Jasarat News:
2025-11-09@23:17:40 GMT

محنت کشوں کے حقوق کا ضامن مزدور قانون

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

متحدہ پاکستان کے دور میں 18 مئی 1968 کو صنعتی ملازمین سے متعلق قانون کو یکجا اور اس میں ترمیم کرکے مغربی پاکستان صنعتی و تجارتی (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968 نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون کو وضع کرتے وقت پچھلے صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1960 (آرڈیننس نمبر III آف 1960) کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968مسلمہ طور پر کارکنوں کے لیے ایک جامع فلاحی قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس آرڈیننس کا اطلاق پورے پاکستان پر ہوتا ہے، ماسوائے مرکزی اور صوبائی حکومت کے اداروں کے۔
اس قانون کے ذریعے صنعتی ملازمت سے متعلق قانون میں ترمیم اور اس کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس شیڈول میں وہ احکامات قائمہ شامل ہیں جو متعین صنعتوں میں ملازمت کرنے والے کارکنوں کی ملازمتوں کو منظم کرتے ہیں۔ یہ ملازمتی قانون کارکنوں کو ان کے آئینی اور قانونی فوائد فراہم کرنے اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے وضع کیا گیا تھا اور اس کے احکامات کو کارکن کی حمایت میں تعبیر کیا جانا چاہیے۔
لیکن 8 اپریل 2010 میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق سے دیگر بے شمار شعبوں سمیت شعبہ محنت (Labor Subject) کو ختم کرکے اسے صوبوں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد مغربی پاکستان صنعتی و تجارتی (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968 کو وفاقی علاقہ اسلام آباد، صوبہ پنجاب،صوبہ سندھ،صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں ترمیمی قانون کے ذریعے نظر ثانی کرکے وضع کیا گیا تھا۔

ہم اپنے اس مضمون میں افادہ عام کے لیے اس کارآمد مزدور قانون، صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ) آرڈیننس 1968 کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔
اس قانون کے مقاصد میں آجروں اور کارکنوں کو مخصوص تحفظ کی فراہمی، کارکنوں کی فلاح و بہبود، کارکنوں کی ملازمتوں کا تحفظ، شرائط ملازمت کا تحفظ، تنازعات کا باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ تصفیہ اور آجروں اور کارکنوں کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس قانون کا اطلاق کسی بھی ایسے صنعتی، کاروباری، تجارتی یا دیگر اداروں پر ہوتا ہے جہاں بیس یا زائد کارکنان ملازم ہوں،خواہ کارکنان براہِ راست یا کسی اور کے ذریعے ملازم رکھے گئے ہوں یا پچھلے 12 مہینوں کے دوران کسی بھی دن اتنے ملازم رکھے گئے ہوں۔
جبکہ ٹھیکیداری ملازمین کے معاملے میں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان احکامات قائمہ پر عمل درآمد کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، اس ادارہ پر یا ٹھیکیدارپر جس کو وہ کارکنوں کی افرادی قوت فراہم کرتا ہے۔؟ عدالتی فیصلوں کے مطابق جو شخص ملازمین پر کنٹرول رکھتا ہے، اسے آجر (Employer) تصور کیا جائے گا اور وہ ان احکامات قائمہ کی دفعات پر عمل درآمد کا پابند ہوگا۔
پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق کارکنوں پر کنٹرول ثابت کرنے کے لیے درج ذیل عوامل کو مدِنظر رکھا جاتا ہے:

(1) ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کون کرتا ہے!
(2) ملازمین کو بھرتی یا برطرف کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔
(3) انتظامی کنٹرول کس کے پاس ہے، وغیرہ
اس ملازمتی قانون کے تحت آجران کولازمی طور پر کارکنوں کی ملازمت کی شرائط و ضوابط مرتب کرنے، کارکنوں کو تحریری تقرر نامہ جاری کرنے، جن میں کارکنوں کے روزگار سے متعلق شرائط و ضوابط،اوقاتِ کار، دوران ملازمت تبدیلی اور ترقی، ملازمت کے خاتمے کے اصول اور روزگار سے متعلق دیگر شرائط وغیرہ کی صراحت کی گئی ہو، کے تحریری احکامات جاری کرنا ہوں گے۔
اس آرڈیننس کا مقصد کارکنوں کی ملازمت کے طریقہ کار کو یکساں اور باضابطہ بنانا، صنعتی، کاروباری،تجارتی اور دیگر شعبوں میں کارکنان کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنانا ہے۔
صنعتی و تجارتی ملازمت (احکامات قائمہ ) آرڈیننس 1968 کی رو سے کارکنوں کی درجہ بندی، ٹکٹس کا اجراء، کارکنوں کو ملازمت کی شرائط و ضوابط تحریری طورپرفراہم کرنا، اوقاتِ کار اور اجرتوں کی تشہیر، ہفتہ وار رخصت، تعطیلات اور تنخواہ کے دنوں اوراجرت کی شرح کی تشہیر،اجتماعی ترغیبی منصوبہ(Group Incentive Scheme) ، کارکنوں کی طبعی یا حادثاتی موت سے تحفظ کے لیے لازمی گروپ انشورنس، بونس کی ادائیگی، شفٹوں کے اوقات، کام پرحاضری، کارکنوں کی تاخیر سے ڈیوٹی پر آمد، ادارے کی بندش، کام بند کرنا اور کارکنوں کی ملازمت کا خاتمہ، عملہ میں کمی یعنی چھانٹی ((Retrenchment) کا طریقہ کار اور چھانٹی کے شکار کارکنان کی دوبارہ ملازمت اور بدعملیوں پر تنبیہ اور جرمانے کی سزائیں شامل ہیں۔
اس قانون کے مطابق کارکن سے مراد کوئی بھی وہ شخص ہے جو کسی صنعتی، کاروباری، تجارتی یا دیگر اداروں میں ملازمت کے عوض ہنر مند یا غیر ہنر مند، دستی یا دفتری کام انجام دیتا ہو۔ صنعتی و تجارتی ملازمت (اسٹینڈنگ آرڈرز) آرڈیننس 1968 میں کارکنوں کو 6 بنیادی اقسام مستقل، آزمائشی،بدلی،عارضی، زیر تربیت/شاگرد اور ٹھیکیداری میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(جاری )

اسرار ایوبی گلزار

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: صنعتی و تجارتی ملازمت کارکنوں کی ملازمت احکامات قائمہ ا رڈیننس 1968 کارکنوں کو قانون کے کیا گیا گیا تھا کے لیے

پڑھیں:

27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری، وزیراعظم نے حکومتی، اتحادی سینیٹرز کو عشائیے پر بلا لیا

سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی، وزیراعظم نے حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کو آج عشائیے پر مدعو کرلیا ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ عشائیے کا مقصد آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پارلیمانی حکمت عملی کو حتمی شکل دینا اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہے۔

وزیراعظم اس موقع پر سینیٹرز کے تحفظات بھی دور کریں گے، وزیراعظم کی جانب سے تمام حکومتی اور اتحادی سینیٹرز کو دعوت نامے موصول ہو گئے ہیں۔

عشائیہ آج شام ساڑھے 6 بجے وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا۔

27ویں ترمیم کا بل قائمہ کمیٹی کے سپرد
27ویں آئینی ترمیم کا بل ہفتے کے روز سینیٹ میں پیش کر دیا گیا تھا، اور اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا تھا، کچھ دیر قبل ہی وفاقی کابینہ نے اس کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
تقریباً دوپہر کو سوا ایک بجے کچھ تاخیر سے شروع ہونے والے سینیٹ اجلاس کا آغاز ہوا تو وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سوال و جواب کے سیشن اور دیگر کارروائی معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اراکینِ سینیٹ کو ترمیم سے آگاہ کر سکیں۔

وزیرِ قانون نے بل ایوانِ بالا میں پیش کیا، جس پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اسے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو جائزے اور غور کے لیے بھیج دیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ ایوان میں پیش کیا گیا بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر تفصیلی غور کرے، پارلیمانی روایت اور آئینی ترامیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین اور اراکین کو بھی مدعو کرے تاکہ وہ اس عمل میں شریک ہو سکیں اور اپنی تجاویز دیں۔

انہوں نے مزید کہاتھا کہ دونوں کمیٹیاں مشترکہ اجلاس منعقد کر سکتی ہیں اور تفصیلی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی۔

اجلاس کے دوران تحریکِ انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ جب اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی ہے تو آئینی ترمیم پر بحث مناسب نہیں، حکومت اور اتحادی جماعتیں بل کو جلد بازی میں منظور کرانا چاہتی ہیں۔

علی ظفر نے کہا تھا کہ میں یہ مشورہ دوں گا کہ اسے کمیٹی میں بھیجنے کے بجائے پورے سینیٹ کو ہی کمیٹی تصور کیا جائے تاکہ تمام اراکین بحث میں حصہ لے سکیں, اپوزیشن کو آج ہی بل کا مسودہ ملا ہے اور اب تک انہوں نے اسے پڑھا بھی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایسی چیز پر بحث نہیں کر سکتے جو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈ یونینز اور طلبہ سیاست کے خاتمے نے ملک کوسیاسی بانجھ بنا دیا ‘اسامہ رضی
  • سندھ کے محنت کش جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں شرکت کریں گے
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کی رپورٹ کل پیش کی جائے گی، ایجنڈا
  • پارلیمنٹ ، مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے قانون سے 27 ویں ترمیم کا مسودہ منظور
  • مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے آرٹیکل 243 میں ترامیم کی منظوری دے دی
  • ستائیس ویں آئینی ترمیم پر پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس جاری
  • 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری، وزیراعظم نے حکومتی، اتحادی سینیٹرز کو عشائیے پر بلا لیا
  • قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس
  • لیبر قوانین پر عمل نہیں ہورہا، مزدور آج بھی مشکل میں ہیں ، شکیل احمد