Islam Times:
2025-11-05@01:10:39 GMT

6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جائے گا

اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT

6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جائے گا

شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آزاد جموں و کشمیر کے تمام دس اضلاع اور بڑے قصبوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی ریلیاں، بھارت مخالف مظاہرے اور خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں اس تجدید عہد کے ساتھ منائیں گے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہدجاری رکھی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق یہ دن کشمیر کی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک ہے جب نومبر 1947ء کے پہلے ہفتے میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی افواج، بھارتی فوج اور آر ایس ایس کے مسلح غنڈوں نے جموں خطے کے مختلف علاقوں میں اس وقت لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا جب وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔کشمیری ہر سال 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں مناتے ہیں، ان شہداء نے جموں میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے شروع کی گئی نسل کشی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔

شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آزاد جموں و کشمیر کے تمام دس اضلاع اور بڑے قصبوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی ریلیاں، بھارت مخالف مظاہرے اور خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ شہدائے جموں کی تاریخی قربانیوں کو اجاگر کرنے اور جدوجہد آزادی سے وابستگی کا اعادہ کرنے کے لیے سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے زیراہتمام قرآن خوانی، سیمینارز اور سمپوزیم منعقد کیے جائیں گے۔دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں نے جموں کے شہداء کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے لیے مشعل راہ قرار دیا ہے۔ حریت رہنمائوں نے کہا کہ اس دن کشمیری عوام اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول تک جدوجہد آزادی جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں کے بھارتی جبر کے باوجود کشمیری اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی بربریت کا نوٹس لے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کے کرنے کے لیے

پڑھیں:

جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-5
جاوید الرحمن ترابی
برصغیر کی تقسیم ِ ہند 1947ء کے دوران جہاں آزادی کا سورج طلوع ہوا، وہیں برصغیر کے کئی خطوں میں انسانی المیے نے جنم لیا۔ ان میں سب سے المناک سانحہ ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں اکتوبر۔ نومبر 1947ء کے دوران پیش آیا، جسے تاریخ میں ’’جموں قتل ِ عام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس المیے میں لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ظلم و درندگی کا نشانہ بنے، اور ریاست کی مسلم اکثریت کو منظم منصوبے کے تحت اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔

تاریخی پس ِ منظر: ریاستی ساخت اور تقسیم ِ ہند کا تناظر؛ ریاست جموں و کشمیر 1846ء میں ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت وجود میں آئی، جب برطانوی راج نے یہ خطہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں تھی، مگر سیاسی و انتظامی طاقت ڈوگرہ ہندو اشرافیہ کے پاس تھی۔ (ڈاکٹر عبد الواحد وانی، Kashmir: Struggle for Freedom, 1989)

تقسیم برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد (19 جولائی 1947ء) منظور کی۔ جو مسلمانان جموں و کشمیر اور تقسیم کشمیر کے اصول کے عین مطابق تھی لیکن بھارت نے برطانیہ کی ملی بھگت سے ایک جعلی دستاویز کے ذریعہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط قائم کرنا چاہا اور کشمیر پر قبضہ کیا جس کے بارے میں پروفیسر الیف الدین ترابی اپنی کتاب ’’مسئلہ کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا بھارتی دعویٰ‘‘ میں لکھتے ہیں: بھارت کے ساتھ ریاست ِ جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession) جعلی تھی۔ مہاراجا ہری سنگھ اس وقت جموں سے فرار ہو چکے تھے، اور دستخط شدہ دستاویز کا کوئی اصلی ریکارڈ دستیاب نہیں‘‘۔ (ص 156–155 اور ان کا یہ موقف برطانوی مورخ پروفیسر السٹر لیمب) کی کتاب ’’Kashmir: The Disputed Legacy‘‘ سے بھی تقویت پاتا ہے: 26 اکتوبر 1947ء کی الحاقی دستاویز کبھی اصلی شکل میں موجود نہیں تھی۔ یہ بعد میں بھارت نے گھڑی تاکہ فوجی قبضے کو قانونی رنگ دیا جا سکے‘‘۔ (Lamb, 1994, pp. 42-45) پروفیسر ترابی لکھتے ہیں: ’’یہ اقدام نہ صرف تقسیم ِ ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی تھی بلکہ برطانوی نوآبادیاتی اثر کے زیر ِ سایہ تیار کی گئی سیاسی سازش تھی جس کا مقصد کشمیر میں مسلم اکثریت کو حقِ خودارادیت سے محروم کرنا تھا‘‘۔ (ص 158) جموں قتل ِ عام 1947 ایک منظم انسانی المیہ، اکتوبر اور نومبر 1947ء کے دوران ریاست کے مختلف علاقوں، خصوصاً جموں، اکھنور، راجوری، کٹھوعہ، سانبہ اور میرپور میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا۔

ڈوگرہ فوج، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اکالی دل کے عسکری جتھوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا، اور ہزاروں خاندانوں کو پاکستان کی سرحدوں کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا۔ جے کے ریڈی (ایڈیٹر، Kashmir Times) کی شہادت کے مطابق: ’’میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کی طرف جانے والے مہاجرین پر ڈوگرہ سپاہیوں کی فائرنگ دیکھی۔ جموں کے جس ہوٹل میں میں ٹھیرا تھا، وہاں سے ایک رات میں سینتالیس گاؤں جلتے دیکھے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور آگ تھی‘‘۔ (اویس بلال، جموں کے روشن ستارے, ص 41)

پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں: ’’ریاست کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ پورے جموں میں مسلمانوں کے صفایا کی کوشش کی گئی۔ حکومت ِ ریاست اس منصوبے کی شریک تھی‘‘۔ (Inside Kashmir, 1951, p. 290)

اخبار ’’The Statesman‘‘ (نومبر 1947) کے مطابق: ’’جموں کی مسلمان آبادی تقریباً پانچ لاکھ تھی۔ نومبر کے آخر تک اس کا بڑا حصہ ختم ہو چکا تھا، اور دو لاکھ افراد کا نام و نشان مٹ گیا‘‘۔ 26 اکتوبر 1947ء کے بعد بھارت نے ریاست میں فوجی مداخلت کی اور اسے ’’عارضی الحاق‘‘ قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کیا، اور سلامتی کونسل کی قرارداد 47 (1948) کے ذریعے کشمیری عوام کے حق ِ خود ارادیت کا وعدہ کیا — جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔

آئینی بحران: بھارت نے ریاستی قبضے کو آئینی رنگ دینے کے لیے آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا، جس کے تحت کشمیر کو محدود خودمختاری ملی۔ مگر 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر اسے بھی ختم کر دیا اور کشمیر کو عملی طور پر ایک جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 1947 کے بعد سے آج تک کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے جہاں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ریاست میں قتل ِ عام، جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم عام ہیں۔ (UN OHCHR Report on Kashmir, 2018) بین الاقوامی تحقیق اور قانونی تناظرمیں ڈاکٹر جوزف کوربیل (Danger in Kashmir, 1954) کے مطابق: ’’جموں میں ہونے والا قتل ِ عام ایک منظم ریاستی جرم تھا۔ جس نے جنوبی ایشیا میں دائمی بحران کی بنیاد رکھی‘‘۔

رحمان، جہانگیر اور گردازی (Global Legal Studies Review, 2021): ’’جموں کا قتل ِ عام Genocide Convention (1948) کے آرٹیکل II کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ ISSI Issue Brief (2023) میں کہا گیا: ’’یہ سانحہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے کم یاد رکھا جانے والا مگر سب سے زیادہ منظم نسل کشی کا واقعہ ہے‘‘۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
  • کشمیر کی صورتِحال پر عالمی خاموشی خطرناک ہے: مشعال ملک
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • کشمیری عوام کو گزشتہ 78برس سے حل طلب تنازعہ کشمیر کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، حریت کانفرنس
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نغمہ ’’کشمیر ہمارے خوابوں کی تعبیر‘‘ ریلیز
  • نومبر 1947: جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب، بھارت کے ظلم و بربریت کی لرزہ خیز داستان
  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب