غزہ میں بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: فلسطینی نقطہ نظر سے، غزہ کے سیاسی اور سکیورٹی ڈھانچے کے بارے میں فیصلے غیر ملکی اداکاروں پر نہیں چھوڑے جانے چاہئیں اور فیصلہ سازی کی آزادی اور قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے صرف اندرونی فلسطینی گروہوں اور اداروں کو پالیسیوں کا تعین کرنے اور اپنے لوگوں کو اہم امور کا انتظام کرنے کا اختیار ہونا چاہیئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے عہدے دار بھی مغربی ممالک اور امریکہ کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور انہوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ صیہونیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار کو قبول کرنے سے حکومت کی مستقبل میں اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے کارروائی کی آزادی محدود ہوسکتی ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
ایک ایسے وقت جبکہ نیتن یاہو حکومت نے جنگ بندی کے باوجود غزہ پر مسلسل حملوں اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ضامن اور بین الاقوامی ثالث اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کو نظرانداز کرکے تمام تر توجہ غزہ میں ایک بین الاقوامی کمیٹی کے قیام پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں، Axios ویب سائٹ نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی ہے، جس کا مقصد غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس قائم کرنا ہے۔ واشنگٹن نے غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام پر غور کرنے کے لیے یہ مسودہ کونسل کے متعدد اراکین کو بھیج دیا ہے۔ یہ مسودہ امریکہ اور شریک ممالک کو غزہ پر حکومت کرنے اور اس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے وسیع اختیارات دیتا ہے۔ قرارداد کے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ میں "امن کونسل" نامی ادارے کو کم از کم 2027ء کے آخر تک جاری رکھا جائے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی فورس کو اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانے، شہریوں کی حفاظت اور انسانی بنیادوں پر ضروری اشیاء کی رسائی کو یقینی بنانے کا کام سونپا جائے گا۔
دیگر کاموں میں فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو تباہ کرنا اور روکنا، گروپوں کو غیر مسلح کرنا اور فلسطینی پولیس فورس کو تربیت دینا، جو فورس کے مشن میں شراکت دار ہوگی۔ قرارداد کے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج "جنگ بندی کے معاہدے کی حمایت" کے لیے اضافی مشن لے گی۔ دریں اثناء فاکس نیوز نے امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس تلسی گبارڈ کے حوالے سے بتایا کہ غزہ میں استحکام کے لیے 16 ممالک اور 20 سرکاری ادارے ملٹی نیشنل فورس میں حصہ لیں گے۔ یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب غزہ میں اس طرح کی فورس کے قیام کی نوعیت کے بارے میں مزاحمتی گروپوں اور بیرونی جماعتوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے، کیونکہ غزہ کے زیادہ تر باشندوں اور مزاحمتی گروپوں کا خیال ہے کہ اگرچہ اس طرح کے منصوبے کا دعویٰ غزہ میں امن و سلامتی اور جنگ بندی کے تسلسل کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن عملی طور پر یہ غیر ملکیوں کے لیے غزہ پر سیاسی کنٹرول کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے رہنماؤں نے اس سے قبل ایک بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے غزہ کی انتظامیہ کے خلاف اپنی واضح مخالفت کا اظہار کیا تھا۔ فلسطینی نقطہ نظر سے، غزہ کے سیاسی اور سکیورٹی ڈھانچے کے بارے میں فیصلے غیر ملکی اداکاروں پر نہیں چھوڑے جانے چاہئیں اور فیصلہ سازی کی آزادی اور قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے صرف اندرونی فلسطینی گروہوں اور اداروں کو پالیسیوں کا تعین کرنے اور اپنے لوگوں کو اہم امور کا انتظام کرنے کا اختیار ہونا چاہیئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے عہدے دار بھی مغربی ممالک اور امریکہ کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور انہوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ صیہونیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار کو قبول کرنے سے حکومت کی مستقبل میں اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے کارروائی کی آزادی محدود ہوسکتی ہے۔
عالمی کمیٹی کے سامنے تل ابیب کا گریٹ ڈیم
اگرچہ، ہمیشہ کی طرح، اس قرارداد کی تفصیلات صیہونی حکومت کے حق میں تیار کی گئی ہیں، لیکن اسرائیل غزہ میں کسی بھی بین الاقوامی فوج کی تعیناتی کو اپنی پالیسیوں کے خلاف سمجھتا ہے اور جیسا کہ صہیونی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سینٹر نے پیر کے روز رپورٹ کیا کہ واشنگٹن کی کوششوں کے نتیجے میں کثیر القومی قوت کی تشکیل کے عمل کو تیز کرنے کے حوالے سے اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق "نیتن یاہو کی کابینہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر بین الاقوامی فورس کے قیام یا اس بین الاقوامی فورس میں ترک مسلح افواج کی شمولیت کی مخالف ہے۔ قابض حکومت ایسی فورس کی موجودگی کے بارے میں انتہائی شکوک و شبہات کا شکار ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ لبنان میں UNIFIL جیسا مشن غزہ میں قائم ہو۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، ایک ایسے علاقے میں غیر جانبدار افواج کی تعیناتی، جسے وہ اپنا "اہم سکیورٹی زون"سمجھتا ہے، صہیونی فوج کی کارروائی کی آزادی میں کمی، فوجی کارروائیوں کی عالمی نگرانی، بین الاقوامی اخراجات اور قانونی بوجھ میں اضافہ کاباعث بنے گی۔
مزید برآں، تل ابیب اس اقدام کو نہ صرف داخلی سلامتی کے معاملات میں مداخلت کے طور پر دیکھتا ہے، بلکہ حماس کی سیاسی حیثیت کو بالواسطہ تسلیم کرنے کی جانب ایک قدم کے طور پر بھی دیکھتا ہے، کیونکہ تحریک حماس کے سویلین ونگ کے ایک حصہ کا بین الاقوامی کمیٹی کے فریم ورک میں شرکت کرنے کا امکان ہے۔ تل ابیب کے حکام کو یہ خدشہ بھی ہے کہ بین الاقوامی افواج کی موجودگی عالمی رائے عامہ کو صہیونی فوج کے اقدامات کے بارے میں حساس بنا سکتی ہے، جس سے جنگی جرائم کے دستاویزی ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور صیہونی حکومت کے خلاف قانونی دباؤ کا امکان بڑھ جائے گا۔ دوسری جانب، اگرچہ ممکنہ بین الاقوامی قوت کی تشکیل کا ابھی تک تعین نہیں کیا گیا ہے، تاہم ترکی اور مصر جیسے ممالک کی شرکت کے بارے میں قیاس آرائیوں کو تل ابیب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ان دونوں ممالک کی شرکت سے غزہ میں سیاسی اور سلامتی کے توازن کو تل ابیب کے لیے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ترکی، تل ابیب کی پالیسیوں اور فلسطینی کاز کے لیے اس کی کھلی حمایت کے حوالے سے اپنے تنقیدی موقف کے ساتھ، ممکنہ طور پر میدانی فیصلوں میں اس طرح عمل کرے گا، جس سے فلسطینی مفادات کو تقویت ملے۔ نیز، مصر کی شرکت، غزہ کے جنوبی پڑوسی اور رفح کراسنگ پر اثر و رسوخ کے روایتی حامل کے طور پر، انسانی ہمدردی، سلامتی اور لاجسٹک معاملات کے انتظام میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ لہٰذا، بین الاقوامی ڈھانچے میں ان دونوں ممالک کی شرکت کا مطلب فلسطینیوں کے لیے سیاسی جواز میں اضافہ اور تل ابیب کے زیر کنٹرول میکانزم پر انحصار کم کرنا ہے، جبکہ بین الاقوامی کمیٹی کے فریم ورک کے اندر موجود قوتوں کے اسی امتزاج کو صیہونی حکومت کے لیے غزہ پر براہ راست سکیورٹی اور انٹیلی جنس کنٹرول کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
کثیر القومی فورس کا مبہم امکان
وائٹ ہاؤس کے حکام کی جانب سے اپنے آپ کو مقبوضہ علاقوں میں امن کے نجات دہندہ کے طور پر متعارف کرانے کی سفارتی کوششوں کے باوجود غزہ میں کسی بھی کثیر القومی فورس کی کامیابی کا انحصار کئی عوامل پر منحصر ہے۔ اہم کرداروں کے درمیان سیاسی اتفاق رائے کا حصول، ایک واضح اور شفاف مشن کی وضاحت، پائیدار مالی وسائل کی فراہمی اور امن عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حقیقی ارادہ اس اقدام کی کامیابی کے لیے اہم ترین شرائط میں سے ہیں۔ ان اجزاء میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی اس منصوبے کے ناکام ہونے کا امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔ بحرانی علاقوں میں بین الاقوامی مشنوں کا تجربہ اور خاص طور پر حکومت کی طرف سے وعدوں کی خلاف ورزیوں اور جنگ بندی کی متعدد خلاف ورزیوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ متحارب فریقوں کے درمیان پائیدار معاہدے کی عدم موجودگی میں، امن فوج اکثر علامتی اور غیر موثر ڈھانچہ بن جاتی ہے۔
لبنان میں UNIFIL فورسز اس صورتحال کی واضح مثال ہیں۔ ایک مخصوص مشن کے باوجود، اسرائیلی فوج نے گذشتہ دو سالوں میں بارہا ان فورسز کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور فروری میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے اب تک 9,400 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کارروائی نے ان قوتوں کی تاثیر پر مکمل طور پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس ناکام تجربے کے پیش نظر غزہ کی صورت حال بہت زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی، کیونکہ اسرائیلی فوج مکمل کنٹرول کے ساتھ جنگ بندی کے عمل کی براہ راست نگرانی کرے گی، جس سے بین الاقوامی قوت اپنے حقیقی اہداف کو حاصل کرنے سے روک سکتی ہے۔ لہٰذا، قابض حکومت کی کھلم کھلا مخالفت، مزاحمتی گروپوں کے افواج کی غیر جانبداری کے بارے میں شکوک و شبہات اور محاصرہ ختم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کا فقدان، یہ سب اقدامات بین الاقوامی قوت کے مشن کو انجام دینے کی صلاحیت کو کمزور کرتے ہیں۔
چونکہ بین الاقوامی طاقت کے اہم مقاصد میں سے ایک مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنا اور ایک بے دفاع غزہ بنانا ہے، اس لیے اس امریکی منصوبے پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں اس کے زیادہ دیر تک چلنے کا امکان نہیں ہے۔ عملی طور پر، یہ فورس اسرائیلی فوجیوں کی مسلسل موجودگی کا بہانہ بن سکتی ہے، جو "بین الاقوامی مشن کی حمایت" کی آڑ میں غزہ پر قبضہ اور براہ راست کنٹرول جاری رکھ سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کا بنیادی مطالبہ قابض افواج کا مکمل انخلاء ہے جبکہ واشنگٹن کی قرارداد نے قبضے کا راستہ کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اسی بنیاد پر وزیر خارجہ جدعون ساعار اور صیہونی حکومت کے وزیر توانائی ایلی کوہن نے اپنے تازہ ترین موقف میں دعویٰ کیا ہے کہ حماس کی تباہی ٹرمپ کے منصوبے کا حصہ ہے اور وہ میدان جنگ میں واپس آکر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سخت گیر صیہونی وزراء کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صہیونیوں کے کنٹرول سے باہر کسی کمیٹی کو غزہ پر کنٹرول نہیں کرنے دیں گے۔
اس وجہ سے امکان ہے کہ واشنگٹن کی حمایت یافتہ کمیٹی محض ایک پروپیگنڈہ اقدام ہی رہے گی اور اسے کبھی عملی جامہ پہنایا نہیں جائے گا۔ صیہونی حکومت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے کا بارہا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حکومت نئے بہانوں سے فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر اور عام شہریوں کو قتل کرسکتی ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ امریکی اقدام ممکنہ طور پر حقیقی امن کی طرف لے جانے کے بجائے بحران کو جاری رکھنے اور قبضے کو مستحکم کرنے میں سہولت فراہم کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے، جب وہ بحران کو عارضی طور پر سنبھالنے کے بجائے تنازع کی بنیادی وجہ کو حل کرنے، محاصرہ ختم کرنے اور فلسطینی عوام کے حقیقی حقوق کی ضمانت دینے پر توجہ مرکوز کرے، البتہ موجودہ حالات میں یہ اقدام ناقابل عمل اور ناقابل حصول ہدف ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی فورس ایک بین الاقوامی صیہونی حکومت کے کہ بین الاقوامی مزاحمتی گروپوں اسرائیلی فوج جنگ بندی کے کے بارے میں جنگ بندی کی کی تعیناتی تل ابیب کے نیتن یاہو کے طور پر حکومت کی کا امکان افواج کی کرنے اور کمیٹی کے کی آزادی میں ایک کی شرکت کے قیام کی خلاف سکتی ہے فورس کی فورس کے کرنے کا کہ غزہ گیا ہے یہ بھی کی طرف کے لیے غزہ کے ہے اور
پڑھیں:
اے این ایف کی ضلع خیبر میں بڑی کارروائی، 144 کلوگرام چرس برآمد
پشاور (نیوز ڈیسک) اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے ضلع خیبر میں منشیات کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے منشیات کی بھاری کھیپ قبضے میں لے لی۔ کارروائی مصدقہ انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر کی گئی، جس کے دوران فورس نے پتھریلے علاقے شاکس میں چھپائی گئی 144 کلوگرام چرس برآمد کر لی۔
ذرائع کے مطابق برآمد شدہ منشیات رات کی تاریکی میں ملک کے مختلف حصوں میں اسمگل کی جانی تھی۔ یہ منشیات باڑہ کے ایک بدنام زمانہ منشیات فروش گروہ کی ملکیت بتائی جا رہی ہے، جس کے روابط علاقے تیرہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔
اے این ایف ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چار پروپلین بیگز برآمد کیے، جن میں 120 پیکٹ چرس موجود تھے، جبکہ ہر پیکٹ کا وزن تقریباً 1200 گرام تھا۔
ذرائع کے مطابق واقعے کا مقدمہ قانون کے مطابق درج کر لیا گیا ہے۔ اے این ایف کی جانب سے یہ کارروائی پاکستان کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کی جاری قومی مہم کا حصہ ہے۔