چین کی پاکستان اور افغانستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
چین نے پاکستان اور افغانستان پر زور دیا ہے کہ وہ بات چیت اور مشاورت کے ذریعے اختلافات کو حل کریں اور صورتحال کو کشیدہ ہونے سے بچائیں۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاؤکن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، چین، افغان وزرائے خارجہ کا اجلاس، سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق
ان کا بیان 5 دسمبر کی رات پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد سامنے آیا، جو اکتوبر کے وسط میں طے پانے والی فائر بندی کے بعد پہلا بڑا تصادم تھا۔
ان جھڑپوں میں متعدد شہری ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
منگل کے روز اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں گو جیاؤکن نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان روایتی طور پر چین کے دوست پڑوسی ہیں اور یہ دونوں ایسے پڑوسی ہیں جنہیں ’کہیں ہلایا نہیں جا سکتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ چین بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری اور ترقی کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امن و استحکام پاکستان چین گو جیاؤکن وزارت خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان امن و استحکام پاکستان چین گو جیاؤکن پاکستان اور افغانستان کے لیے
پڑھیں:
افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، آسٹریلیا کا طالبان حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان
آسٹریلیا نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً خواتین اور بچیوں کے خلاف عائد شدید پابندیوں کے پیشِ نظر، طالبان حکومت کے 4 اعلیٰ حکام پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ یہ حکام خواتین اور بچیوں کے حقوق سلب کرنے اور افغانستان میں اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو کمزور کرنے میں ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان سے بڑھتی دہشت گردی، عالمی رد عمل کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟
واضح رہے کہ آسٹریلیا ان ممالک میں شامل تھا جس نے اگست 2021 میں افغانستان سے اپنے فوجی نکال لیے تھے۔ آسٹریلیا 2 دہائیوں تک نیٹو کی زیرِ قیادت بین الاقوامی فورس کا حصہ رہا، جس نے افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دی اور طالبان کے خلاف کارروائیاں انجام دیں۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے عالمی سطح پر انہیں خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے، جن میں تعلیم، ملازمت، سفر اور عوامی زندگی میں حصہ لینے پر قدغن شامل ہیں۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون اور مقامی روایات کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
پینی وونگ کے مطابق پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں 3 طالبان وزرا اور چیف جسٹس شامل ہیں، جن پر خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق محدود کرنے کا الزام ہے۔
وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ یہ اقدامات آسٹریلوی حکومت کے نئے فریم ورک کے تحت کیے گئے ہیں، جس کے ذریعے وہ براہِ راست ایسی پابندیاں لگا سکتی ہے جن کا مقصد طالبان پر دباؤ بڑھانا اور افغان عوام کے استحصال کو روکنا ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد آسٹریلیا نے ہزاروں افغان شہریوں خصوصاً خواتین اور بچوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلیا افغان طالبان پابندی