جنرل فیض حمید کو سزا، کیا عمران خان بھی لپیٹ میں آ سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانونی ماہر اور جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ سے ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالت خود کو صرف چارج شیٹ تک محدود رکھتی ہے اور اس سے باہر بالکل بھی نہیں جاتی۔
یہ بھی پڑھیں: آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی، آئی ایس پی آر
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید کے معاملے میں ہوا یہ کہ ہاؤسنگ اسکیم کے مالک کنور معیز کا معاملہ براہ راست سپریم کورٹ سے فوجی اتھارٹیز کو بھجوایا گیا۔ فوجی عدالت نے اسی معاملے کو دیکھا، اسی کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کیے اور پھر تقریباً 15 مہینے کے بعد اسے منطقی انجام تک پہنچایا۔
ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ کنور معیز نے ہمت کی اور اب ان کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی ہمت کر سکتے ہیں جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں تو فوجی حکام پھر ان شکایات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید اور سابق وزیراعظم عمران خان کا تعلق بالکل ثابت کیا جا سکتا ہے اور آئی ایس پی آر کا بیان بالکل واضح ہے کہ ’ملزم پر 4 الزامات عائد کیےگئے، ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں جو ریاست کی سلامتی اور مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال، اوربعض افراد کو بلاجواز نقصان پہنچانے کے الزامات شامل ہیں‘۔
مزید پڑھیے: فیض حمید کو سزا، اگلا کون؟ عمران خان سے متعلق بڑی پیشگوئی
کرنل انعام الرّحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیاسی سرگرمیوں کی بات بالکل واضح ہے لیکن اس کے لیے کسی اور فریق کو سامنے آ کر درخواست دائر کرنی پڑے گی۔
عمران خان کے خلاف مقدمات کا حالیہ اسٹیٹس کیا ہے؟21 اگست کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 9 مئی سے متعلق 8 مقدمات میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ضمانتیں منظور کر لیں۔ اب عمران خان صرف القادر ٹرسٹ کیس میں جیل میں قید ہیں لیکن اس کے ساتھ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹو مقدمے کا ٹرائل آخری مراحل میں ہے۔
9 مئی 2023 سے پہلے بھی عمران خان مختلف مقدمات میں نامزد تھے لیکن 9 مئی کے بعد ان پر درجنوں نئے مقدمات قائم کیے گئے۔
پولیس اور ایف آئی اے کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع شدہ رپورٹس کے مطابق کل 186 مقدمات درج ہیں۔ دسمبر 2024 میں ایک رپورٹ اِسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کی گئی جس کے مطابق عمران خان کے خلاف پنجاب میں 99، اسلام آباد میں 74، خیبرپختونخواہ میں 2، ایف آئی اے کے پاس 7 اور قومی احتساب بیورو کے پاس 3 مقدمات ہیں۔ لیکن اب تک جن مقدمات میں عمران خان سزا یافتہ ہیں، بری ہو چکے، سزائیں ملنے کے بعد معطل ہو چکیں یا ضمانتیں مل چکیں ان کی تعداد کم و بیش 13 ہے۔
مزید پڑھیں: جنرل فیض حمید کو سزا، ’ 9 مئی کے کیسز ابھی باقی ہیں‘، فیصل واوڈا
باقی زیادہ تر مقدمات 2022 کا لانگ مارچ، 2023 کے احتجاجات اور دیگر اِس نوعیت کے مقدمات ہیں جن میں عمران کی براہ راست شمولیت نہیں۔ یہ مقدمات زیادہ تر ملک بھر میں ہونے والے احتجاجات اور توڑ پھوڑ کے حوالے سے اشتعال انگیزی پر مبنی ہیں۔
بانی پی ٹی آئی 5 اگست 2023 کو توشہ خانہ مقدمے میں سزا کے بعد جیل بھجوائے گئے تھے۔ اِس وقت 2 سال سے زائد عرصے سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں جہاں ان کے خلاف کچھ مقدمات زیرِالتوا، کچھ میں سزا معطل اور کچھ میں ضمانت ہو چکی ہے۔ کچھ مقدمات جیسا کہ سائفر کیس، عدت کیس اُن کے خلاف ختم ہو چکے ہیں۔
عمران خان اس وقت کس مقدمے میں جیل میں ہیں؟عمران خان فی الحال القادر ٹرسٹ کیس جسے 190 ملین پاؤنڈ کیس بھی کہا جاتا ہے اس میں سزا یافتہ اور پابند سلاسل ہیں۔ اس مقدمے میں انہیں 17 جنوری 2025 میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ ان کی بیوی بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: ’قوم برسوں ان کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی‘، خواجہ آصف کا سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر ردعمل
قومی احتساب بیورو کے پاس درج یہ وہی مقدمہ ہے جس میں 9 مئی 2023 کو رینجرز نے عمران خان کو اِسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا لیکن بعد ازاں 11 مئی 2023 کو سپریم کورٹ نے احاطہ عدالت سے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں 2 ہفتے کی ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے متعلق ہے جہاں ان پر کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے۔ دیگر مقدمات میں انہیں ضمانت مل چکی ہے لیکن یہ کیس ہی انہیں جیل میں رکھے ہوئے ہے۔
اس مقدمے میں عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے سزا معطلی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ گزشتہ روز 25 ستمبر کو اِس مقدمے کی سماعت کے موقع پر پبلک پراسکیوٹر کی غیر حاضری کے سبب مقدمے کی سماعت آگے نہ بڑھ سکی اور اب اگلی سماعت 16 اکتوبر کو ہو گی۔
9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت21 اگست کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی سے متعلق 8 مقدمات میں عمران خان کی ضمانتیں منظور کیں۔ اس سے قبل انسداد دہشتگردی عدالت اور لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی درخواست ضمانت کو مسترد کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: فیض حمید کیس کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر آیا، وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ
عمران خان کے خلاف 9 مئی مقدمات میں لاہور کورکمانڈر ہاؤس کے جلاؤ گھیراؤ بھی شامل ہے۔ جولائی میں لاہور پولیس کے 13 اہلکاروں پر مشتمعل ایک ٹیم نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا اور اِس حوالے سے عمران خان سے تفتیش کرنے کی کوشش کی۔
توشہ خانہ کیس5 اگست 2023 کو عمران خان کو اِس مقدمے میں 3 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ مقدمہ دراصل الیکشن کمیشن آف پاکستان سے شروع ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل شدہ تحائف سے حاصل ہونے والی رقم کو اپنے گوشواروں میں درج نہیں کیا۔
الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر 2022 کو عمران خان کو اِس مقدمے میں نااہل قرار دے دیا۔ بعد میں قومی احتساب بیورو نے اس سلسلے میں ایک کرپشن ریفرنس دائر کیا جس میں کہا گیا کہ عمران خان نے غیر ملکی دوروں کے دوران موصولہ تحائف کی قیمتوں کا کم اندراج کر کے فائدہ اٹھایا۔ لیکن 28 اگست 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس مقدمے میں سزا معطل کر دی تھی۔
توشہ خانہ ٹو کیستوشہ خانہ مرکزی کیس کے بعد توشہ خانہ ٹو مقدمہ عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے ایف آئی اے کے پاس درج کیا گیا۔ 7 سے 10 مئی 2021 کے 3 روزہ دورے کے دوران سعودی حکومت نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بیش قیمت بلغاری جیولری تحفے میں دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کون ہیں، انہیں کن جرائم کی سزا دی گئی؟
نیب ریفرنس کے مطابق، مذکورہ جیولری زیادہ قیمت پر بیچ کر سرکاری ریکارڈ میں کم قیمت اندراج کیا گیا جس سے سرکاری خزانے کو ساڑھے 3 کروڑ سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 31 جنوری 2024 کو اس کیس میں عمران خان کو 14 سال جبکہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے یکم اپریل 2024 کو اِس مقدمے میں سزائیں معطل کر دی تھیں۔ اس وقت یہ اسپیشل جج سنٹرل کے پاس زیرِ سماعت اور فیصلے کے قریب ہے۔
سائفر کیس10 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمٰی سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان نے ایک جلسے میں ایک لفافہ لہراتے ہوئے کہ امریکا سے دفتر خارجہ کو موصول ہونے والے سائفر کی وجہ سے انہیں ہٹایا گیا۔ اس پر عمران خان کے خلاف سرکاری راز عیاں کرنے کے حوالے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم میں ہلچل مچا دی، جنرل فیض حمید کیس کا آخری باب؟
جنوری 2024 میں خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10/10 سال قید کی سزائیں سنا دی تھیں لیکن 3 جون 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اُنہیں مقدمے سے بری کر دیا۔
عدت کیسیہ معاملہ عدت کے دوران شادی سے متعلق تھا لیکن اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکہ نے 13 جولائی 2024 کو عمران خان کو اس مقدمے سے بری کر دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فیض حمید فیض حمید اور عمران خان فیض حمید سزا فیض حمید کورٹ مارشل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فیض حمید فیض حمید اور عمران خان فیض حمید سزا فیض حمید کورٹ مارشل اسلام ا باد ہائیکورٹ عمران خان کے خلاف عمران خان کو ا سال قید کی سزا جنرل فیض حمید عمران خان کی ہائیکورٹ نے کو ا س مقدمے فیض حمید کو کے حوالے سے سپریم کورٹ مقدمات میں ان کے خلاف توشہ خانہ نے کہا کہ جیل میں کورٹ نے ئی ایس کے پاس کر دیا کے بعد ا فیشل
پڑھیں:
فوج میں بلا امتیاز احتساب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251213-03-2
وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے کسی سابق سربراہ کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور اسے کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد چودہ سال قید بامشقت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف بارہ اگست 2024ء کو پاک آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا یہ عمل 15 ماہ تک جاری رہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملزم کے خلاف 4 الزامات پر کارروائی کی گئی، ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، ریاست کی سلامتی اور مفادات کے لیے نقصان دہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ طویل اور جامع قانونی کارروائی کے بعد ملزم تمام الزامات میں قصور وار قرار پایا گیا ہے، عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025ء سے شروع ہو گا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور ملزم کو دفاع کے لیے وکیلوں کی ٹیم منتخب کرنے سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے۔ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملزم کے سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت، سیاسی اشتعال انگیزی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے معاملے سے علٰیحدہ طور پر نمٹا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تعینات رہے اور وہ کور کمانڈر پشاور بھی رہ چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 12 اگست 2024ء کو فوجی تحویل میں لیا گیا تھا۔ فیض حمید کے خلاف کارروائی عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملے پر شکایات کے بعد شروع کی گئی تھی، عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری ہوئی۔ 29 نومبر 2022ء کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ گزشتہ سال 10 دسمبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کیا گیا تھا۔ ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے اور ان کے وکیل میاں علی اشفاق نے برطانوی نشریاتی ادارے، بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس پہلے ہی سے سزا کو چیلنج کرنے کی ہدایات موجود ہیں، فیصلے کی کاپی ملنے پر اس کا تفصیلی جائزہ لے کر اپیل دائر کر دیں گے۔ ان کے مطابق پہلا اپیل کا فورم آرمی کورٹ آف اپیل ہے جب کہ آرمی چیف کے پاس اپیل کا راستہ بھی موجود ہے۔ جب ان سے عدالتی کارروائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا کورٹ مارشل ہے بطور وکیل دفاع میں نے آخری حد تک شفافیت لانے کے اقدامات کیے تاہم کتنی آزادی ملی اور کتنی نہیں ملی، اس مرحلے پر ہم اس پر بات نہیں کر سکتے کیونکہ عدالت کی کارروائیوں کو میں سامنے نہیں لا سکتا۔ میاں علی اشفاق کا مزید کہنا تھا کہ 90 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں اور میں نے تین سے 12 گھنٹے یومیہ اپنے موکل کے ساتھ بھی گزارے۔ ہماری سائیڈ کا موقف ہے کہ جرح میں پوچھے گئے 8000 سوالوں میں سے استغاثہ آٹھ سوالوں کے جواب بھی ملزم کے خلاف ان کے گواہ نہیں دے پائے۔ ہماری نظر میں یہ کیس ہم نے سو میں سے سو نہیں بلکہ ہزار فی صد جیتا ہوا ہے تاہم یہ عدالت کا فیصلہ ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سنائی گئی سزا پر حکومتی وزراء نے اپنے رد عمل میں خوشی کے شادیانے بجائے ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ قانون سے کوئی بھی بالا نہیں، فیض حمید کی سزا ایک تاریخی فیصلہ اور حق و سچ کی فتح ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں فیض حمید کی سزا کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیض حمید کی سزا ایک تاریخی فیصلہ اور حق و سچ کی فتح ہے، پاک فوج کا سسٹم بہت مضبوط ہے، قانونی میکنزم بہت مضبوط ہیں، اس معاملے پر ایک لمبا عرصہ شواہد پیش کیے جاتے رہے، گواہان کے بیانات قلمبند کیے جاتے رہے۔ فیض حمید نے بطور پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر ملک میں سازشیں کی، فیصلہ تاریخی ہے۔ فیض حمید کی جانب سے ریڈ لائن کراس کی گئی، ریٹائرمنٹ کے بعد جب سیاسی سرگرمیوں پر قدغن تھی تب یہ پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر بنے اور ان کی پوری سیاسی سپورٹ کی۔ 9 مئی بہت سنگین معاملہ ہے اس پر تحقیقات ہوں گی۔ فوج میں خود احتسابی کا عمل بہت مضبوط ہے جس کی واضح مثال سب نے دیکھ لی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ قوم برسوں تک سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ ہمیں طاقت اور اقتدار کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کی مخلوق کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے، اللہ ہمیں معاف کرے، خوف خدا حکمرانوں کا شیوہ بنے، وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فیض حمید کا سیاست میں عمل دخل ثابت ہو گیا، فوج کا اندرونی احتساب کا نظام مضبوط ہے، فیض حمید کا ساتھ دینے والوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کی جانے والی کارروائی اس لحاظ سے باعث اطمینان اور خوش آئند ہے کہ اس سے ایک اہم ادارے میں ہر سطح پر بلا امتیاز احتساب کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی دیگر اداروں کو بھی پیروی کرنا چاہیے کہ ایسی ہر کارروائی ادارے کے اندرونی استحکام اور نظم و نسق کی مضبوطی کا سبب بنتی ہے تاہم لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کو صرف فردِ واحد تک محدود نہیں رہنا چاہیے کیونکہ جس جرم میں انہیں سزا سنائی گئی ہے انہوں نے تنہا اس کا ارتکاب نہیں کیا بہت سے دوسرے چھوٹے بڑے حکام بھی اس کا حصہ تھے۔ وزیر دفاع نے تو اس ضمن میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) باجوہ کا نام لے کر انہیں ملزم ٹھیرایا ہے۔ یہاں اس پس منظر کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے پانچ چھے معزز ججوں نے منصف اعلیٰ کے نام باقاعدہ تحریری شکایت کی تھی کہ ادارے کے لوگ انہیں اپنی مرضی کے فیصلے تحریر کرنے پر مجبور کرتے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ احتساب کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ادارے میں موجود غلط کار عناصر اور خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اہتمام کیا جائے۔