ٹیکسوں کا بڑھتا بوجھ، عوام کی بے چینی میں اضافہ ہونے لگا، گوہر اعجاز
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)ماہر معیشت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ مالی سال 2024-25 کے دوران حکومتِ پاکستان کی انکم ٹیکس وصولی تاریخ کی بلند ترین سطح 5.83 کھرب روپے تک پہنچ گئی، جو گزشتہ مالی سال 2023-24 میں 4.57 کھرب روپے تھی، اس نمایاں اضافے نے سرکاری محصولات میں تو اضافہ کیا ہے مگر عوامی سطح پر شدید نارضگی اور بے اطمینانی پیدا کر دی ہے۔
مائیکر و بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر انہوں نےکہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، مجموعی وصولیوں میں سے 575 ارب روپے تنخواہ دار طبقے سے حاصل کیے گئے، جو گزشتہ سال کے 364 ارب روپے کے مقابلے میں واضح اضافہ ہے۔دوسری جانب کاروباری طبقہ — جس میں کارپوریٹس، پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں، بینکنگ و غیر ملکی کمپنیاں، چھوٹے کاروبار اور ایسوسی ایشن آف پرسنز (AOPs) شامل ہیں — نے تقریباً 5.
این سی سی آئی اے افسران مبینہ گینگ بنا کر رشوت خوری کر رہے ہیں، ڈکی بھائی کو پکڑنے والے افسران کا 3 روزہ ریمانڈ منظور
اس سال پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں نے 1.36 کھرب روپے،لسٹڈ کمپنیوں نے 866 ارب روپے، بینکنگ سیکٹر نے 930 ارب روپے، AOPs نے 214 ارب روپےجبکہ دیگر افراد نے 1.12 کھرب روپے ٹیکس ادا کیا۔حکومت کا مؤقف ہے کہ اس اضافے کی وجہ ٹیکس نیٹ میں وسعت اور بہتر کمپلائنس ہے، تاہم ماہرین معیشت کے مطابق سخت ٹیکس پالیسیوں اور عدم توازن والے بوجھ نے تنخواہ دار طبقے اور کاروباری برادری دونوں کو دباؤ میں ڈال دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکس نظام کو مزید منصفانہ اور پائیدار نہ بنایا گیا تو یہ معاشی سست روی اور عوامی بے اعتمادی کا باعث بن سکتا ہے۔گوہر اعجاز نے مزید کہا کہ آئندہ مالی سال 2025-26 میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو جس میں براہِ راست و بالواسطہ ٹیکس، پیٹرولیم لیوی اور صوبائی محصولات شامل ہیں — 15 فیصد سے تجاوز کرنے کا امکان ہے، جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہوگی۔
لدھیانہ میں سردار موہن سنگھ ثقافتی میلے کی اختتامی تقریب میں شرکت کی، دس سے پندرہ ہزار افراد کا اجتماع تھا،بیرون ممالک سے آئے وفود شامل تھے
Tax Burden and Public Resentment!
The Income Tax collection for the fiscal year 2024–25 reached a record high of Rs. 5.83 trillion, compared to Rs. 4.57 trillion in FY 2023–24, reflecting a sharp increase in government revenue.
However, this excessive tax collection has… pic.twitter.com/9lqZMOYb4Z
مزید :
ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی
ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہائی ویلیو سرجری آئٹمز پر سیلز ٹیکس شرح عائد، ترقیاتی اسکیموں میں کمی لائی جائے گی، حکومت کا اتفاق
نئے قرض روگرام کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف کی 23شرائط مان لیں، جن میں توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، سٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی درجنوں نئی شرائط میں کھاد، زرعی ادویات، شوگر اور سرجری آئٹمز پر ٹیکس لگانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کی یقین دہانی حکومت نے کرا دی۔آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے مشن کے تحت اگلی قسط کیلئے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں درجنوں نئی شرائط سامنے آگئیں ، تاہم اس قرض پروگرام کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف کی 23شرائط مان لیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے اتفاق کیا ہے کہ ترقیاتی سکیموں میں کمی لائی جائے گی، ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے لگائی جانیوالی ان شرائط میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کرنا، اعلیٰ قیمت والی میٹھی اشیاء پر ایکسائز ڈیوٹی متعارف کرانا اور منتخب اشیاء کو معیاری شرح پر منتقل کر کے سیلز ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا شامل ہے۔ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے گی، ہائی ویلیو سرجری آئٹمز پر استنثیٰ ختم کر کے سیلز ٹیکس شرح عائد دی جائے گی۔ ادھر آئی ایم ایف نے سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی، جبکہ ریونیو شارٹ فال پورا نہ ہونے کی صورت میں ایف بی آر نے مزید ٹیکس لگانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔بتایا گیا ہے کہ توانائی شعبے میں اصلاحات، ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، لاگت میں کمی کیلئے اصلاحات جاری رکھی جائیں گی، رواں مالی سال کے دوران مرکزی بینک کی مہنگائی کی شرح 7 فیصد تک رہنے کی توقع ہے، آئندہ دو برسوں تک ملک بھر میں تمام بڑے 40 ہزار ریٹیلرز پر پوائنٹ آف سیلز سسٹم نصب کیا جائے گا۔ 40 ہزار بڑے خوردہ فروشوں کے لیے ملک گیر پوائنٹ آف سیل (POS) سسٹم کی تنصیب اگلے دو سالوں میں مکمل ہو جائے گی، جبکہ چاروں صوبے ہم آہنگ سیلز ٹیکس طریقہ کار کی طرف بڑھیں گے۔آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلق جاری رپورٹ کے مطابق توانائی کے شعبے میں تمام صوبوں نے بجلی اور گیس پر کوئی نئی سبسڈی نہ دینے سے اتفاق کیا ، نئے آر آیل این جی کیلیے اضافی بیرونی معاہدے کرنے سے بھی روک دیا گیا، اوگرا کو 40روز کے اندر ٹیرف کے تعین کی ایڈوائس دی جائے گی، جس کا نوٹیفکیشن جلد ہی جاری ہوجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 کے دوران 52 لاکھ اور سال 2025 کیلئے 70 لاکھ انکم ٹیکس ریٹرن فائل ہوئی، ایم ای ایف پی میں چاروں صوبوں کے درمیان سیلز ٹیکس پر ہم آہنگی پیدا کی جائے گی، مالی سال 2027 کے دوران نئے منصوبوں پر صرف پی ایس ڈی پی کا 10 فیصد خرچ کیا جائے گا، پی ایس ڈی پی میں تقریبا 25 سو ارب روپے کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران سے موسمیاتی تبدیلی کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی، پبلک پروکیورمنٹ میں شفافیت لانے کیلئے ای پیڈز کا استعمال کیا جائے گا، ای پیڈز کے استعمال پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان مارچ 2026 تک رپورٹ صدر مملکت کو فراہم کرے گا۔ جنوری 2026 سے کفالت پروگرام کے تحت سہہ ماہی بنیادوں پر رقم بڑھا کر ساڑھے 14 ہزار دی جائے گی، کفالت پروگرام میں مستحق افراد کی تعداد کو بڑھا کر 1 کروڑ 2 لاکھ تک دائرہ وسیع کیا جائے گا، ٹیرف ریبیسنگ جولائی کی بجائے جنوری 2026 سے کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کم ہو کر 16 سو 14 ارب روپے تک محدود ہو گیا، کمرشل بینکوں کیساتھ جنوری 2026 تک 1۔2 ٹریلین روپے کے معاہدے کی سیٹلمنٹ ہو جائے گی، جس میں سے 660 ارب روپے پرائیویٹ ہولڈنگ لمیٹڈ اور باقی سی پی پی سے کو ادا کیے جائیں گے۔کسی بھی سرمایہ کاری کے پروجیکٹ یا کمپنی کوہر قسم کی مالی مراعات یا گارنٹی کی پیشکش سے بھی روک دیاگیا، کوئی بھی ایندھن پر فیول سبسڈی نہیں دی جائے گی یا کسی بھی کراس سبسڈی سکیم کا اجرا نہیں کیاجائے گا،کسی قسم کے سیکٹورل قرضوں کی فراہمی کے اہداف یا قرضوں کو مختص کرنے کے فیصلے نہیں کیے جائیں گے۔ کنٹری رپورٹ کے مطابق گردشی قرضہ میں کمی کیلئے 128 ارب روپے کی آئی پی پیز سے سود کی رقم کو ختم کرایا جائے گا، مالی سال 2031 تک بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ زیرو ان فلو رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی، اس کے ساتھ ہی نیا قرض پروگرام: پاکستان نے آئی ایم ایف کی 23شرائط مان لیں۔ادھر سٹیٹ بینک سے حکومتی سکیورٹیز کے خاتمے پر مزید توسیع یا مارکیٹ خریداری کو بھی ختم کردیاگیا ہے، قرض پروگرام کے دوران سٹیٹ بینک کوئی نئی قرضے کی سکیم متعارف نہیں کرائے گا، جبکہ اس دوران کرنسی کی قدر کو لچکدار رکھا جائے گا۔ گندم خریداری کے عمل کیلیے وفاقی یا صوبائی امدادی قیمت مقرر کرنے، درآمد ات پر کسی قسم کی نئی ریگولیٹری ڈیوٹی متعارف کرانے سے بھی روک دیاگیا ہے، ایس آئی ایف سی سرمایہ کاری کیلیے کسی قسم کی مراعات تجویز کریگی اور نہ ہی حکومت ٹیکس مراعات یا گارنٹی فراہم کرے گی اور ایس آئی ایف سی کے تحت آنیوالی تمام سرمایہ کاری سٹنڈرڈ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ فریم ورک کے تحت ہونے کو یقینی بنایا جائے۔آئی ایم ایف نے نئے سپیشل اکنامک زونز بنانے یا دیگر زون بنانے اور ان زون کو کسی قسم کی مراعات دینے اور موجودہ مراعات کی تجدید سے بھی روک دیا ہے۔ ادائیگیوں کے بڑھتے خسارے اور فنڈ کے زیرِ کفالت پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد اس خسارے کا 3۔3 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح کو چھونے کے درمیان، پاکستان نے کھاد، کیڑے مار ادویات، اور میٹھی اشیاء پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے ساتھ ساتھ منتخب اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح کو معیاری 18 فیصد تک بڑھانے پر آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کر لیا ہے۔