عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-03-5
اقبال کا مشہورِ زمانہ شعر ہے
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری کی حالیہ پریس کانفرنس سننے کے بعد ہم نے عرض کیا ہے۔
ملک کے فوجی اہلکار ہوں یا آلِ شریف
ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ ’’بانی‘‘ ہے سوار
اس اجمال کی تفصیل ڈی جی آئی ایس پی آر کی اخبارات میں شائع ہونے والی پریس کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس میں احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ شخص‘‘ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں، ’’تمہارا باپ‘‘ بھی فوج اور عوام میں دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک ذہنی مریض افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا دوسروں کو غدار کہتا پھر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس شخص‘‘ کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی شخص‘‘ کو فوج کے خلاف بیانیہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ احمد شریف چودھری نے کہا بھارت اور افغانستان ’’ان کے‘‘ بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایسے لوگوں‘‘ کے بارے میں یہی ہوں گا کہ جب ’’کتا‘‘ بھونک رہا ہوتا ہے تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ (روزنامہ جسارت اور ڈیلی ڈان۔ 6 دسمبر 2025)
عمران خان کے بارے میں یہ بات ’’مشہورِ زمانہ‘‘ بھی ہے اور ’’بدنام زمانہ‘‘ بھی کہ وہ ایک ’’خودپسند‘‘ شخص تھے اور ہیں۔ اس کی وجہ ان کی کرکٹ کی عظمت ہے۔ کرکٹ کی تاریخ کے اگر دس بڑے بولرز کا شمار کیا جائے تو عمران ان میں سے ایک ہوں گے۔ کرکٹ کے پانچ عظیم بولرز کا انتخاب کیا جائے گا تو ان میں عمران کا نام شامل ہوگا۔ کرکٹ کے تین عظیم بولرز کی فہرست بنائی جائے گی تو عمران اس فہرست کا بھی حصہ ہوں گے۔ عمران خان دنیائے کرکٹ کے چند بڑے آل رائونڈرز میں بھی شامل تھے۔ وہ ان خوش قسمت کپتانوں میں سے ایک ہیں جنہوںنے اپنے ملک کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دیا ہے۔ وہ 25 سال تک کروڑوں افراد کے دل کی دھڑکن بنے رہے۔ کروڑوں خواتین ان کی پرستار تھیں، بھارت میں وہ ’’دیوتا‘‘ کی طرح دیکھے جاتے تھے۔ ایسا شخص اگر خود پسند ہوجائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خود پسند شخص ذہنی مریض بھی بن جاتا ہے بلکہ خود پسندی تو خود ایک ذہنی و نفسیاتی مرض ہے لیکن اس سلسلے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان زیادہ بڑے خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں یا پاکستانی جرنیل؟
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی پاکستانی فوج ہی موجود نہیں تھی۔ لیکن پاکستان بنتے ہی جرنیل پاکستان کے اقتدار پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے سے معلوم ہوا کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب فرما رہے تھے کہ پاکستان کی فوج سیاست دانوں کو پاکستان تباہ نہیں کرنے دے گی۔ سوال یہ ہے کہ جو فوج تخلیق پاکستان کے عمل میں کہیں شریک ہی نہیں تھی اسے جنرل ایوب نے اچانک پاکستان کا ’’مائی باپ‘‘ کیسے بنادیا؟ یہ جنرل ایوب کی ’’خود پسندی‘‘ اور ’’ذہنی مرض‘‘ نہیں تھا تو کیا تھا جو انہیں اقتدار پر قبضے کا خواب دکھا رہا تھا؟ دیکھا جائے تو جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے کا نہ کوئی مذہبی جواز تھا، نہ تاریخی و تہذیبی جواز تھا۔ یہاں تک کہ ان کے قبضے کا کوئی جمہوری اور سیاسی جواز بھی نہیں تھا مگر جنرل ایوب خود پسندی کے ذہنی مرض میں مبتلا تھے۔ چنانچہ انہوں نے عملاً 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ایسا کرکے انہوں نے قائداعظم کی میراث اور تحریک پاکستان کی عظیم جمہوری جدوجہد پر تھوک دیا۔ چنانچہ احمد شریف چودھری کو عمران خان کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب کو بھی ان کی خود پسندی اور ذہنی مرض پر مطعون کرنا چاہیے۔ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی 1956ء کا آئین منسوخ کردیا۔ یہ بھی ان کی خود پسندی اور ذہنی مرض کا شاخسانہ تھا۔ جنرل ایوب کے زمانے میں قومی اخبارات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کے خلاف آدھے آدھے صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے گئے جن میں انہیں ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے اشتہارات جنرل ایوب کی مرضی کے بغیر شائع نہیں کرائے جاسکتے تھے۔ ان اشتہارات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خود پسند بھی تھے اور ذہنی مریض بھی۔ یہاں تک کہ وہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ تھے اس لیے کہ فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن تھیں اور وہ قومی اتحاد کی علامت تھیں۔ چنانچہ ان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش قومی سلامتی کے لیے خطرہ تھی۔ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو جنرل ایوب نے دھاندلی کرکے انہیں ہرا دیا۔ یہ عمل بھی جنرل ایوب کی خود پسندی اور ذہنی مرض کی علامت تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ اس عمل سے قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ پیدا ہوا کیونکہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں جگہ مقبول تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح صدر پاکستان بن جاتیں تو مغربی اور مشرقی پاکستان کی یکجائی بڑھ جاتی۔
جنرل یحییٰ خان بلا کے شراب نوش اور عورت باز تھے۔ انہوں نے تین سال میں ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ پہلے دن سے قومی سلامتی کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ تھے۔ جنرل یحییٰ کے ملک توڑنے کی بات ہم خود نہیں کہہ رہے۔ جنرل یحییٰ کے زمانے کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر صدیقی نے کچھ سال پہلے جیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کو ہرانے کے لیے مولانا بھاشانی کو بھاری رشوت دی تھی مگر پھر مولانا بھاشانی نے دیہی علاقوں میں شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ تھی تو 1970ء کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ مگر اس کے باوجود جنرل یحییٰ شان سے جیے اور مرنے کے بعد پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیے گئے۔ 1971ء کے بحران کا ایک اہم کردار جنرل نیازی تھا۔ اسے ایسٹرن کمانڈ کا سربراہ بنایا گیا تو اس نے بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ کیا ایسا بیان خود پسندی اور ذہنی مرض میں مبتلا ہوئے بغیر دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس بیان سے ثابت نہیں ہوتا کہ جنرل نیازی قومی سلامتی کے لیے بہت ہی بڑا خطرہ تھا۔ لیکن پاکستانی فوج کے کسی جرنیل نے آج تک جنرل نیازی کو خود پسند، ذہنی مریض اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ باور نہیں کرایا۔
بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1947ء سے 1962ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ 1971ء میں جب ملک دو ٹکڑے ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی تعداد 7 سے 8 فی صد تھی حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 1947ء سے 1971ء تک جتنے جرنیل آئے وہ سب قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے ملک کے اکثریتی طبقے کو فوج جیسے اہم ادارے میں وہ مقام ہی حاصل کرنے نہیں دیا جس کے بنگالی مستحق تھے۔ فوج کے حوالے سے ’’مارشل ریس‘‘ یا ’’برترنسل‘‘ کا فلسفہ ایجاد کیا گیا۔ برتر نسلیں دو تھیں پنجابی اور پشتون جن کی فوج میں اکثریت تھی۔ بنگالیوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’’پستہ قد‘‘ ہیں اس لیے فوج کے لیے موزوں نہیں۔ یہ بھی پنجابی اور پشتون جرنیلوں کی خود پسندی اور ذہنی مرض کا حاصل تھا۔
جنرل ضیا الحق نے کراچی اور حیدر آباد میں الطاف حسین جیسے جرائم پیشہ سیاست دان کی پشت پناہی کی۔ اسے زیرو سے ہیرو بنایا اور سندھ کے شہری علاقوں کو ’’ناپاک مہاجریت‘‘ کے نشے میں مبتلا کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق کی ’’مذہبیت‘‘ بھی جعلی تھی اور ’’پاکستانیت‘‘ بھی جعلی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں الطاف حسین نے بھارت کے دورے کے موقع پر کہا کہ اگر میں 1947ء میں ہوتا تو کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ ڈالتا لیکن اس بیان کے بعد بھی جنرل پرویز نے دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے کو حکم دیا کہ وہ الطاف حسین کو رات کے کھانے پر مدعو کرے اور پاکستانی سفارت خانے نے ایسا ہی کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف نواب اکبر بگٹی کو ڈرون حملے میں ہلاک نہ کرتے تو بلوچستان آج آتش فشاں بنا ہوا نہ ہوتا۔ یہ تمام واقعات بھی جرنیلوں کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے اور ان کے سیکورٹی رسک ہونے کا ثبوت ہیں۔
جہاں تک عمران خان کی خودپسندی کا تعلق ہے تو وہ کبھی بھی راز نہیں تھی مگر اس کے باوجود جرنیلوں نے انہیں اپنے سائے میں لیا۔ انہیں ذرائع ابلاغ پر چھا جانے کے مواقعے دیے۔ انہیں Electables فراہم کیے، انہیں ملک کا وزیر اعظم بنایا یہاں تک کہ بشریٰ بی بی سے ان کی شادی کرائی۔ یہاں تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ عمران خان صاحب ِ کردار تھے، قومی ہیرو تھے، وزیراعظم بننے کے لائق تھے لیکن جیسے ہی وہ جرنیلوں کے ہاتھ سے نکلے وہ اچانک ’’خود پسند‘‘ بھی ہوگئے، ’’ذہنی مریض‘‘ بھی بن گئے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی قرار پاگئے۔ کیا یہی جرنیلوں کی ’’ایمانداری‘‘ ہے کیا یہی ان کی ’’حب الوطنی‘‘ ہے؟۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ کی خود پسندی اور ذہنی مرض احمد شریف چودھری جی ا ئی ایس پی ا ر انہوں نے کہا کہ فاطمہ جناح پاکستان کی پاکستان کے میں مبتلا جنرل یحیی جنرل ایوب نہیں تھا کے خلاف کہ جنرل یہاں تک جائے تو اس لیے فوج کے
پڑھیں:
حکومت کا عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور احتجاج کے نام پر فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، حکومت نے قیدی نمبر 804 (عمران خان) کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اختیار ولی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور ملک میں عشق پاکستان اور عشق عمران میں واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس فوج پر حملہ آور ہوئی جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا، بانی پی ٹی آئی نے جو ٹویٹ کیا نہ پی ٹی آئی اسے نگل سکتی ہے نہ اگل سکتی ہے، پی ٹی آئی پشاور جلسے میں پورے ملک سے لوگ بلا کر بھی چند لوگ اکٹھے نہ کر سکی ، پی ٹی آئی کے لوگ مذہب کو سیاست کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی اپنی سیاست کو دہشت گردی کیلئے استعمال کر رہی ہے ، ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں کیونکہ آئے روز پی ٹی آئی فوج اور عدلیہ پر حملہ آور ہوتی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کو آج بھی پاناما بنچ والی عدلیہ چاہئے۔
اختیار ولی خان نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں کون سا پراجیکٹ بنایا؟ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی نے ہماری نوجوان نسل کو اپنی نفرت کی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جس کی مثال ہے کہ خیبرپختونخوا میں 13 سالوں میں ایک ہسپتال، ایک یونیورسٹی نہیں بنا سکی۔
انہوں نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کے ٹویٹ کو ان کی اپنی ہی قیادت ری ٹویٹ نہیں کر رہی، پی ٹی آئی نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا، 9 مئی اور 26 نومبر جیسے واقعات کئے۔
انہوں نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 2013 میں ان کو روشناس کرایا گیا اور 2018 میں انہیں ملک پر مسلط کر دیا گیا۔
اختیار ولی خان کے مطابق خیبرپختونخوا میں بلے کا نشان لینے کیلئے کوئی تیار نہیں تھا۔ گورنر راج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گورنر راج کو جمہوری قوتیں پسند نہیں کرتیں اور اگر ہم نے گورنر راج لگانا ہوتا تو تب لگاتے جب آپ نے 26 نومبر والا واقعہ کیا تھا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی لاشوں کی سیاست کرتی ہے، پی ٹی آئی کو خون چاہئے اور ہمیشہ پی ٹی آئی کی جانب سے انتشار اور تشدد کا راستہ اپنایا گیا جبکہ حکومت کبھی بھی تشدد کا راستہ نہیں اختیار کرتی۔
انہوں نے غیر ملکی مداخلت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارت اور اسرائیل سے آپریٹ کئے جا رہے ہیں اور بھارتی میڈیا بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کے جھوٹے بیانیے کو بڑھ چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔
انہوں نے دو ٹوک اعلان کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کیلئے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور ملک میں عشق پاکستان اور عشق عمران میں واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی کو غدار یا کسی جماعت پر پابندی لگانے کی بات نہیں کرتے اور اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ میرا انتخاب پاکستان ہے، پاکستان ہمیشہ زندہ باد رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج تو ہم نے سنا تھا کہ چند منٹوں یا گھنٹوں کا ہوتا ہے، یہ کونسا طریقہ ہے کہ آپ نے پنڈی اور اڈیالہ روڈ پر بسنے والے لوگوں کی زندگی ہر ہفتے اجیرن بنادیں، جن بچوں نے اسکول جانا ہے، جنہیں واپس گھر آنا ہوتا ہے، ان کی زندگی محال ہوجاتی ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’تو میرے خیال میں پی ٹی آئی اس بات پر مصر ہے وہ چاہتی ہے کہ یہاں سے قیدی نمبر ’اٹھ سو چوڑ‘ کو کسی دوسرے صوبے کی جیل میں منتقل کردیا جائے، حکومت نے اس پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے، کیونکہ لوگوں کی زندگی میں زخنے ڈالنے سے محفوظ بنانے کے لیے جو بھی اقدامات اٹھانے پڑیں گے، وہ ہم اٹھائیں گے‘۔
https://www.facebook.com/expressnewspk/videos/no-mercy%D9%BE%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D9%84%D8%A7%D8%B4%DB%8C%DA%BA-%DA%86%D8%A7%DB%81%D8%A6%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B1-%D9%88%D9%84%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%81%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%86%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1-/25311933425083539/