غزہ میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی انسانی بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔

بین الاقوامی سطح کی امدادی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ غزہ میں امدادی سامان کی بغیر رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ لاکھوں بے گھر فلسطینی خیموں، خوراک اور بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔

اسرائیلی قیدی کی لاش واپس

عرب میڈیا کے مطابق حماس نے گزشتہ روز ایک اسرائیلی قیدی کی لاش انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیلی حکام کے حوالے کی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اس کی تصدیق کی گئی ہے، اب بھی چھ مزید اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں غزہ میں موجود ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ جب تک تمام لاشیں واپس نہیں کی جاتیں، وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں انسانی امداد کی آزادانہ ترسیل کے وعدے پر عمل نہیں کرے گا۔

اسی دوران اسرائیلی فوج نے یہ الزام لگاتے ہوئے مرکزی غزہ میں دو فلسطینیوں کو شہید کر دیا کہ وہ جنگ بندی کی حدود کے قریب پہنچ گئے تھے۔

غزہ کے صحت حکام کے مطابق، لکڑیاں جمع کرنے والا ایک فلسطینی بھی اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہوا ہے۔

عرب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس نے تمام لاشیں واپس نہ کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ حماس کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ تباہ شدہ علاقوں میں لاشوں کی تلاش مشکل ہے، اسرائیل بھاری مشینری اور بلڈوزرز کی غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہا۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق جس لاش کو حال ہی میں واپس کیا گیا ہے اسے مشرقی غزہ کے علاقے شجاعیہ میں چار روز تک ملبہ کھودنے کے بعد نکالا گیا تھا، اس کارروائی میں مصری ماہرین نے بھی حصہ لیا تھا، یہ علاقہ کئی ماہ سے اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہے۔

غزہ میں امدادی بحران برقرار

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ جنگ بندی کے بعد امدادی سامان کی ترسیل میں کچھ اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ اب بھی ضرورت سے بہت کم ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک (WFP) کی ترجمان عبیر عتیفہ نے کہا ہے کہ ہم وقت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، سردی قریب ہے، لوگ بھوک سے دوچار ہیں اور ضرورتیں بے پناہ ہیں۔

غزہ حکام کے مطابق جنگ بندی کے بعد روزانہ اوسطاً 145 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ معاہدے کے تحت یہ تعداد 600 ٹرک ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے مطابق کی لاش

پڑھیں:

فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛  ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔

میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔

یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔

اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔

عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔

جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔

اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔

اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔

تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔

تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔

پس منظر:

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔

ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔

تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔

جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مزید 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں وصول، مجموعی تعداد 285 ہو گئی
  • زہران حماس کے حامی ہیں، نیویارک سے تمام یہودی وطن واپس آجائیں، اسرائیل
  • زہران ممدانی حماس کے حامی ہیں، نیویارک کے یہودی اپنے وطن واپس آجائیں؛ اسرائیل
  • رفح میں حماس مجاہدین کی مزاحمت اور کارکردگی پر صہیونی رژیم حیرت زدہ
  • سو خطرناک قیدی رہا کرنا، چالیس ہزار طالبانوں کو واپس لانا سنگین غلطی تھا، اسحاق ڈار
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے الزام میں اعلیٰ اسرائیلی فوجی افسر گرفتار
  • غزہ پر اسرائیلی حملے فوری بند کیے جائیں، حماس کنٹرول فلسطینی کمیٹی کے سپرد کرنے کو تیار ہے، ترک وزیرِ خارجہ
  • فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛  ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
  • حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر