پاک افغان کشیدگی کا واحد حل اور چینل
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
اس خطے میں موسم سرما حالت جنگ میں امن کی علامت بن کر نمودار ہوا کرتا تھا لیکن بدقسمتی سے اس بار یخ بستہ موسم امن کی علامت بن کر نہیں آیا بلکہ دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا مژدہ لے کر آیا ہے۔
اس دوستی، محبت، یگانگت، بھائی چارے اور ایثار کو دشمنوں کی نظر لگ گئی، جو ایثار و قربانی اور خون کے سمندر پار کرکے حاصل ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر براہ راست حملوں کے بعد دوستی کے دروازوں کو دشمنی کے دروازے قرار دے کر بند کر دیے ہیں۔
میں ذاتی طور پر مکمل یکسو مگر خوش گمانی میں مبتلا تھا کہ یہ چائے کی پیالی میں مشرک بنیئے کا پیدا کردہ طوفان ہے جو ایک گھونٹ میں ختم ہوجائے گا مگر برادر ملا محمد امیر خان متقی صاحب اور برادر ذبیح اللہ مجاہد صاحب کے بیانات سن کر میں پریشان ہوا کہ بات خطرناک حد تک بگڑ اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوچکی ہیں۔
دونوں طرف کی بعض حکمت و مصلحت سے عاری شخصیات کے نفرت انگیز بیانات دراڑوں کو مزید گہرا اور دوستی کے قلعے کو منہدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ آرزو بھارت اور اسرائیل کی تو ہو سکتی ہے کسی محب وطن پاکستانی یا افغانی کی بالکل نہیں۔
پوری امت مسلمہ اس کشیدگی پر شدید مضطرب ہے۔ قطر، ترکیہ اور سعودی عرب نے اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے عملی طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کی، کئی بار مذاکرات کی میز سجائی گئی لیکن کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے۔
کشیدگی، بگاڑ اور مذاکراتی عمل میں بار بار ڈیڈ لاک اور ایک دوسرے پر بداعتمادی کی واحد وجہ "را" اور "موساد" ہیں جو پاک افغان دوستی کے خلاف گھات لگائے بیٹھے ہیں اور دونوں ملکوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور غلط فہمیوں کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان کا مشترکہ دشمن ہندوستان اس کشیدگی سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے پہلے اور موجودہ دور میں آتے ہی دو بار بھاگنے کے بعد ایک بار پھر را کے ایجنٹ افعانستان میں اپنے پیر جمانے کی تگ و دو میں ہیں۔
بحیثیت پاکستانی گزشتہ کالم میں پاکستان کے ارباب اختیار کو مشورہ دیا تھا کہ ہمیں ہر صورت افغانستان اور ہندوستان کے درمیان کھڑا ہونا ہے ورنہ ہندوستان جیسی مکار اور عیار ریاست افغانستان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔
اب بحیثیت مسلمان اور افغانستان کے ایک خیرخواہ افغانستان کے ذمے داران کو مشورے سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ چند ماہ سے دونوں ملکوں کی حکومتوں نے جو فیصلے کیے اس سے براہ راست دونوں ملکوں کے عوام بری طرح متاثر ہوئے۔
عام لوگوں کی زندگیاں ان فیصلوں کی چوٹ اور وزن کو برداشت نہیں کر پا رہیں۔ تجارت سے لے کر نقل و حرکت تک، ہر دروازہ بند ہونے کی قیمت دونوں ملکوں کے عوام چکا رہے ہیں، سرحد کے دونوں پار منقسم خاندان عذاب میں مبتلا ہیں۔
بارڈر بند ہونے کی وجہ سے تکلیف سب کو ہے مگر افغان عوام کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ علاج معالجہ کے لیے ان کا مکمل انحصار و دارومدار پاکستان خصوصاً پشاور اور کوئٹہ پر ہے۔ موسم سرما کی شدت سے مشکلات اور بحران میں اضافہ ہو گیا ہے۔
غربت، بھوک اور بنیادی سہولیات کی کمی نے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔ بچوں کے لیے خوراک، ادویات، جوتے، گرم لباس اور ضروری اشیائے خورونوش تک کا انتظام نا کافی ہے۔ اقوام متحدہ کی درخواست پر پاکستان نے انسانی بنیاد پر امدادی سامان کے لیے بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سامان میں خوراک، ادویات، طبی آلات اور صحت و تعلیم سے متعلق ضروری اشیا شامل ہیں مگر حیرت ہے افغانستان نے کہا کہ اب تک پاکستان نے بارڈر بند کیا تھا اب ہم کھولنے پر راضی نہیں! یہ ضد اور انا کسی بڑے حادثے کو جنم دے سکتا ہے سب کو ہوش کے ناخن لے کر چلنا چاہیے۔
اس خطے کی تاریخ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ سختی اور جنگ نے کبھی دیرپا حل نہیں دیا۔ اس لیے طرفین اپنے اپنے عوام کے مفادات کی خاطر جنگ کا صفحہ صدق دل سے پھاڑ کر امن کی طرف قدم بڑھائیں۔
اشتعال، الزام تراشی اور جذباتی فیصلوں سے بچتے ہوئے بات چیت کے راستے کھلے رکھیں حالات جیسے بھی ہوں امن ہی وہ واحد راستہ ہے جو خطے کے معاشی استحکام اور بقا کا ضامن بن سکتا ہے، اگر نیت صاف اور مقصد امن ہے تو یہ چند دنوں کی بات ہے۔
لفظی گولاباری سے اجتناب کرتے ہوئے خود آگے بڑھیں بغیر کسی تیسرے ملک کے بات چیت کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ذمے داران کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستحکم پاکستان اور مستحکم افغانستان ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور دونوں طرف خصوصاً افغانستان کے سیکولرز جلتی پر تیل ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے وہ اس کشیدگی کی آڑ میں ایک بار پھر افغانستان کو کسی المیے سے دوچار کر دینگے۔
سوشل میڈیا پر جارحیت، نفرت اور تعصب پھیلا کر مصنوعی ذہانت سے بنائے جانے والے کلپس، تصویریں، افواہیں اور سرحد کے دونوں پار جانی نقصانات کے دعوے عام آدمی کے سیاسی شعور کو مبہم اور ذہنوں کو مفلوج کرنے کے لیے کافی ہیں۔
طرفین کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ بھائیوں کے درمیان گلے شکوے معمول کی بات ہے بشرطیکہ کہ کوئی شر پسند درمیان میں حائل نہ ہو۔
افغانستان کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان ہی نہیں تاجکستان، چین اور ایران کو بھی افغانستان سے شدید شکایات ہیں۔ ایسی صورتحال میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے پاک افغان دوستی اس وقت اپنی مثال آپ ہوگی تو بچت ہوگی۔
پاکستان کو بڑے بھائی کی طرح افغانستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر افغانستان کی طالبان حکومت حالات کو معمول پر لانا چاہتی ہے تو بہترین اور آسان حل علماء ڈپلومیسی ہے۔
افغانستان کی حکومت کے کم و بیش تمام ذمے داران کا پاکستانی علماء کرام و شیوخ کے ساتھ عقیدت و احترام سے معمور تعلق قائم ہے، وہ یہاں پلے بڑھے اور پڑھے ہیں، پاکستانی مدارس اور تعلیمی اداروں سے انھوں نے تعلیم حاصل کی ہے، یہاں ان کے شیوخ اور اساتذہ موجود ہیں۔
صرف افغانستان کے ذمے داران ہی نہیں، ہر افغان مہاجر کا یہی حال و معاملہ ہے۔ افغانستان کے ذمے داران کو چاہیے کہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان میں اپنے شیوخ، اساتذہ اور علماء کرام سے ملنے کے لیے بھیج دیں، ان کے سامنے دل کھول کر اپنا مدعا، مسائل اور مجبوریاں رکھ دیں۔
یہی شیوخ، اساتذہ اور علماء کرام ہی ہیں جن پر افغانستان کی طالبان حکومت کو اعتماد ہوگا، وہ ان کی بات سن کر درد دل کے ساتھ اپنے ارباب اختیار کے سامنے رکھ کر اس مشکل کا حل نکال لیں گے۔
جب پاکستانی علماء کرام معاملات کو سمجھ کر ارباب اختیار کے سامنے رکھیں گے تو اللہ کریم بہتری کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ افغانستان کی حکومت کے ذمے داران، پاکستانی شیوخ کی روحانی اولاد ہیں وہ ان کا مسئلہ پدری درد کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اگر علماء ڈپلومیسی کے ذریعے پاک افغان معاملات کو آگے بڑھایا جائے تو اللہ کریم خیر کے دروازے کھول دے گا، شر کے راستے مسدود کردے گا۔ علماء کرام اپنی بصیرت سے کلمہ طیبہ کے لڑی میں پروئے ہوئے پاک افغان عوام کو شیر و شکر بنا سکتے ہیں کیونکہ لا الہ الا اللہ کا یہ رشتہ خونی رشتوں سے بھی اعلیٰ و ارفع ہے۔ لہٰذا قدم بڑھائیں یہی پاک افغان کشیدگی کا واحد حل اور چینل ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان کے ذمے داران افغانستان کی دونوں ملکوں علماء کرام پاک افغان اس کشیدگی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
دہشتگردوں کی آماجگاہ افغانستان سنگین خطرہ، پاکستان کے موقف کی عالمی سطح پر حمایت
افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کی بڑھتی سرگرمیاں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطہ کیلئے سنگین خطرہ بن گئیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان افغان سرزمین میں محفوظ دہشت گرد پناہ گاہوں کے ناقابل تردید شواہد پیش کر چکا ہے۔
عالمی جریدہ یوریشیا ریویو کے مطابق روس کو افغانستان میں سرگرم مختلف عسکریت پسند گروہوں سے سنگین سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے۔ مختلف انتہا پسند گروہ افغانستان کی سرحد سے منسلک وسطی ایشیائی ممالک کے راستے اپنی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں۔
روس کے مطابق افغانستان میں دہشتگرد گروہ، خاص طور پر داعش، مسلسل مضبوط ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبینزیا کے مطابق افغانستان میں داعش خراسان کی دہشتگرد سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی خطرات پر گہری تشویش ہے۔
روسی سفیر نے کہا کہ انسداد دہشتگردی کیلئے افغان طالبان کے اقدامات ناکافی ہیں۔ عسکریت پسند افغانستان میں تناؤ بڑھا رہے ہیں اور خود کو متبادل قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
روس کی سلامتی کونسل کے سیکرٹری سرگئی شائیگو کا کہنا تھا کہ افغانستان سے دہشت گرد عناصر کے ہمسایہ ممالک میں داخلے کا خطرہ موجود ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو بیرونی فنڈنگ مل رہی ہے جس سے علاقائی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کیلئے انتہا پسند افغان طالبان پر سفارتی دباؤ، انٹیلی جنس اور سخت سرحدی نگرانی ناگزیر ہے۔ اگر واضح حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو پورا خطہ افغان طالبان رجیم کی سرپرستی میں پنپتی خونریز دہشتگردی کی لپیٹ میں آ جائیگا۔