اسلام آباد‘ اشک آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ترکیہ کے ساتھ سیاسی، توانائی، اقتصادی، دفاع اور سرمایہ کاری سمیت باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے توانائی، پٹرولیم اور معدنیات کے ترجیحی شعبوں میں ترکیہ کی دلچسپی اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی ترک صدر رجب طیب اردگان سے اشک آباد میں بین الاقوامی فورم کے موقع پر ملاقات ہوئی جس میں دونوں رہنمائوں نے ترکیہ اور پاکستان کے مابین تاریخی اور گہرے برادرانہ تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا جن کی بنیاد مشترکہ اقدار اور امن و خوشحالی کی مشترکہ خواہش پر ہے۔ وزیراعظم نے رواں برس پاکستان اور ترکیہ کے درمیان قیادت کی سطح پر ہونے والے مسلسل روابط پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ترکیہ کے ساتھ سیاسی، توانائی، اقتصادی، دفاع اور سرمایہ کاری سمیت باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے پاک ترک جے ایم سی کے 16ویں اجلاس کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کیا جو 7ویں ایچ ایل ایس سی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔ وزیر اعظم نے توانائی، پٹرولیم اور معدنیات کے ترجیحی شعبوں میں ترکیہ کی دلچسپی اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم نے اہم شعبوں میں حال ہی میں دستخط شدہ مفاہمتی یادداشتوں و معاہدوں پر بروقت عملدرآمد کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری میں ترکیہ کے اس شعبے میں تجربے سے استفادہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بیان کے مطابق اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان وزارتی سطح کے تبادلے بہت جلد ہوں گے۔ وزیراعظم نے علاقائی روابط کی اہمیت پر زور دیا جس میں اسلام آباد-تہران-استنبول ریل نیٹ ورک کی بحالی شامل ہیں۔ دونوں رہنمائوں نے علاقائی اور عالمی پیشرفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے صدر رجب طیب اردگان کی جرأت مندانہ قیادت اور غزہ میں امن کی کوششوں کے لئے مضبوط عزم کی تعریف کی۔ انہوں نے پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے میں ترکیہ کے تعمیری کردار کا شکریہ بھی ادا کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن تب ہی ممکن ہو گا جب پاکستان کے سلامتی کے خدشات کو پوری طرح سے حل کیا جائے۔ صدر رجب طیب اردگان نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے نیک خواہشات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جبکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی رہنمائوں کے ہمراہ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت یادگار غیرجانبداری کا دورہ کیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں یادگار غیرجانبداری پر پھول چڑھائے۔ اس موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردگان اور ترکمانستان کے صدر بردی محمدوف سمیت متعدد عالمی رہنما بھی موجود تھے جن سے وزیراعظم کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ یادگار غیرجانبداری ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف بین الاقوامی سال برائے امن و اعتماد، عالمی دن برائے غیر جانبداری اور ترکمانستان کی تیس سالہ مستقل غیر جانبداری کی سالگرہ کے حوالے سے اشک آباد میں منعقدہ  فورم میں شرکت کیلئے ترکمانستان کے دورے پر ہیں۔ وزیر اعظم کی فورم میں شریک عالمی رہنمائوں سے دوطرفہ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی بین الاقوامی  فورم کے موقع پر عالمی رہنمائوں سیخوشگوار  غیر رسمی  ملاقاتیں ہوئیں۔ جمعہ کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردگان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان‘  تاجکستان کے صدر امام  علی رحمن  اور کرغزستان کے صدر صادر ژپاروف  سے غیر رسمی ملاقاتیں کیں۔ فورم کے دوران وزیر اعظم محمد  شہباز شریف  عالمی رہنمائوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی روسی صدر کے ساتھ غیرمعمولی ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا۔ عالمی اور علاقائی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے عالمی امن فورم سے خطاب میں کہا کہ افغانستان سے دہشتگردی سر اٹھا رہی ہے۔ دنیا طالبان رجیم پر دبائو ڈالے۔ دہشتگردوں کو قابو  کرنے کا کہا جائے۔ پاکستان عالمی امن کیلئے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ تنازعات کا پرامن حل ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ ہماری حمایت سے غزہ امن منصوبہ منظور ہوا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ غزہ میں امداد کی فراہمی ناگزیر ہے۔ سیز فائر پر برادر ملکوں کے شکرگزار ہیں۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف ترکمانستان کا دورہ مکمل کر کے وطن روانہ ہو گئے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ حالیہ تجارتی تنازع کو صرف بارڈر یا تجارت کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اور سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ طالبان حکومت کا ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی سے انکار ہے۔

پاکستان کی جانب سے واضح مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارتی کشیدگی کی اصل وجہ سرحدی امور نہیں بلکہ وہ سیکیورٹی خدشات ہیں جو طالبان حکومت کے غیر تعمیری رویّے کی وجہ سے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟

پاکستان، جو طویل عرصے تک افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، اب اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ کابل کی پالیسیوں اور ڈھانچہ جاتی فیصلوں نے باہمی تجارت کے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق تعلقات اس وقت بگڑنے شروع ہوئے جب سرحد پار دہشتگردی میں اضافہ ہوا اور طالبان نے ٹی ٹی پی سمیت پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا۔

ثبوت کے طور پر ٹی ٹی پی کی ازسرِنو منظم ہونے کی کوششیں اور افغان سرزمین سے حملوں میں اضافہ سامنے لایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حالیہ سرحدی پابندیوں کا مقصد تجارتی دباؤ نہیں بلکہ دہشتگردوں کے داخلے کے راستے بند کرنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کے معاملے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4 دہائیوں تک 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کے باوجود سیکیورٹی خطرات، معاشی دباؤ اور کابل کی عدم تعاون پر مجبور ہو کر اقدامات کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟

اس کے باوجود پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغان عوام کی انسانی بہبود اور تجارت کی بحالی کے لیے تعاون پر تیار ہے۔ حکام نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہائیوں تک افغانستان کو انسانی، معاشی اور تجارتی سہولتیں فراہم کیں، جن میں بندرگاہ تک رسائی، ٹرانزٹ ٹریڈ اور مہاجرین کی میزبانی شامل ہے۔

دوسری جانب طالبان حکام نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار کیا بلکہ الٹا پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کیے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایسے فیصلوں نے افغانستان میں انسانی امداد تک رسائی مزید مشکل بنادی ہے، جب کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پہلے ہی انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔

پاکستان نے زور دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو حل کیا جائے۔ بارڈر یا تجارت پر بات چیت پاکستان کے لیے ممکن ہے، لیکن افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف عسکری گروہوں کا خاتمہ ایک غیر متنازع اور لازمی شرط ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان تجارت پاکستان طالبان

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دوٹوک انتباہ
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سےسر اٹھا رہا ہے، شہباز شریف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے: وزیراعظم شہباز شریف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا ترکمانستان میں عالمی فورم سے خطاب
  • عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے، وزیراعظم شہباز شریف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سےسر اٹھا رہا ہے:وزیراعظم شہباز شریف  
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سے اٹھ رہا ہے، عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے