Islam Times:
2025-11-08@12:36:39 GMT

امن مسلط کرنے کا منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT

امن مسلط کرنے کا منصوبہ

اسلام ٹائمز: اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اسکے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کرینگے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد کہ غزہ میں بہت جلد بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی جائے گی، اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو "آخری سرنگ تک" تباہ اور ان کا صفایا کر دیں۔ کاٹز نے اپنے X پلیٹ فارم اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا: "اگر سرنگیں نہیں ہیں تو حماس نہیں ہوگی۔“ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے اسے شکست دینا چاہتا ہے۔ یعنی اسرائیل وہ کام کرنا چاہتا ہے، جو وہ دو سال کی تباہ کن جنگ کے دوران کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کاٹز کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں ایک "بین الاقوامی انفورسمنٹ فورس" کے قیام کی امریکی تجویز اور ٹرمپ کے اس اعلان کی روشنی میں آیا ہے کہ "یہ کام بہت جلد ہو جائے گا۔"

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل، زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں اپنا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل دوسرے مرحلے میں جانے سے پہلے غزہ میں باقی تمام لاشوں کی بازیابی پر اصرار کرتا ہے اور 2027ء کے آخر تک غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی بھی چاہتا ہے۔ بین الاقوامی فورس کے اس امریکی منصوبے کے تحت اس فورس کے دائرہء مسئولیت میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کے ساتھ تربیت اور شراکت داری اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرکے سلامتی کے ماحول کو مستحکم کرنا، بشمول فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو روکنا اور مستقل طور پر مسلح گروپوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حماس رضاکارانہ طور پر خود کو غیر مسلح نہیں کرتی تو یہ کام بین الاقوامی فورس کرے گی، لیکن اسرائیل کو یقین نہیں ہے کہ یہ کام بین الاقوامی طاقت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ کاٹز کے بیان سے پہلے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا ہدف "یا تو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے آسان طریقے سے حاصل کیا جائے گا، یا پھر اسرائیل کے ذریعے مشکل راستے سے۔" دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جمعرات کی شام ہونے والی میٹنگ سے "یڈیوٹ احرونوت" اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے اقتباسات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے "یلو زون" میں ایک ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد انہیں حماس کے جنگجوؤں سے الگ کرنا ہے۔

دریں اثناء، اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے رفح سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کسی بھی "ڈیل" کو مسترد کر دیا ہے اور تمام مقتول قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے پہلے حماس کے ساتھ معاہدے کے اگلے مرحلے پر آگے نہ بڑھنے اور حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے سے پہلے پٹی کی تعمیر نو کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ضمیر نے کابینہ کے اجلاس میں حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کہا: "یا تو وہ ہتھیار ڈال دیں یا ہم انہیں ختم کر دیں گے۔ بحث کے دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزراء کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوا، جب انہوں نے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی زیر کنٹرول علاقے میں ایک "ماڈل سٹی" قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد حماس کو آبادی سے الگ کرنا تھا۔

نیتن یاہو کے اس منصوبے کی اس کی کئی وزراء نے مخالفت کی۔ سائنس کے وزیر گیلا گیملیل نے کہا، "یہ خطرناک ہے۔" وزراء نے مطالبہ کیا کہ اس شہر کو سرحد کے اس طرف اسرائیل کے زیر کنٹرول نہ بنایا جائے۔ نیتن یاہو نے سیشن میں یہ بھی انکشاف کیا کہ منصوبہ بند بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس پہلے المواسی کے علاقے میں داخل ہوگی، جو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک عالمی طاقت کے ساتھ محتاط انداز میں نمٹ رہا ہے، نہ اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور نہ ہی اسے مسترد کر رہا ہے۔ اگرچہ مجوزہ فورس کی تشکیل کی تفصیلات اس کے مطالبات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، لیکن اس پر تحفظات بھی ہیں۔

اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ فورس سلامتی کونسل کے ذریعے تشکیل دی جائے، وہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی اور ترک افواج کی ممکنہ موجودگی کو بھی مسترد کرتا ہے، تاہم فلسطینی پولیس فورس کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اس کے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کریں گے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کو غیر مسلح اس فورس میں کرنے کے لیے کی موجودگی غزہ کی پٹی نیتن یاہو کے ذریعے کے ساتھ فورس کی فورس کے حماس کے سے پہلے رہا ہے

پڑھیں:

زہران حماس کے حامی ہیں، نیویارک سے تمام یہودی وطن واپس آجائیں، اسرائیل

اسرائیلی وزیر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ زہران ممدانی کی کامیابی نیویارک کی یہودی برادری کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ ان کے بقول نیویارک شہر کبھی آزادی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن اب ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے جو اسرائیل مخالف مؤقف رکھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ساری دنیا میں نیویارک کے پہلے مسلم اور کم عمر میئر منتخب ہونے پر زہران ممدانی کو ان کے مذہب، قوم اور رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر سراہا جا رہا ہے لیکن اسرائیل اس موقع پر بھی نفرت انگیزی سے باز نہ آیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے وزیر برائے تارکین وطن امور امیخائے چکلی نے زہران ممدانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں حماس کا ہمدرد قرار دیدیا۔ اسرائیلی وزیر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ زہران ممدانی کی کامیابی نیویارک کی یہودی برادری کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ ان کے بقول نیویارک شہر کبھی آزادی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن اب ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے جو اسرائیل مخالف مؤقف رکھتا ہے۔ اسرائیلی وزیر نے کہا کہ یہ وہی نیویارک ہے جہاں 19ویں صدی میں یہودی پناہ گزینوں نے آزادی سے زندگی گزاری۔ مگر اب اس شہر کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔

انھوں نے نیویارک کے یہودیوں کو مشورہ دیا کہ حماس کے حامی زہران ممدانی کے میئر بننے پر تمام یہودی نیویارک چھوڑ کر اسرائیل منتقل ہونے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ امیخائے چکلی کے بقول نیویارک بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے جس پر لندن پہلے ہی چل پڑا تھا اور جو لوگ حالات کو معمولی سمجھ رہے ہیں وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ زہران ممدانی فلسطینیوں کے حقوق کے پرزور حامی ہیں اور ماضی میں متعدد بار اسرائیل کی جارحانہ اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

زہران ممدانی نے انتخابی مہم کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے تو عالمی عدالت کی تعمیل میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو نیویارک آمد پر گرفتار کرلیں گے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ زہران ممدانی کا یہ اعلان محض علامتی تھا۔ امریکی قوانین کے تحت نیویارک پولیس عالمی عدالت کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل نہیں کر سکتی اور نیتن یاہو کو بطور سربراہ مملکت سفارتی استثنیٰ بھی حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لیے اگر نومنتخب مسلم میئر نیویارک زہران ممدانی نے نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم دیا تو یہ امریکی وفاقی قانون کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • حماس نے ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے کردی
  • اسرائیل کا اپنی فوج کو غزہ میں تمام سرنگوں کو تباہ کرنے کا حکم
  • امریکا کی قیادت میں تشکیل دی گئی بین الاقوامی فورس غزہ میں امن و استحکام کو یقینی بنائے گی: ٹرمپ
  • حماس آج رات اسرائیلی یرغمالی کی لاش حوالے کرے گا، غزہ جنگ بندی کے تحت
  • امریکی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس غزہ میں جلد تعینات ہوگی
  • غزہ میں استحکام کے لیے بین الاقوامی فورس بہت جلد تعینات کی جائے گی، امریکی صدر
  • غزہ میں بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی
  • زہران حماس کے حامی ہیں، نیویارک سے تمام یہودی وطن واپس آجائیں، اسرائیل
  • نیویارک کی چابیاں حماس کے حامی کے حوالے، اسرائیل میں کہرام مچ گیا