پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سفارتی کشیدگی کے بعد کابل میں افغان علما و مشائخ کے بڑے اجتماع سے جاری ہونے والا بیان دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک مثبت اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت ابھی زبانی یقین دہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

وی نیوز ایکسکلوسیومیں گفتگو کرتے ہوئے انڈیپنڈنٹ اردو کے منیجنگ ایڈیٹر اور سینیئر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 سے 3 ماہ میں تعلقات میں جو تناؤ بڑھا تھا، اس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی مثبت بات سامنے آئی ہے۔

افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی

ہارون رشید کا کہنا تھا کہ کابل میں ایک ہزار سے زائد افغان علما کے اجلاس میں یہ مؤقف سامنے آیا کہ افغانستان کی سرزمین نہ پاکستان اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے دی جائے گی، اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بھی اپنے خطاب میں اسی مؤقف کو دہرایا-

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم ساتھ ہی تحریری ضمانت کا مطالبہ بھی دہرایا ہے۔

’زبانی یقین دہانیاں طالبان کئی سال سے دے رہے ہیں، لیکن ریاستوں کے تعلقات میں اصل اہمیت تحریری معاہدوں کی ہوتی ہے۔‘

تحریری ضمانت طالبان کے لیے مشکل

تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کے لیے تحریری یقین دہانی دینا اس لیے مشکل ہے کہ اس سے ان کی اپنی صفوں میں تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔

ہارون رشید کا کہنا تھا کہ اگر طالبان تحریری طور پر ضمانت دیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے، تو ان کی اپنی صفوں سے اس پر شدید ردِعمل آسکتا ہے۔

ان کے مطابق طالبان کا کچھ حصہ نظریاتی طور پر پاکستانی طالبان کے قریب سمجھا جاتا ہے، اور ایسی کارروائیاں اندرونی اختلافات کو ہوا دے سکتی ہیں۔

افغان علما کا اجلاس اہم، مگر فیصلہ کن نہیں

افغانستان میں مذہبی طبقے کا اثر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اور اس سطح کے اجلاس کو اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ یہ اجلاس دراصل اندرونی مشاورت تھا، جس کی قراردادیں منظرِ عام پر نہیں آنا تھیں لیکن خبر لیک ہونے کے بعد اسے سیاسی رنگ مل گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ علما کی حمایت طالبان حکومت کے لیے دباؤ ضرور پیدا کرتی ہے، مگر حتمی فیصلے طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔

ماضی میں بھی یقین دہانیاں، مگر عملدرآمد ندارد

ہارون رشید کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان ماضی میں بھی کئی بار ایسی یقین دہانیاں دی گئیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث اعتماد کا فقدان بڑھتا چلا گیا۔

انہوں نے سابق پاکستانی سفارتکار آصف درانی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2 افغان وزرا نے انہیں آن ریکارڈ کہا تھا کہ طالبان سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

سرحدی کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں

ہارون رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اور سرحدی کشیدگی سے نہ صرف تجارت بلکہ خطے کی مجموعی استحکام متاثر ہو رہا ہے۔

’اسٹیٹس کو زیادہ دیر چل نہیں سکتا، تجارت، روزگار اور علاقائی رابطے پر اس کے اثرات ہیں، اس لیے فریقین پر دباؤ تھا کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان ٹی ٹی پی طالبان علما و مشائخ ہارون رشید.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان ٹی ٹی پی طالبان ہارون رشید ہارون رشید کا کہنا پاکستان اور تعلقات میں افغان علما کے مطابق کے خلاف کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

پاک افغان کشیدگی: چین کی خطے میں امن اور عالمی برادری سے تعلقات میں تعاون کی پیشکش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور باہمی تنازعات پر پہلی بار ہمسائیہ ملک چین نے بھی ردعمل دیدیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے زور دیا کہ پاکستان اور افغانستان کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اپنائیں۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ باہمی اختلافات اور تنازعات کو سفارتی سطح پر بات چیت سے فوری طور پر حل کریں۔

ترجمان گو جیاکن نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی چین کے روایتی اور دوستانہ پڑوسی ممالک ہیں اور یہ دونوں بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے پڑوسی رہیں گے۔

اُن کے بقول چین کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک اختلافات اور تنازعات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کریں، کشیدگی کو کم کریں اور مل کر خطے کو پُرامن اور مستحکم رکھیں۔

اس موقع پر چینی ترجمان نے یہ پیشکش بھی کی کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ کام کرنے اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ترجمان چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ مؤقف خطے میں امن کے لیے چین کی روایتی سفارتی پالیسی کے مطابق ہے جو کہ دوستی، تعاون اور مشترکہ مفاد پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔

یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے کے اختتام پر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں۔

دونوں ممالک کے درمیان دوحہ، استنبول اور ریاض میں مذاکرات بھی ہوئے ہیں تاہم یہ مذاکرات تاحال بے نتیجہ ہی ثابت ہوئے ہیں البتہ دونوں ممالک جنگ بندی پر قائم ہیں۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • افغان سرزمین سے سرحد پار حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی: امیر متقی
  • بیرون ملک عسکری سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، ایک ہزار افغان علما کی قرارداد
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان کا افغان طالبان سے تحریری ضمانتوں کا مطالبہ—بھارت کی ریاستی دہشت گردی بے نقاب، دفترِ خارجہ کا دوٹوک اعلان!
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے
  • پاک افغان کشیدگی: چین کی خطے میں امن اور عالمی برادری سے تعلقات میں تعاون کی پیشکش