یروشلم میں ہزاروں قدامت پسند یہودیوں کا فوجی بھرتی کیخلاف احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
اسرائیل میں ہزاروں مذہبی طور پر قدامت پسند یہودی مردوں نے جمعرات کو فوجی بھرتی کے خلاف یروشلم میں بھرپور مظاہرہ کیا۔
مظاہرین، سیاہ لباس اور ٹوپیاں پہنے، فوجی خدمات سے استثنیٰ کے حق میں نعرے لگاتے رہے، وہی استثنیٰ جس کی ضمانت دینے کا وعدہ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو طویل عرصے سے کرتے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہولوکاسٹ سروائیور بھی اسرائیلی مظالم پر سراپا احتجاج
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی مظاہرین نے شہر کی مرکزی شاہراہوں پر مارچ کیا، فوجی بھرتی کے خلاف نعرے لگائے اور کئی مقامات پر ترپال کے ٹکڑوں کو نذرِ آتش کیا۔
⚠️ Important
Large gatherings of Ultra-Orthodox Jews are taking place in Jerusalem to protest against military conscription pic.
— Open News© (@OpenNewNews) October 30, 2025
پولیس نے یروشلم کے تاریخی شہر میں ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کرتے ہوئے متعدد سڑکیں بند کردیں۔
یہ احتجاج اُس وقت منعقد ہوا ہے جب اسرائیلی حکام نے حالیہ مہینوں میں مذہبی یہودیوں کو بڑی تعداد میں فوجی طلبی کے نوٹس بھیجے ہیں اور بھرتی سے انکار کرنے والے کئی افراد کو جیل بھی بھیجا جا چکا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے معزول وزیر دفاع نے نیتن یاہو کے عزائم، ہٹ دھرمی کا بھانڈا پھوڑ دیا
1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ایک اصول طے کیا گیا تھا جس کے مطابق وہ مذہبی یہودی مرد جو مکمل طور پر مذہبی تعلیم کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں، لازمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہوں گے۔
تاہم غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے بعد جب فوج کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہوا تو اس استثنیٰ پر شدید دباؤ بڑھ گیا۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے جون 2024 میں اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ مذہبی یہودیوں کے لیے فوجی سروس سے استثنیٰ ختم ہو چکا ہے اور حکومت اب انہیں لازمی طور پر بھرتی کرے۔
اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نئے بل پر غور کر رہی ہے جس کے تحت صرف وہ نوجوان مستثنیٰ ہوں گے جو مکمل وقت مذہبی تعلیم میں مصروف ہوں گے۔
مزید پڑھیں:اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکا، یہودیوں نے احتجاج کیوں کیا؟
یہ مسئلہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، رواں برس جولائی میں شاس پارٹی کے وزراء نے احتجاجاً کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
دوسری جانب یونائیٹڈ تورہ جوڈائیزم پارٹی پہلے ہی حکومت چھوڑ چکی ہے۔
120 رکنی کنیسٹ میں 11 نشستوں کی حامل شاس پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوجی سروس سے استثنیٰ کو قانون کا حصہ نہ بنایا گیا تو وہ حکومت کی حمایت واپس لے لے گی، جس سے نیتن یاہو کی 60 نشستوں والی حکومت گر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: مظاہرین نے اسرائیلی پارلیمنٹ پر دھاوا کیوں بولا؟
کچھ قدامت پسند مذہبی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ فوجی خدمات نوجوانوں کو مذہب سے دور کر سکتی ہیں، جبکہ بعض دیگر کا کہنا ہے کہ جو مذہبی مطالعے میں مصروف نہیں، وہ فوج میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کی یہودی آبادی کا تقریباً 14 فیصد، یعنی تقریباً 13 لاکھ افراد، قدامت پسند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے تقریباً 66 ہزار مرد اس وقت فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استثنی اسرائیل پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کنیسٹ لازمی فوجی خدمت مذہبی تعلیم یروشلم یونائیٹڈ تورہ جوڈائیزم پارٹیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ لازمی فوجی خدمت مذہبی تعلیم نیتن یاہو
پڑھیں:
اسرائیل کے خلاف فوجی خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے، صہیونی ماہرین
پوکاسٹ میں ماہرِ امورِ دفاع تسفی وائنبرگر نے خبردار کیا کہ اسرائیل کو لاحق خطرات ختم نہیں ہوئے بلکہ ترکی اور مصر کی جانب سے فوجی خطرات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ویب سائٹ نیوز ون کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ماہرین نے ایک خصوصی نشست میں اسرائیل کو درپیش فوجی خطرات پر گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ 7 اکتوبر کی شکست کے بعد بھی اسرائیل کو اپنی عسکری صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یہ نشست ایک پادکاسٹ کی صورت میں منعقد کی گئی، جس میں ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی فوج کی طاقت میں اضافہ کیے بغیر، اسرائیل 7 اکتوبر کے واقعات کے اثرات سے نہیں نکل سکتا۔
ماہرین میں سے ایک نے کہا کہ اسرائیل مختلف بیرونی جنگوں میں الجھا ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ داخلی اختلافات پر بھی توجہ دینا ضروری ہے تاکہ یہ تنازعات مزید نہ بھڑکیں۔ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل نے اعتراف کیا کہ گزشتہ دو برسوں میں اسرائیلی وزارتِ دفاع نے غیر پیشہ ورانہ اور سطحی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی نشست میں ماہرِ امورِ دفاع تسفی وائنبرگر نے خبردار کیا کہ اسرائیل کو لاحق خطرات ختم نہیں ہوئے بلکہ ترکی اور مصر کی جانب سے فوجی خطرات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔