Daily Sub News:
2025-11-05@12:07:58 GMT

بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام

بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام WhatsAppFacebookTwitter 0 5 November, 2025 سب نیوز

سید منظور احمد شاہ
چیرمین اتحاد اسلامی جموں و کشمیر


جموں و کشمیر 1947 اکتوبر تک ایک
شاہی ریاست تھی جس پر ایک ہندو مہاراجہ، ہری سنگھ، مسلم اکثریتی آبادی پر حکومت کرتا تھا۔ برطانوی انخلاء اور ہندوستان و پاکستان کے قیام کے ساتھ، شاہی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ یا تو کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق (accede) کر لیں یا آزاد رہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، بھارت حکومت نے ہر طرح سے راجہ ہری سنگھ پر دباو ڈالا کہ وہ بھارے کے ساتھ الحاق کرے ۔اس مقصد کے لیے کبھی بھارت اپنے فوجی افسران کو کشمیں بھرتی کراکے اعلی عہدون پر فایض کرا لیتا کبھی اپنے ای اے ایس افسران کشمیر مین داخل کرا لیتا کبھی اپنی مرضی سے کشمیریون کے رام چند کاک وزیر اعظم کو تبدیل کردیتا اور کبھی اپنے عدالتی افسر مسٹر مھاجن کو کشمیر کا وزیر اعظم بنوا دیتا ۔کبھی اپنے بڑے نیتاوں اور وزیر اعظم کو کشمیر کے دورون پر بھیجتا اور کبھی وایس راے کو براہ راست ماھارجہ ہری سنگھ کو دھمکانے کشمیر بھیجتا۔کبھی جمون میں مھاراجہ پٹئالہ کی فوج اور فوجی ساز و سامان داخل کرواتا اب کچھ کرنے کے بعد مھاراجہ کے نام پر الحاق کی جھوٹی دستاویز منصوب کرکے کشمیر پر 27 اکتوبر 1947 کو زمینی راستے نہ ہونے کے باوجود فضاء سے اری ایر پورٹ ہر اپنی افواج اتار دیتا اور کشمیر پر قابض ہوگیا جبکہ مہاراجہ ھری سنگھ کے سٹنڈ سٹل اگریمنٹ کو قبول کرنے کا عندیا بھی دیاتا تھا کیونکہ وہ کشمیر کی ریاست کو آزاد رہکھنے کی امید کرتے رہے تھے مگر بھارتی سازشوں اور فوج کشی نے اسکے سارے خواب ٹوار دیے جبکہ کشمیری عوام 19 جولای 1947 کو ہی قرار داد الحاق پاکستان پاس کرکے پاکستان کا حصہ بننے کا برطانوی ہند کی تقسیم کے فارمولے کے تحت اعلان کرچکےتھے بھارتی قبضے اور ازاد کشمیر و گلگت بلتستان مین عوامی بغاوت کے نتیجے میں ریاستی صورتحال میں اور بھارتی حکومت, ہندو ڈوگروں اور بھارتی دھشت گرد تنظیموں میں اشتعال پیدا ہوامغربی پونچھ کے خطے میں مسلم رعایا کی جانب سے مہاراجہ کی حکومت کے خلاف بغاوت۔


جموں میں تشدد (ستمبر-نومبر 1947)نومبر 1947 تک کے اس دور میں جموں کے خطے میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد دیکھا گیا۔
پاکستان اور چند مستند تاریخ دانوں کے بیانیے میں یہ نقطہ نظر مسلمہ ہے کہ جموں کی مسلم آبادی کے خلاف اسے بھارتی سرکاری سرپرستی میں جاری رکھی گئ تشدد کی ایک منظم مہم کو بیان کیا گیا ہے۔اس وقت کے لندں ٹایمز اور امریکی اخبارات میں بھی یہ اہم نکات میں شامل ہیں کہ یہ ایک آبادیاتی تبدیلی کا خونیں کھیل تھا جموں کا خطہ، جہاں پہلے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی تھی (بعض اضلاع میں تقریباً 60% کا تخمینہ مسلم ابادیوں کا تھا )، وہاں ایک ڈرامائی آبادیاتی تبدیلی اس 6 نومبر کے قتل عام سے دیکھنے میں آئی۔ یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا یا نئے بننے والے پاکستان کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ افواج اور ملیشیا کا کردار: یہ حقیقت ب ھارتی ,عالمی ,پاکستانی اور برطانوی اخبارات کے زریعے عیان ہوگئ کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی افواج نے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اور دیگر گروپوں کے رضاکاروں کی مدد سے، مسلم دیہاتوں پر منظم حملے کیے گیے۔ اس کا مقصد جموں کے خطے کی نسلی صفای کرنا بتایا جاتا ہے تاکہ ایک ہندو اکثریتی علاقے کو مستحکم کیا جا سکے، خاص طور پر جب ہندو مہاراجہ مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کے ساتھ الحاق پر غور کر رہا تھا۔ یہ عمل بھارت کی ازادی کے فوراََ بعد شروع ہوا اور ستمبر 1947 مین یہ مھم زور پکڑتی گئ “جموں کا قتل عام” (The “Jammu Massacres”): یہ تشدد 6 نومبر کا کوئی واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ کئی ہفتوں پر محیط قتل عام اور منظم پوگروم کا ایک سلسلہ تھا۔ بہت سے تاریخ دان اور اس وقت کے عالمی اور پاکستانی اور کچھ ہندستانی اخبارات میں کہاجاتا ہے کہ اکتوبر میں پونچھ اور ازاد کشمیر کی مقامی مسلم ابادی کی جانب سے اور قبائلی عمایدین کی مدد سے مھاراجہ ہری سنگھ کی ہندو افواج پرحملے کے بعد جموں میں مسلمانوں کے قتل عام میں تیزی آئی، کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ گئی تھی اور انتقامی کارروائیوں کو بھی ہوا ملی۔جموں کے بیشتر مسلم اکثریتی علاقوں میں کچھ سنگین ترین مظالم کی اطلاعات پھیل گئیں۔ اکثر مسلمانوں کا گھیراو جلاو کرکے ان کی ابادیوں کو مہاجرین کے قافلوں میں تبدیل کرکے پاکستان کے شہر سیالکوٹ کی طرف بھگایا جا رہا تھا راستے میں قتل بھی کیا جاتا رہا۔ ان پر مسلح ہندو جھتوں اور ہری نگھ کی ملیشیا نے حملے کیے۔
ہندوستانی ان واقعات کو اپنے جوابی بیانیے میں تشدد کو تقسیم کے دوران فرقہ وارانہ خونریزی کے ایک وسیع چکر (cycle) کا حصہ قرار دیتا ہے، صوبہ جموں میں ہونے والے تشدد کو ایک المناک، افراتفری پر مبنی سایکل کہا جاتا ہے، اور انتقامی مسلم کشی کے سلسلے کی اج تک کوی تحقیقات نہیں ہوی ہے۔بھارتی حکومت کی طرفسے جھوٹے پروگنڈے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کو اُن باغیوں کے خلاف انسدادِ بغاوت(counter-insurgency) آپریشنز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے

: آر ایس ایس جیسے گروپوں کے ملوث ہونے کو اکثر کم اہمیت دی جاتی ہے یا اسے انتہائی فرقہ وارانہ صف بندی (communal polarization) کے تناظر میں مقامی رضاکاروں کی از خود کارروائی (spontaneous action) کے طور پر بیان کیا جاتا ہے*، حالانکہ یہ سب مرکزی طور پر بھارتی حکومت کی ہدایت یافتہ پالیسی کے طور پر کیا جاتا رہا جیسا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 2019 میں پھر تیسری بار کیا گیا ہے ۔علمی اتفاق رائے اور تاریخی بیانات بر جموں قتل عام اسٹینلے وولپرٹ اور کرسٹوفر سنیڈن جیسے مورخین نے جموں میں ڈرامائی آبادیاتی تبدیلی کے بارے میں لکھا ہے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ بڑی تعداد میں مسلمان مارے گئے یا بے گھر ہوئے۔ برطانوی مورخ ایلکس وون ٹنزیلمین نے لکھا کہ مہاراجہ کی افواج ہندو اور سکھ ملیشیا کے ساتھ “لڑائی میں شامل ہو گئیں”، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی اموات ہوئیں۔برطانوی اخبارات نے 235000 مسلم شہادتوں کا زکر کیا ہے اس وقت کے سرکاری پاکستانی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ہلاکتوں کی تعداد 250,000 سے زیادہ تھی، لیکن زیادہ تر آزاد مورخین نے اس تعداد کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کرنے پیش کیا ہے اگرچہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ تعداد افسوسناک حد تک زیادہ تھی، ممکنہ طور پرتعداد مقتولیں بیسیوں ہزاروں میں تھی۔ 1947 نومبر 6 میں جموں کا پرتشدد قتل عام تقسیم کی ظالمانہ تاریخ کا ایک ہولناک باب تھا ج نے جموں و کشمیر کے عوام کو بھارتی ھندوانہ غلامی کی اتھاہ گہرایوں میں دھکیل دیا جو اج تک جاری ہے۔ جموں کی مسلم آبادی کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد ہوا وہ ایک سرکاری سرپرستی کا بھیمانہ سیاسی اور ہندووانہ نفرت کا کھیل تھا ، جس سے مہاجرین کا ایک بڑا بحران پیدا کیا گیا تاکہ پاکستان اس بوجھ کو منبھال نہ سکے اور کشمیری بھی ازادی کے ہولناک انجام سے ڈر کر باز اجایں۔ اس ہندووانہ مزھبی متشدد منافرت کے خونیں کھیل سے ایک مستقل آبادیاتی تبدیلی واقع ہوئی اور پاکستانی ازاد کشمیر اور پاکستانی شہروں سیالکوٹ گجرانوالاہ ۔شکر گرھ ,بھبر میر پور ,لالہ موسئ فیض اباد جھلم وغیرہ میں ان جموں کے مھاجرین کو بسایا گیا بعض لوگ لاہور کراچی اور پشاور اور راولپنڈی تک پہنچ گیے انہی ہی اولادیں اج کل ازاد حکموت ریاست جموں و کشمیر کی اسیمبلی میں اپنے مھاجرین اباء و اجداد کی نمایندگی کرتے ہیں ۔ اس صوبہ جموں کے مسلم ابادی کے خلاف قتل عام میں ریاستی فوجی اور مسلح ملیشیا، بشمول آر ایس ایس کے اراکین اس مکروہ ہندووانہ مزھبی منافرت کی دھشت گردی میں ملوث تھے جس ے ایسا ناسنی المیہ وقوع پزیر ہوا کہ اج تک سوا دو کروڈ کشمیری عوام اپنے بنایادی انسانی حقوق اور ازای ے محروم ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ابھی تک جموں المیے والا فارمولہ اپنایا جارہا ہے ابادیاتی تناسب کو سرکاری بھارتی سرپرستی میں اج کل ڈومیسایل اور کی سہولت بھارتی ملازمین فوجیوں اور ار ایس ای کے بھلوایوں کو دی جا رہی ہے انہین ووٹ اور ملازمت کا حق دیا جاراہا ہے جبکہ مقامی دو لاکھ سے زاید مالزمین جو دہایون سے ڈیلی ویجر کے طور پر چند سو روپوں کے عوض کام کرتے ہین جان بھوج کر مستقل نہین کیا جارہا۔اس کے برعکس بھارت سے پولیس افاران عدالتی مالزمین اور اور لولک سیکیورٹی مالازمین اور محکمہ مال ابپاشی اور جنگلات و دیگر محکموں کے ملازمیں کو بھارت سے براہ راست در امد کرکے کشمیریون پر مسلط کیا جارہا ہے کشمیری نوجونانوں جو قتل کیا جارہا ہے کشمیری مقامی ملازمین کو نت نیے بہانوں سے نوکیون سے جبری فارغ کیا جاتا ہے اور اور پینشن کی سہویات ے بھی محروم کیا جاتا ہے ۔کشمیر فورٹ اور رعفران اور شال بافی کی صنعت کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا ۔یہ سب سب کچھ کرنے کے لیے بھارت نے ایینی اور قانوںی روکاوٹون کو دور کرنے کے لیے سب ے پہلے کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کیا کشمیر کا ایین اور قانونی ڈھناچہ بدل دیا گیا کشمیر کو دو یونین ٹری ٹریز مین تقیم کرکے براہ راست بھارت کے زیر انتظام پھنسایا گیا اب جمون کے بعد ریاست جمون و کشمیر اور لداخ مین ابادیاتی تناسب کی تبدیلیان روبہ عمل ہیں جو اقوام متحدہ قراردادوں اور جنیوا کنوینشن کے ارٹیکل 54 کی صریحا خلاف ورزی ہے ان اقدامات کے خلاف پاکستان کو یو این سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسیمبلی اور سیکیورتی کونسل میں بات کرنی چاہیے

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرزہران ممدانی کی کامیابی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کا ردعمل سامنے آگیا “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.

کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: آبادیاتی تبدیلی فرقہ وارانہ کیا جاتا ہے کے طور پر کشمیر کی ہری سنگھ کرنے کے کیا گیا قتل عام جموں کے کے خلاف کے ساتھ رہا ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔

پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیری عوام نے اپنی آزادی، عزت اور شناخت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں
  • جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جائے گا
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نغمہ ’’کشمیر ہمارے خوابوں کی تعبیر‘‘ ریلیز
  • نومبر 1947: جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب، بھارت کے ظلم و بربریت کی لرزہ خیز داستان
  • پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب
  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان