اسلام ٹائمز: چشم دید گواہوں کے بیانات، بین الاقوامی صحافیوں کی رپورٹیں اور تاریخی ریکارڈز اس بات کی واضح گواہی دیتے ہیں کہ نومبر1947ء کو جموں میں ایک منظم اور منصوبہ بند نسل کشی (Genocide) ہوئی۔ یہ صرف مذہبی بنیادوں پر فساد نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا، جسکا مقصد مسلمانوں کو جموں سے بے دخل کرنا اور ریاست کی آبادیاتی ساخت کو بدلنا تھا۔ مختلف تاریخی ذرائع کے مطابق تقریباً 2 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے، جبکہ 5 لاکھ سے زیادہ لوگ ہجرت پر مجبور ہوکر پاکستان کی طرف نکل گئے۔ جموں کی مسلم آبادی تقریباً اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی۔ یہ سانحہ محض مذہبی بنیادوں پر قتلِ عام نہیں تھا بلکہ انسانیت کیخلاف جرم (Crime Against Humanity) تھا۔ اس واقعے نے ہزاروں خاندان اجاڑ دیئے، بے شمار خواتین بیوہ ہوئیں اور جموں کی مسلم تہذیب کو مٹا کر رکھ دیا۔ تحریر: کے ایس کشمیری

برصغیر کی تاریخ میں 6 نومبر 1947ء کا دن ایک خونچکاں باب کے طور پر درج ہے۔ یہ دن اس سانحے کی یاد دلاتا ہے، جب جموں کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر منظم طور پر قتل عام کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ظلم نہ صرف مذہبی منافرت کا مظہر تھا بلکہ انسانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب بھی ہے۔1947ء میں برصغیر سے برطانوی سامراج کے خاتمے کا اعلان ہوا، برطانوی سامراج کے خاتمے کے بعد برصغیر میں دو بڑی قومیں آباد تھیں، ہندو اور مسلمان، مسلمانوں نے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں الگ ریاست پاکستان قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں برصغیر کی سرزمین دو نئی مملکتوں میں بٹ گئی۔ ایک، مسلمانوں کے خوابوں کی تعبیر پاکستان اور دوسری، ہندو اکثریت پر مبنی بھارت۔ ریاستوں کی تقسیم میں وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، پاکستان کا حصہ اور جہاں ہندو اکثریت تھی، وہ بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ ہوا۔

کچھ فیصلے علاقے کی جغرافیائی پوزیشن کے مطابق کیے گئے، یعنی کون سا خطہ کس ملک سے ملا ہوا ہے۔ تقریباً 562 نوابی و خود مختار ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنی آبادی کے مذہب اور جغرافیائی محلِ وقوع کے مطابق پاکستان یا بھارت میں شامل ہوں، یا خود مختار رہنے کا فیصلہ کریں۔ تاہم کئی ریاستوں جیسے جموں و کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ میں یہ اصول نظرانداز کیے گئے۔ جب برطانوی حکومت نے برصغیر کی تقسیم اور پاکستان و بھارت کے قیام کا اعلان کیا تو جموں و کشمیر کی ریاست کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرے۔ 19 جولائی 1947ء کا وہ تاریخی دن ہے، جب جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے سرینگر میں "آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس" کے اجلاس میں قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور کی تھی۔

قرارداد کے اہم نکات:
1۔ ریاست کی مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ قدرتی و فطری رشتہ رکھتی ہے۔
2۔ ریاست کی معاشی راہیں، دریا، تجارت، راستے پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔
3۔ کشمیر کے عوام کی مذہبی و تہذیبی وابستگی بھی پاکستان کے ساتھ ہے۔
4۔ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیئے۔
مہاراجہ ہری سنگھ کشمیری عوام کے فیصلے الحاق پاکستان سے خوفزدہ ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے ریاست میں مسلم اکثریت کو کمزور کرنے کے لیے ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔ منصوبے کے اہداف خصوصاً جموں خطے میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنا۔ مسلمانوں کی سیاسی و اکثریتی برتری ختم کرنا، مسلمانوں کے خلاف خوف و دہشت کی فضا پیدا کرکے انہیں پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور کرنا تھا۔ اکتوبر کے مہنے میں ہی ڈوگرہ فوج کی پشت پناہی سے ہندو انتہاء پسندوں اور RSS کے مسلح گروہوں نے جموں کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے۔ ڈوگرہ فوج کی پشت پنائی سے آر ایس ایس کے مسلح گروہوں کی طرف سے کئی مساجد، مکانات اور دکانیں جلائی گئیں اور عورتوں اور بچوں پر بھی بے دردی سے مظالم ڈھائے گئے۔

مہاراجہ سرکار کی طرف سے مواصلاتی راستے بند کر دیئے گئے، تاکہ مسلمان مدد یا فرار نہ حاصل کرسکیں۔ جموں شہر کے اردگرد کے علاقوں میں بھی جھوٹی امان کی پیشکش کرکے مسلمانوں کو جمع کرکے اجتماعی قتل کیا گیا۔ خوف و دہشت کے ماحول میں ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو یہ کہہ کر جموں شہر میں جمع ہونے کے لیے کہا گیا کہ انہیں بحفاظت پاکستان بھیج دیا جائے گا، لیکن یہ ایک بھیانک سازش ثابت ہوئی۔ لاکھوں مسلمانوں کو یہ کہہ کر جمع کیا گیا کہ انہیں سیالکوٹ پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ انہیں ٹرکوں، بیل گاڑیوں اور قافلوں کی صورت میں جموں سے سیالکوٹ کی طرف روانہ کیا گیا، لیکن جب یہ قافلے جموں سے سیالکوٹ روڈ پر پہنچے تو ڈوگرہ فوج اور مسلح ہندو انتہاء پسندوں نے گھات لگا کر ان پر حملہ کر دیا۔عورتیں، بچے، بوڑھے کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔ بے شمار خواتین کو اغوا اور بے حرمتی کا نشانہ بنایا گیا۔ نہتے مسلمانوں کو تلواروں، بندوقوں اور آتشیں ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اتارا گیا اور یہ سلسلہ کئی روز تک چلتا رہا، صرف جموں خطے میں تقریباً 2 سے 2.

5 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ 5 لاکھ سے زائد مسلمان بے گھر ہو کر پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں جموں کی مسلم اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔

جموں قتلِ عام 1947ء چشم دید گواہوں کی شہادتیں
چودھری غلام حسین: چودھری غلام حسین، جو جموں شہر کے نواحی گاوں سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے بعد میں پاکستان پہنچ کر ایک بیان میں کہا "ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں ٹرکوں کے ذریعے سیالکوٹ پہنچایا جائے گا، تاکہ ہم محفوظ رہیں۔ لیکن جیسے ہی ہمارا قافلہ جموں سیالکوٹ روڈ پر پہنچا، ڈوگرہ فوج اور ہندو مسلح جتھوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ مردوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا، عورتوں اور بچیوں کو اٹھا کر لے گئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دریائے توی کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔”
راجہ محمد اکبر خان (صحافی و محقق): انہوں نے اپنی تحریر "Kashmir in Flames” میں لکھا کہ "6 نومبر کے بعد جموں کے ہر گائوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ میں خود گواہ ہوں کہ مسلمانوں کے قافلے کو "پاکستان روانگی" کے بہانے قتل گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ بچوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوئی تھیں اور عورتیں چیختی رہ گئیں۔"

سید سجاد حسین (چشم دید پناہ گزین): انہوں نے 1948ء میں لاہور میں اپنے انٹرویو میں کہا "میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قافلوں کو گن پوائنٹ پر روک کر مردوں کو الگ اور عورتوں کو الگ کیا جا رہا تھا۔ جنہوں نے بھاگنے کی کوشش کی، انہیں فوراً گولی مار دی گئی۔ میری ماں اور دو بہنیں بھی اسی دن شہید ہوگئیں۔”
برطانوی صحافی Ian Stephens (Editor, The Statesman, India انہوں نے اپنی کتاب "Horned Moon” (1951) میں لکھا ہے
"In Jammu, I personally verified reports that tens of thousands of Muslims wer systematically exterminated. Whole convoys were ambushed —and the local Dogra forces did nothing to stop the slaughter.” ترجمہ: جموں میں میں نے خود تصدیق کی کہ ہزاروں مسلمانوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ پورے قافلے گھات لگا کر تباہ کر دیئے گئے اور ڈوگرہ حکومت نے روکنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔”

یوسف صراف اپنی کتاب “Kashmiris Fight for Freedom” میں چشم دیدوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ "یہ ظلم کسی اچانک فساد کا نتیجہ نہیں تھا۔ ڈوگرہ فوج نے خود یہ آپریشن منظم انداز میں کیا، تاکہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر جموں کی آبادیاتی ساخت بدلی جا سکے۔”
سیالکوٹ کے پناہ گزینوں کی اجتماعی گواہی: سیالکوٹ میں 1947ء کے آخر میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں ہزاروں لوگ جموں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ کئی پناہ گزین عورتوں نے بیان دیا کہ "ہم نے اپنے شوہر اور بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا۔ ہمارے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ کچھ عورتوں نے عزت بچانے کے لیے دریائے توی میں کود کر جان دے دی۔”

برطانوی آرکائیوز اور بھارتی مورخین: برطانیہ کے نیشنل آرکائیوز میں موجود Colonial Office Reports (1948) میں یہ اندراج ملتا ہے کہ "Over 200,000 Muslims perished in Jammu between October and November 1947.””The massacre appeared to have official sanction from Dogra authorities.” ترجمہ: "اکتوبر سے نومبر 1947ء کے درمیان جموں میں دو لاکھ سے زائد مسلمان مارے گئے۔ یہ قتلِ عام ڈوگرہ حکومت کی سرپرستی میں ہوا معلوم ہوتا ہے۔” موجودہ شوشل میڈیا دور میں بھی سوشل میڈیا پر جموں قتل عام کے کئی بزرگ اپنی المناک دستان بیان کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، انہی میں ایک عمر رسیدہ بزرگ نور محمد ہیں، جو ایک مختصر ویڈیو کلپ میں جموں قتل عام کی بھیانک داستان بیان کرتے ہیں، جس کے وہ چشم دید گواہ ہیں۔

چشم دید گواہوں کے بیانات، بین الاقوامی صحافیوں کی رپورٹیں اور تاریخی ریکارڈز اس بات کی واضح گواہی دیتے ہیں کہ نومبر1947ء کو جموں میں ایک منظم اور منصوبہ بند نسل کشی (Genocide) ہوئی۔ یہ صرف مذہبی بنیادوں پر فساد نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کو جموں سے بے دخل کرنا اور ریاست کی آبادیاتی ساخت کو بدلنا تھا۔ مختلف تاریخی ذرائع کے مطابق تقریباً 2 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے، جبکہ 5 لاکھ سے زیادہ لوگ ہجرت پر مجبور ہو کر پاکستان کی طرف نکل گئے۔ جموں کی مسلم آبادی تقریباً اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی۔ یہ سانحہ محض مذہبی بنیادوں پر قتلِ عام نہیں تھا بلکہ انسانیت کے خلاف جرم (Crime Against Humanity) تھا۔ اس واقعے نے ہزاروں خاندان اجاڑ دیئے، بے شمار خواتین بیوہ ہوئیں اور جموں کی مسلم تہذیب کو مٹا کر رکھ دیا۔

جموں کے قتلِ عام نے کشمیر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اسی ظلم نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مزید تقویت بخشی۔ دنیا بھر میں مقیم کشمیری ہر سال 6 نومبر کو یومِ شہداء جموں کے طور پر مناتے ہیں، تاکہ دنیا کو یاد دلایا جا سکے۔ کہ نومبر 1947ء کا واقعہ نہ صرف کشمیر کی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ کا بھی ایک المناک باب ہے، جموں و کشمیر کی عوام عزم کرتی ہے کہ ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور کشمیر کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ شہدائے جموں کی قربانیاں کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے مشن کو فراموش نہ کریں، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کیا کہ اسلام، آزادی، اور شناخت کی حفاظت خون سے کی جاتی ہے، لفظوں سے نہیں۔

شہدائے جموں نے اپنا لہو دیکر جو راستہ دکھایا ہے، ہم اپنے قلم، زبان اور عمل سے اس مشن کے امین بنیں۔ دنیا بھر میں مقیم کشمیری اس دن شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ عہد کرتے ہیں کہ 1947ء کے شہداء سے لے کر جاری تحریکِ آزادی کے دوران بھارت سے نجات کے لیے دی گئی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور کشمیر کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو ہر قیمت پر جاری رکھیں گے۔
خونِ شہید سے جلتی ہے چراغِ آزادی
یہ روشنی ہمیں پیغامِ وفا دیتی ہے
لہو نے لکھ دی آزادی کی داستاں ایسی
کہ مٹ نہ پائے رنگِ وفا زمانے تک

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لاکھ سے زائد مسلمان مذہبی بنیادوں پر پاکستان کی طرف جموں کی مسلم مسلمانوں کے کے مسلمانوں مسلمانوں کو ڈوگرہ فوج کشمیر کے کی آبادی کا فیصلہ کشمیر کی کے مطابق نہیں تھا ریاست کی میں ایک کے ساتھ نے اپنی دیا گیا جموں کے کیا گیا کو جموں گیا کہ کے لیے کر دیا

پڑھیں:

بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔

پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 6 نومبر، کشمیریوں کی نسل کشی کا سیاہ ترین دن
  • بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام
  • کشمیری عوام نے اپنی آزادی، عزت اور شناخت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں
  • جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جائے گا
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نغمہ ’’کشمیر ہمارے خوابوں کی تعبیر‘‘ ریلیز
  • نومبر 1947: جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب، بھارت کے ظلم و بربریت کی لرزہ خیز داستان
  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی