جموں خطے میں 1947ء کا قتل عام علاقے میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے، حریت کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
حریت رہنمائوں کا کہنا ہے کہ جموں میں شروع ہونے والے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ 78 سال گزرنے کے باوجود علاقے میں مسلسل جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ جموں خطے میں 1947ء کا قتل عام علاقے میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے۔ ذرائع کے مطابق حریت کانفرنس کے رہنمائوں نے ان لاکھوں کشمیریوں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا جنہیں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی فورسز، بھارتی فوجیوں اور ہندوتوا جنونیوں نے جموں خطے کے مختلف حصوں میں نومبر 1947ء کے پہلے ہفتے میں اس وقت شہید کیا تھا جب وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ حریت رہنماﺅں غلام محمد خان سوپوری، سلیم زرگر، حسیب وانی، عبدالصمد انقلابی، یاسمین راجہ، حفیظہ فہمیدہ، مولانا مصعب ندوی، پروفیسر زبیر اور دیگر نے سرینگر میں اپنے بیانات میں کہا کہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کشمیر کی تاریخ کا سب سے ہولناک واقعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں قتل عام کا مقصد خطے کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا تھا، یہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں میں شروع ہونے والے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ 78 سال گزرنے کے باوجود علاقے میں مسلسل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ جموں کا قتل عام ہندوتوا طاقتوں کے ظالمانہ اور مجرمانہ چہرے کی یاد دہانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کے مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کے زخم کشمیریوں کی یادوں میں آج بھی تازہ ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوتوا طاقتیں وادی کشمیر میں بھی 1947ء کے جموں کے قتل عام کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حریت کانفرنس کے رہنماﺅں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جموں کے مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور کشمیری اس وقت تک اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھیں گے جب تک وہ بھارتی تسلط سے آزادی حاصل نہیں کر لیتے۔
دریں اثنا جموں و کشمیر ینگ مینز لیگ (وائی ایم ایل) کے رہنما شاہد نبی نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں بھارتی فورسز اور ایجنسیوں کی جانب سے پارٹی کے نائب چیئرمین زاہد اشرف کے رشتہ داروں کو مسلسل ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے زاہد اشرف کے اہل خانہ کو بھارتی حکام کی جانب سے روزانہ چھاپوں، پوچھ گچھ اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے ان کارروائیوں کو جموں و کشمیر میں آزادی کی حامی سیاسی تنظیموں کی قیادت کو دبانے اور خاموش کرنے کی واضح کوشش قرار دیا۔
ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے رہماﺅں نے بھی اسلام آباد میں جاری اپنے بیانات میں کہا کہ وہی عناصر جو جموں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے اب بھارت میں اقتدار میں ہیں اور کشمیریوں پر ہندوتوا نظریہ مسلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیری جموں کے دل دہلا دینے والے قتل عام کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے اور بھارتی ظلم و جبر کے باوجود اپنی جدوجہد آزادی کو مکمل کامیابی تک جاری رکھیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ حریت کانفرنس کہا کہ جموں کے قتل عام کا قتل عام علاقے میں جموں کے
پڑھیں:
6 نومبر، کشمیریوں کی نسل کشی کا سیاہ ترین دن
ریاض احمدچودھری
قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29 اکتوبر 1947 کوبھارت نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں و کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ 6 نو مبر 1947 کو ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے ایک سازش کے تحت جموں کے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا جو ہجرت کر کے پاکستان جارہے تھے۔ اس دن مظلوم اورمجبور ریاستی مسلمانوں کا خون اس بے دردی سے بہایا گیا جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔
6 نومبر یوم شہداء جموں تحریک آزادی کشمیر کا سنگ میل ہے ۔لاکھوں کشمیریوں نے پاکستان کی محبت ، بھارت سے وطن کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔4نومبر کو بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل ، بھارتی فوجی سربراہ سردار بلدیو سنگھ اور پٹیالیہ کے مہاراجہ کے ہمراہ جموں پہنچے تھے اور انہوںنے 5 نومبر کواعلان کیا تھا کہ پاکستان جانے کیلئے مسلمان پولیس لائنز میں اکٹھے ہو جائیں ۔ اگلے دن 6 نومبر کو خواتین اور بچوں سمیت مسلمانوں کو ٹرکوں میں بھر کر پاکستان کیلئے روانہ کیا گیا۔ تاہم منزل پر پہنچے سے قبل ہی بھارتی اور ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے ان کا قتل عام کر دیا۔ 6 نومبر 1947 کو جموں کے مسلمانوں پر جو قہر ڈھایا گیا اس کی یادیں آج بھی کشمیریوں کے ذہنوںمیں تازہ ہیں۔ پاکستان لانے کے بہانے لاکھوں مسلمانوں کو بلاامتیاز جس سفاکی سے قتل کیا گیا اس سے انسانی روح کانپ اٹھتی ہے ۔دنیا کے 56 مسلمان ممالک مقبوضہ ریاست میں مظلوم مسلمانوں پر بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش ہیں۔
جموں کے مسلمانوں کاہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوںقتل عام محض ایک اتفاق نہ تھا بلکہ یہ ایک گہری سازش کا شاخسانہ تھا جس کا تعلق بھی قیام پاکستان کے مقصد کو ناممکن بنانا تھا۔ یوم شہدائے جموں دراصل اس عزم کی تجدید کے لیے منایا جاتا ہے کہ جموں کے مسلمانوں نے1947ء کو نومبر کے پہلے ہفتے میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ جس مقصد کے حصول کے لیے پیش کیا تھا اس مقصد کو نہ تو فراموش کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے حصول میں آئندہ کسی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ کیا جائے گا۔
بھارت نے قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج نے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا ۔ہزاروں کشمیری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔ بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بھارت طاقت و قوت کے بل بوتے پرکشمیری مسلمانوں کو غلام بناکر رکھنا چاہتا ہے تاریخ گواہ کے کشمیری قوم برسوں سے عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں آئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کی آٹھ لاکھ فوج خود بھارت کے لئے بہت بڑا بوجھ بنتی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور کٹھ پتلی انتظامیہ آزادی اور حریت کا نعرہ بلند کرنے والوںکی آواز کو دبانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ مقبوضہ علاقے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے اورتناسب آبادی کو تبدیل کرنیکی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے ۔کاروبا ر بند ہیں۔ معمولات زندگی معطل ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں کراس کر لی ہیں۔ تحریک آزادی کشمیربرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ اس سے آزادی کی منزل اور قریب آگئی ہے۔ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب ساری ریاست آزادہو کر پاکستان کا حصہ بنے گی۔
بھارت طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کرفیو،ظلم و ستم ،شہادتوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی سے اس کا دوہرا کردار ایک بار پھر کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ حقوق انسانی کے وہ عالمی ادارے جنھوں نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی بھی تنظیمیں بنا رکھی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی پر ان کی مجرمانہ خاموشی افسوسناک ہے۔ انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سختی سے نوٹس لینا چا ہیے تھا مگر کسی نے نہیں لیا۔ پاکستانی حکمران ہی کشمیریوں کے نعروں اور پاکستان کے ساتھ ملنے کی آرزو لئے اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے خون کی لاج رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کریں۔ جب تک بھارت کشمیر پر سے قبضہ ختم نہیں کرتا حکومت پاکستان کو کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنی چاہیے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کو دشمن کے قبضہ سے چھڑانا انتہائی ضروری ہے۔اگرحکمران ان کشمیریوں کی اخلاقی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں توپھر یہ کوئی اخلاق نہیں ہے کہ آپ کشمیری مسلمانوں کے حق میں دو چار بیانات دے کر خاموش ہو جائیں اور انہیں بھارت کے چنگل میں پھنسا ہوا چھوڑ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔