WE News:
2025-12-11@12:00:51 GMT

پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ حالیہ تجارتی تنازع کو صرف بارڈر یا تجارت کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اور سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ طالبان حکومت کا ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی سے انکار ہے۔

پاکستان کی جانب سے واضح مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارتی کشیدگی کی اصل وجہ سرحدی امور نہیں بلکہ وہ سیکیورٹی خدشات ہیں جو طالبان حکومت کے غیر تعمیری رویّے کی وجہ سے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟

پاکستان، جو طویل عرصے تک افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، اب اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ کابل کی پالیسیوں اور ڈھانچہ جاتی فیصلوں نے باہمی تجارت کے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق تعلقات اس وقت بگڑنے شروع ہوئے جب سرحد پار دہشتگردی میں اضافہ ہوا اور طالبان نے ٹی ٹی پی سمیت پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا۔

ثبوت کے طور پر ٹی ٹی پی کی ازسرِنو منظم ہونے کی کوششیں اور افغان سرزمین سے حملوں میں اضافہ سامنے لایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حالیہ سرحدی پابندیوں کا مقصد تجارتی دباؤ نہیں بلکہ دہشتگردوں کے داخلے کے راستے بند کرنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کے معاملے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4 دہائیوں تک 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کے باوجود سیکیورٹی خطرات، معاشی دباؤ اور کابل کی عدم تعاون پر مجبور ہو کر اقدامات کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟

اس کے باوجود پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغان عوام کی انسانی بہبود اور تجارت کی بحالی کے لیے تعاون پر تیار ہے۔ حکام نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہائیوں تک افغانستان کو انسانی، معاشی اور تجارتی سہولتیں فراہم کیں، جن میں بندرگاہ تک رسائی، ٹرانزٹ ٹریڈ اور مہاجرین کی میزبانی شامل ہے۔

دوسری جانب طالبان حکام نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار کیا بلکہ الٹا پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کیے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایسے فیصلوں نے افغانستان میں انسانی امداد تک رسائی مزید مشکل بنادی ہے، جب کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پہلے ہی انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔

پاکستان نے زور دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو حل کیا جائے۔ بارڈر یا تجارت پر بات چیت پاکستان کے لیے ممکن ہے، لیکن افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف عسکری گروہوں کا خاتمہ ایک غیر متنازع اور لازمی شرط ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان تجارت پاکستان طالبان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاک افغان تجارت پاکستان طالبان پاکستان نے پاک افغان ٹی ٹی پی

پڑھیں:

افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار

کابل:

افغانستان کی کابل یونیورسٹی میں علما، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ایک ہزار سے زائد علما نے شرکت کی۔

اس اجلاس کے دوران ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بیرون ملک جا کر عسکری سرگرمیوں کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔

علماء نے کہا کہ کسی بھی شخص کو افغانستان سے باہر عسکری کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو بھی ایسا کرے گا، وہ باغی تصور ہوگا۔

اعلامیہ میں افغان حکومت کو واضح پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

افغان علما نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے اور کسی بھی بیرونی عسکری سرگرمی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔

افغان علماء اور عمائدین کا یہ اعلامیہ پاکستان کے دیرینہ مطالبے کی توثیق سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی بار افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔

تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی واضح اقدام نہیں اٹھایا گیا، اور وہ سرحد پار سے پاکستان میں دراندازی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کے تین ادوار ہوئے تھے، لیکن افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی کی وجہ سے یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔

ان مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی تحریری ضمانت مانگی تھی، جو افغان طالبان دینے میں ناکام رہے۔

افغان علماء کا یہ اعلامیہ پاکستان کی تشویش کو مزید تقویت دیتا ہے، کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان سے اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی درخواست کی ہے۔

اس اعلامیے کے ذریعے افغان علماء نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کا امن اور خودمختاری غیر متنازعہ ہے، اور اسے کسی بیرونی مداخلت سے بچانے کے لیے افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

افغان علماء کا مشترکہ اعلامیہ نہ صرف افغانستان کے داخلی حالات بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اہم پیشرفت ہے۔

یہ اقدام افغان طالبان کے رویے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود سکیورٹی اور سیاسی تناؤ کی شدت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔

افغان میڈیا نے اس اجلاس اور اعلامیے کو اہمیت دیتے ہوئے اس کا بھرپور احاطہ کیا ہے اور اسے افغانستان کی سیاسی و سکیورٹی حکمت عملی میں ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے،پاکستان
  • افغان سرزمین سے دہشتگردی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ، عاصم افتخار
  • افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار
  • پاک افغان کشیدگی کا واحد حل اور چینل
  • پاک افغان کشیدگی: چین کی خطے میں امن اور عالمی برادری سے تعلقات میں تعاون کی پیشکش
  • پاک افغان کشیدگی؛ چین کی خطے میں امن کیلیے بڑی پیشکش
  • طالبان حکام: صحافیوں پر وحشیانہ تشدد اور گرفتاریاں، عالمی اداروں کا سخت ردعمل
  • پاکستان کے ذریعے تجارت معطل ہونے سے افغان تاجروں کو سخت مشکلات