اسے دونوں ہی پیارے ہوتے اور وہ بچوں کی تکلیف دیکھ کر اپنی تکلیف بلکہ بیماری تک بھول جاتی ہے۔ ماں خود بھوکا رہ لیتی ہے، مگر بچے کی بھوک کو خود پر ترجیح دیتی ہے۔

بعض سنگدل ماؤں نے کسی وجہ سے اپنے بچوں کو نہروں اورکنوؤں میں پھینکا اور خود بھی کود کر جان دے دی لیکن انھوں نے ایسا غیر معمولی حالات یا مجبوری میں کیا مگر حال ہی میں خیرپور میرس سندھ میں ایک ماں نے جس کے بچے دو سے 8 سال کی عمر کے تھے نے رات کو کھانے میں شوہر اور اپنے چار کمسن بچوں کو بے ہوشی کی دوائیں کھلا دیں جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اور انتہائی سنگدل ماں نے شوہر کے ریوالور سے پہلے شوہر پر اور بعد میں چاروں بچوں پر فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا اور بعد میں ایک وڈیو بیان ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا کہ میرا شوہر دوسری شادی کر رہا ہے، اس لیے میں نے شوہر اور اپنے چاروں بچوں کو قتل کر دیا ہے اور میں خود بھی خودکشی کر رہی ہوں اور بعد میں اس گھر سے 6 لاشیں برآمد ہوئیں۔

راقم نے ایسی ماں بھی دیکھی جس نے شوہر کے فوت ہونے کے بعد اکلوتے شادی شدہ بیٹے کو بیٹیوں سے مل کر گھر سے نکال دیا اور سامان تک نہیں دیا کیونکہ گھر شوہر اس کے نام کرگیا تھا۔ ظالم ماں کو پھر بھی چین نہیں آیا بلکہ اپنے بیٹے کو اس کی سرکاری ملازمت سے بھی نکلوانے کی مذموم کوشش کرتی رہی۔

ایک اور سنگدل ماں نے اپنے بیٹے کی خود شادی کرائی پھر اپنی بہو کو اس قدر تنگ اور مارا پیٹا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی جس پر بیٹے نے اپنا گھر ماں کے مظالم پر چھوڑ کر کرائے کے گھر میں رہنا شروع کر دیا اور ماں کرائے کے گھر میں بہو کو مارنے پہنچ گئی۔ ستم کی حد ہے کہ ماں نے اپنے شوہر کے فوت ہونے پر باپ کا منہ دیکھنے نہیں دیا اور بہو کو میت والے گھر سے باہر نکلوا دیا اور اپنے بیٹوں کو کہا کہ اپنے بھائی سے تعلق رکھو اور نہ اسے گھر میں داخل ہونے دو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اپنے کرائے کے شوہر کے نہیں ہو نے شوہر دیا اور کی سزا ہے اور کر دیا

پڑھیں:

زندہ رہنا سیکھئے! (حصہ اول)

اکثر لوگوں سے ملتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ خوش نہیں ہیں۔ ماننا یا نہ تسلیم کرنا تو خیر ذاتی جذبہ ہے۔ اپنے اردگرد‘ انسانوں کے رویوں کو غور سے پڑھیے۔ فوری طور پر معلوم پڑ جائے گا‘ کہ خوشی کے ساتھ وقت کے دریا میں تیر رہے ہیں یا مجبوری میں صرف وقت گزار رہے ہیں۔ پختہ عمر کے مرد اور عورتوں میں تو خیر یہ الم زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سنجیدہ عمرمیں ہوں ‘ اور اس عمر میں زندگی اور رشتوں کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ یقین فرمائیے کہ میں نے دکھ اور رنج کو اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکا ہے۔

یہ کس طرح ممکن ہوا ہے اس پر بعد میں عرض کرتا ہوں۔ جوانی میں پر مسرت رہنا بہت آسان ہے۔ آپ کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ شادی ہوتی ہے‘ جو بنیادی طور پر ذمے داری کی ایک اہم قسم ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں وقت گزرتا ہے۔ قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ نوجوان لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ بالکل ہوتے ہیں مگر اس کی وجوہات‘ سنجیدہ عمر کے مقابلے میں یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے انسان کی سوچنے کی قوت حیرت انگیز حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت کو ’’گیان‘‘ کی عمر کہا جاتا ہے۔ جب مرد اور عورت لاتعداد بہاریں دیکھ چکا ہوتا ہے تو اس کی اپنی زندگی میں خزاں ہی خزاں رہ جاتی ہے۔

اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ اور یہ اکلاپا‘ اسے کھا جاتا ہے۔ پر یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس سخت کوش کیفیت کو کسی طرح بدلا جائے؟ کون سا ایسا طرز زندگی اختیار کیا جائے کہ آپ کا ذہن بٹ جائے اور مزاج اور فہم مثبت طرز پر چلنا شروع کر دے۔ طالب علم کی نظر میں یہ بہت ہی آسان کام ہے۔ تمہید کے طور پر عرض کروں گا کہ جب ایم بی بی ایس کر رہا تھا تو میرا پسندیدہ شعبہ‘ سائیکٹری تھا۔ میرے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ میں سرجن بنوں یا میڈیسن کا کامیاب اور نامور طبیب بنوں۔ پوری کوشش تھی کہ انسانی ذہن کو سمجھ سکوں اور اس کے لیے میں نے بہت کچھ پڑھا۔

سائیکٹری وارڈ میں جا کر ‘ مریضوں سے ان کی ذہنی کیفیت معلوم کرنے کے لیے گھنٹوں بلکہ کئی بار دنوں پر مبنی گفتگو کرتا رہا۔ ان کے مرض کو جاننے کے بعد‘ اس کا علاج بھی کرتا رہا۔ مگر مجھے یہ احساس ضرور ہوا کہ ہمارے ملک میں انسانوں کا بہت بڑا مسئلہ‘ ان کی زندگی میں خوشی کے عنصر کا بہت کم ہونا ہے۔ حوادث زمانہ کے تھپیڑے ان کے ذہنوں کو اس طرح جکڑے ہوتے ہیں کہ ان کے قیدی بن جاتے ہیں۔

ان منفی عناصر سے باہر نکلنے کا سوچتے تک نہیں ہیں۔ اس طرز عمل کی بدولت‘ مزید ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دراصل انسانی ذہن کو آج تک مکمل طور پر کوئی بھی نہیں سمجھ پایا۔ شواہد صرف یہی ہیں کہ پانچ سے دس فیصد سے زیادہ‘ سائنس کو ادراک ہی نہیں ہے کہ انسانی فکر اور جذبات کی ہیئت کیا ہے۔ عظیم ترین فلسفی بھی ‘ اس نازک جگہ پر خاموش نظر آتے ہیں۔ ویسے کیا یہ بذات خود ایک سانحہ نہیں ہے کہ انسان کے سب سے اہم ترین جزو ِزندگی کے متعلق ہم بہت ہی کم جانتے اور اس سے بھی کم سمجھتے ہیں۔

یہاں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان کو ہمارے جیسے تضادات سے بھرے سماج میں اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کی کیفیت کے متعلق کوئی بات ہی نہ کی جائے۔ نہیں صاحب‘ ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ ہم بہتری کی کوشش ہی ترک کر دیں۔ کوئی حتمی بات نہیں کر رہا، صرف یہ گزارش کر رہا ہوں کہ دکھوں کی پر خار وادی کو مضبوطی سے عبور کر کے آگے نکلیے ۔ خوشبوئیں اور رنگوں کا میدان آپ کا منتظر ہو گا۔ انسانی ذہن کو پڑھنے کی کوشش ضرور کرتا رہا ہوں۔ مگر ‘ کبھی بھی عام لکھاریوں کی طرح یہ بیانیہ نہیں بنایا کہ Motivational Speaker یا motivatorبنوں۔ مجھے ان دونوں الفاظ سے اتنی ہی الجھن ہے جتنا کہ ان لوگوں سے‘ جو ہر جگہ جاہلانہ باتیں کر کے لوگوں کو مرعوب کرتے نظر آتے ہیں۔ داد کے ساتھ ساتھ پیسے بھی سمیٹتے ہیں۔ چلیے چھوڑیے۔ آپ زندگی کے کسی بھی حصے میں ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں ہیں۔

سب سے پہلے‘ یقین ِمحکم کیجیے کہ آپ اس دنیا کے اہم ترین جزو ہیں۔ کائنات کی ہر چیز ‘ آپ اور صرف آپ ہی کی خدمت پر مامور ہے۔اپنی اہمیت کو پہچانیے اور اس کی قدر کیجیے۔ بھول جایئے کہ مختلف عزیزوں یا دوستوں یا نظام نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ عمر کو بالائے طاق رکھیے، بغیر کسی سہارے اور ساتھ کے‘ معمولی سی ورزش کی جانب فیصلہ فرمایئے۔ خدانخواستہ اگر کوئی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے آپ چل پھر نہیں سکتے۔

اس کے باوجود ‘ بستر سے اٹھنے کی کوشش ضرور کیجیے۔ تھوڑے سے قدم اٹھایئے ۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو ایک ایسا نکتہ عرض کرتا ہوں جس سے آپ کاوقت بھرپور طریقے سے گزرے گا۔ رنگین مچھلیوں کا چھوٹا سا اکویورم Aquarium اپنے کمرے میں ایسی جگہ رکھ لیجیے جہاں آپ انھیں ہر وقت دیکھ سکیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیوں کو پانی میں گھومتے پھرتے دیکھ کر‘ وقتی طور پر آپ کے دماغ میں منفی خیالات کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے۔ اس مشورہ کو بالکل ناقدری کی نگاہ سے نہ دیکھیے ۔ کیونکہ‘ جدید تحقیق کے لحاظ سے‘ مچھلیوں کو دیکھنے کی یہ عادتStress اور Monotonyکو ختم کرنے کے لیے بہترین عمل ہے۔

آیئے، اب اپنی عمر کے حساب سے ہلکی پھلکی ورزش شروع کیجیے۔ جو مرضی ہو جائے ‘ کیسا بھی موسم ہو۔ اپنی جسمانی ورزش کو ہفتے میں چھ دن مسلسل کرتے رہیں۔ صرف ایک دن چھٹی کیجیے۔ واک ‘ ہر عمر کے لیے ایک کمال ورزش ہے۔ پیدل چلنے سے جو ذہنی اور جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بیان سے باہر ہیں۔ معاملہ کو آگے بڑھایئے ۔ اگر جوگنگ کر سکتے ہیں تو ضرور کیجیے۔

تیز دوڑیئے ‘ پسینہ نکالیے‘ اپنے آپ کو تھکا دیجیے ۔ دنوں میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگیں گے۔ جسمانی ورزش کو بالکل اس طرح سمجھیے جیسے یہ ایک مقصد حیات ہے۔کسی بھی طرح کی جسمانی حرکت‘ ذہن کو سکون بخشے گی۔ نیند بہتر ہوجائے گی۔ نیند کی گولیوں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ صرف یہ سوچیے کہ ‘ کسی کے لیے نہیں ۔ اپنے لیے ‘ صرف اپنی ذات کے لیے بہتری کے کام کر رہے ہیں۔

آگے بڑھیے۔ اپنی غذا کی مقدار پر خود قابو حاصل کیجیے۔ کھانے کی زیادتی یا کمی ‘ دونوں خطرناک عوامل ہیں۔ بہت سی ذہنی الجھنیں ایسی ہیں جن میں انسان کا اپنے کھانے پر کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ انسان ہر وقت کھاتا رہتا ہے۔ اس کی بھوک ختم ہی نہیں ہوتی۔ متضاد رویہ یہ بھی ہے‘ کہ انسان‘ کھانا بہت ہی کم کر دیتا ہے۔ کئی بار تو اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اسے غذا کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ یہ دونوں علامات صرف ایک امر کی ہیں کہ آپ شدید ذہنی دباؤ میں ہیں۔ صحت کی کنجی یہ ہے کہ ‘ اپنے کھانے کی مقدار کو ترتیب دے دیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ ہر وقت مٹن‘ فش اور مہنگی اشیاء کھایئے۔ دالیں‘ سبزیاں اور سلاد کو فوقیت دیں۔ Carbohydrates جیسے روٹی ‘ چاول اور اس قماش کی چیزوں کو کم سے کم کر دیں۔ پانی زیادہ استعمال کریں۔ ہاں اگر آپ اتنی قوت رکھتے ہیں تو ایک دن بالکل کھانا نہ کھائیں ۔ صرف پانی پئیں۔ Interimittent Fasting کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔یہ فاقہ کشی اندر سے اتنا مضبوط کر دے گی کہ آپ خود حیران رہ جائیں گے۔

ہاں‘ پھلوں کو اپنی غذا بنا لیجیے ۔ مہنگائی کے اس دور میں‘ امردو‘ کینو‘ تربوز اور اس طرح کے سستے پھلوں کی طرف متوجہ ہوں۔بلکہ دن رات میں ایک کھانا ترک کر کے صرف اور صرف پھل استعمال کیجیے۔ اپنی ذات کے مالک آپ خود ہیں۔ کھانا اپنے اختیار میں ہے۔ پوری ذہنی طاقت سے اسے قابو میں لایئے۔ جو کھا رہے ہیں اسے ایک ڈائری پر لکھنا شروع کر دیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں‘ ایک حیرت انگیز تبدیلی آئے گی۔ احساس ہو جائے گا کہ کتنی غیر ضروری اشیاء کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی لیکچر نہیں دے رہا، عام سی باتیں کر رہا ہوں۔ یہ ہر ایک کے علم میں ہیں۔ مگر اکثریت ان کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتی ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرونگا کہ اپنے پورے دن اور رات پر غور کیجیے۔ دنیا میں اربوں لوگ رہتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اس محدود وقت میں‘ اتنے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دے ڈالتے ہیں کہ ان کا نام امر ہو جاتا ہے۔

صدیاں گزر جاتی ہیں مگر وہ زندہ رہتے ہیں۔ مگر اکثریت ان چوبیس گھنٹوں کو اس بے دردی سے ضایع کرتی ہے کہ رزق ِخاک بننے کے بعد‘ ان کا نام تک کسی کو یاد نہیں رہتا۔ اپنے دن اور رات کے اوقات احتیاط سے ترتیب کریں۔ اس روٹین میں بالکل نئے شوق شامل کریں۔ انھیں بہتر بنانے کی کوشش کریں۔اپنی عمر اور استطاعت کے حساب سے کوئی نیا ہنر سیکھئے ۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کوشش کر کے ایک نئی ہابی کو زندگی میں استوار کیجیے ۔پرندے ‘ جانوروں اور سبزے پر توجہ دیجیے ۔مگر جو چیز مناسب نہیں لگتی اس سے مکمل اجتناب کیجیے ۔

(جاری ہے۔)

متعلقہ مضامین

  • گووندا اچھے بیٹے اور بھائی مگر خاوند نہیں، اگلے جنم میں بطور شوہر نہیں چاہتی؛ سنیتا
  • گووندا اچھے بیٹے اور بھائی تو ہیں لیکن خاوند نہیں، اگلے جنم میں شوہر کے طور پر نہیں چاہتی؛بیوی سنیتا
  • بالی ووڈ فلم سے متاثر شوہر نے بیوی کو قتل ، لاش بھٹی میں جلادی
  • دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
  • مشعال ملک کا صدر ٹرمپ کو خط، شوہر سے انصاف کے لیے مدد مانگ لی
  • نیلم منیر شادی کے بعد شوہر کیساتھ پہلی بار منظر عام پر آگئیں، ویڈیو وائرل
  • چینی نوجوان جوڑے کو لوگ جڑواں بہن بھائی سمجھنے لگے
  • زندہ رہنا سیکھئے! (حصہ اول)
  • اترپردیش: شوہروں کا بیگمات کے ہاتھوں قتل، بیجا دوستیوں نے کئی گھر اجاڑ دیے