عراقی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل حمید الشطری کون ہیں؟!
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
1991ء میں صدام رژیم کیخلاف شعبانیہ بغاوت میں حصہ لیا۔ اس بغاوت کے بعد انہیں، ان کے خاندان کے کچھ اراکین کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے باعث وہ 1993ء تک جیل میں رہے۔ اسلام ٹائمز۔ "حمید الشطری" کے نام سے مشہور "حمید رشید فلیح ساهی الزیرجاوی" اس وقت عراقی انٹیلیجس چیف ہیں۔ جن کا نام "محمد شیاع السوڈانی" کی مدت ختم ہونے کے بعد، عراق کی وزارت عظمیٰ کے ممکنہ امیدوار کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ویب سائٹ "الخنادق" نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ کچھ ذرائع کے مطابق، شیعہ پارٹیوں کے اتحاد "شیعہ کوآرڈینیشن فریم ورک" نے وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے حمید الشطری اور "علی الشکری" کو نامزد کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ دونوں میں اہلیت، دیانتداری اور تجربہ موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان دو ناموں میں سے ایک کو، فریم ورک کے فریقین کی تقریباً 70 فیصد حمایت حاصل ہو گئی ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ کون سا نام شارٹ لسٹ ہو چکا ہے۔ الخنادق کی رپورٹ کے مطابق، حمید الشطری جنوبی عراق کے صوبہ ذی قار سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 1969ء میں اسی علاقے میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی ہی سے صدام حسین کی رژیم اور بعث پارٹی کے مخالف تھے، جس کی وجہ سے انہیں گرفتاری اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1986ء میں صدام مخالف گروہ میں شامل ہوئے اور 1991ء میں صدام رژیم کے خلاف شعبانیہ بغاوت میں حصہ لیا۔ اس بغاوت کے بعد انہیں، ان کے خاندان کے کچھ اراکین کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے باعث وہ 1993ء تک جیل میں رہے۔
رہائی کے بعد کچھ عرصے تک جنوبی عراق کے علاقوں میں خفیہ طور پر آتے جاتے رہے۔ بعد ازاں وہ، عراق حكومت كے زیر اثر ریاست کردستان چلے گئے۔ جہاں انہوں نے 1997ء تک اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ حمید الشطری نے 1998 میں عراق چھوڑ دیا۔ وہ پہلے اسلامی جمہوریہ ایران آئے اور پھر سوئزرلینڈ چلے گئے، جہاں انہوں نے کچھ عرصے قیام کیا۔بیرون ملک صدام مخالفین کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، یورپ میں ان کی کئی میٹنگز میں شرکت کی اور ساتھ ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی و کمیونیکیشن کے شعبے میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ 2003ء میں امریکہ کے عراق پر حملے اور سقوطِ صدام کے بعد، حمید الشطری عراق واپس آئے اور اپنی سرگرمیوں کے نئے دور کا آغاز کیا۔ اس پورے عرصے کے دوران انہوں نے سیکورٹی اداروں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ وہ اب تک قومی سیکیورٹی ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر، "فالکنز انٹیلی جنس یونٹ" کے ڈائریکٹر، عراقی وزارت داخلہ میں انٹیلی جنس اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت وہ عراقی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سربراہ ہیں۔ داعش کے خلاف جنگ کے دوران، حمید الشطری نے "عشائری حشد" کے معاملات کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں عربی، انگریزی، فارسی اور جرمن زبانوں پر عبور حاصل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حمید الشطری کے بعد
پڑھیں:
ناروے کے سفیر کی پاکستان میں مداخلت، وزارت خارجہ کا سخت ڈیمارش جاری
پاکستان نے یہ بھی بتایا کہ ناروے کی بعض این جی اوز انسانی حقوق کے نام پرسرگرم ہیں اور وہ پاکستان میں ایسے عناصر کی حمایت اور سپورٹ کرتی ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ وزارت خارجہ نے ڈیمارش کے ذریعے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھانے کا حق رکھتا ہے اور کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے ناروے کے سفیر کی جانب سے سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ایمان مزاری کیس کی سماعت میں شرکت پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ڈیمارش جاری کر دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق یہ اقدام سفارتی حدود سے تجاوز کے مترادف ہے اور پاکستان کے اندرونی عدالتی معاملات میں براہِ راست مداخلت قرار دیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ عمل ویانا کنونشن 1961 کے آرٹیکل 41 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو سفارت کاروں کو میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور اس کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا پابند کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کا سفیر اگر اس نوعیت کے حساس اور زیرِ سماعت مقدمے میں موجود ہو کر عدالتی عمل پر اثر ڈالنے کا تاثر دیتا ہے تو یہ سفارتی ذمہ داریوں اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تصور ہوتی ہے۔
پاکستان نے یہ بھی بتایا کہ ناروے کی بعض این جی اوز انسانی حقوق کے نام پرسرگرم ہیں اور وہ پاکستان میں ایسے عناصر کی حمایت اور سپورٹ کرتی ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ وزارت خارجہ نے ڈیمارش کے ذریعے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھانے کا حق رکھتا ہے اور کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ اس اقدام سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد، خودمختار اور قانون پر عمل درآمد کرنے والی ریاست ہے، جو عالمی سفارتی اصولوں کے مطابق اپنی خودمختاری اور عدالتی عمل کا تحفظ بخوبی جانتی ہے۔