وزارتِ خزانہ نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ معاشی اشاریے پاکستانی معیشت میں بتدریج بحالی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب کہ مالیاتی نظم و ضبط، برآمدات میں بہتری اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کے باعث مجموعی استحکام پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی تین ماہ میں عام طور پر ہونے والے خسارے کے بجائے 15 کھرب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، تاہم اس نے تسلیم کیا کہ سیلاب اور پاک-افغان سرحد کی بندش کے باعث اشیائے ضروریہ کی سپلائی متاثر ہوئی، جس سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

وزارتِ خزانہ نے اپنی رپورٹ ’ماہانہ اقتصادی جائزہ و تجزیہ اکتوبر 2025‘ میں کہا کہ سیلاب اور سرحد کی عارضی بندش کے باعث سپلائی متاثر ہوئی، جس سے کچھ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔

تاہم وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں ماہ مہنگائی کی شرح 5 سے 6 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے، ستمبر میں مہنگائی 5.

6 فیصد رہی، جو کہ وزارت کے 30 ستمبر کو کیے گئے اندازے (3.5 سے 4.5 فیصد) سے زیادہ ہے۔

وزارتِ خزانہ کے مطابق جولائی اور اگست 2026 کے دوران وفاقی آمدن میں 231.4 فیصد اضافہ ہوا، جو بڑھ کر 3 کھرب 27 ارب روپے تک پہنچ گئی، جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں یہ 986 ارب 70 کروڑ روپے تھی، یہ اضافہ زیادہ تر غیر ٹیکس آمدن میں 721.1 فیصد اور ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 14.1 فیصد اضافے کی وجہ سے ہوا۔

رپورٹ کے مطابق غیر ٹیکس محصولات میں اضافہ زیادہ تر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے منافع میں اضافے کی وجہ سے ہوا، جس میں ڈیویڈنڈز، دفاعی وصولیاں، خام تیل پر ونڈ فال لیوی، گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس اور پیٹرولیم لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی نے بھی مدد کی۔

مالی سال 2026 کی پہلی سہ ماہی (جولائی سے ستمبر) کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں 12.5 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد کل وصولی 2 کھرب 88 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔

رپورٹ کے مطابق اخراجات میں 7.6 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد مجموعی اخراجات 1 کھرب 76 ارب روپے تک پہنچ گئے، نتیجے میں وفاقی مالی توازن 1 کھرب 50 ارب 90 کروڑ روپے کے سرپلس میں رہا، جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 648 ارب 80 کروڑ روپے کا خسارہ تھا، اسی طرح بنیادی توازن میں بھی نمایاں بہتری آئی، جو بڑھ کر 2 کھرب 93 ارب 90 کروڑ روپے سرپلس میں آگیا، جب کہ گزشتہ سال یہ صرف 49 ارب 40 کروڑ روپے تھا۔

وزارتِ خزانہ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب نے زرعی شعبے کو متاثر کیا، لیکن اس کے باوجود بحالی کے ابتدائی آثار نظر آ رہے ہیں، ابتدائی اندازوں کے مطابق حالیہ سیلاب سے زراعت کو تقریباً 430 ارب روپے کا نقصان ہوا، جس سے چاول، کپاس، گنا، مکئی، چارہ اور سبزیوں کی فصلیں متاثر ہوئیں۔

اس کے باوجود حالیہ اشارے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بحالی کے اقدامات جاری ہیں، جنہیں زرعی قرضوں میں اضافے، مشینری کی زیادہ درآمدات اور کھاد کی بہتر فراہمی سے تقویت مل رہی ہے۔

وزارتِ خزانہ نے مزید کہا کہ پاکستان کی برآمدی منڈیوں میں معاشی سرگرمیوں میں بہتری آنے کے باعث برآمدات میں اضافے کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔

امریکا، برطانیہ، چین اور یورو زون کے کمپوزٹ لیڈنگ انڈیکیٹرز گزشتہ ماہ کے مقابلے میں بہتر ہوئے ہیں اور اب اپنی طویل مدتی صلاحیت کی سطح سے اوپر یا قریب ہیں، جو پاکستان کے لیے برآمدات کے بہتر امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ماہانہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سیلاب سے متعلق مشکلات کے باوجود پاکستان کی معیشت بحالی کے راستے پر گامزن رہی۔

صنعتی سرگرمیاں مضبوط رہیں، بالخصوص بڑی صنعتوں میں بہتری دیکھی گئی، جن میں سیمنٹ، آٹوموبائل اور متعلقہ شعبے شامل ہیں، جب کہ برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں بھی مسلسل بہتری آ رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بیرونی مالی صورتحال بھی مستحکم رہی اور ستمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جو مضبوط ترسیلاتِ زر کا نتیجہ ہے۔

وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) اور ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی (آر ایس ایف) کے تحت کامیاب جائزے کو پاکستان کی اصلاحاتی سمت اور محتاط معاشی نظم و نسق پر اعتماد کا اظہار قرار دیا۔

نجکاری، ڈیجیٹل گورننس اور سی پیک فیز 2.0 کے مشترکہ منصوبوں میں جاری پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مالیاتی استحکام، ساختی اصلاحات اور پائیدار و جامع ترقی کے لیے پرعزم ہے۔

وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ حکومت مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور ایک مضبوط و مستقبل بین معاشی پالیسی فریم ورک کے اندر سماجی تحفظ کے ہدفی اقدامات جاری رکھنے کے لیے پُرعزم رہے گی۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: رپورٹ کے مطابق میں اضافے اضافہ ہوا کروڑ روپے بحالی کے کے باعث

پڑھیں:

ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کرے گا، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر کام کیا اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت دوبارہ پٹری پر آئی، افواج کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے تو کون پاکستان کی عزت کرے گا؟ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے، علمائے کرام کو تفرقہ بازی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

 اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں، بھارت کا وتیرا ہے، ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، انھوں نے ان خیالات کا اظہار قومی علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب امریکا کے ایگزم بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے‘ یہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں اہم معدنیات کی کانکنی میں مزید پیشرفت کے لیے ہے۔

 وزیراعظم محمد شہباز شریف کی گفتگو نے ایک ایسے وقت میں قومی بیانیے کو مہمیز دی ہے جب ملک ایک جانب معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی مسلسل لہر سیاسی و معاشرتی استحکام کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ملک جادو ٹونے سے نہیں بلکہ محنت سے ترقی کرے گا، محض ایک جملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج اس سوچ کی نفی ہے جو مسائل کے حقیقی اسباب کو سمجھنے کے بجائے غیر حقیقی سہولت پسندی اور ماورائی حل تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی قوم جب تک اجتماعی کوشش، منظم پالیسی، مربوط حکمت عملی اور طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کو اپنا شعار نہیں بناتی وہ ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیراعظم کی اس بات کا اصل تناظر بھی یہی ہے کہ ملک کی معیشت، سیاست، اداروں اور سماجی ڈھانچے کو کسی شارٹ کٹ، کسی کرشمے یا کسی چھپے ہاتھ سے نہیں بلکہ انتھک کام اور اصولوں کے ساتھ جمایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے عسکری و سیاسی قیادت کی مشترکہ کوششوں کا ذکر بھی کیا جن کے نتیجے میں ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا گیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہو چکی تھی جس سے نکلنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری تھے۔

چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل مذاکرات ہوں، دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنا ہو، محصولات میں اضافہ ہو، کفایت شعاری کے اقدامات ہوں یا پھر برآمدات و مقامی صنعت کو سہارا دینے کی مساعی۔ یہ تمام اقدامات اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب سیاسی اور عسکری سطح پر ہم آہنگی موجود ہو۔ ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ داخلی خلفشار، بے یقینی اور ادارہ جاتی کشمکش معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی بات ایک مثبت پیغام بھی رکھتی ہے کہ قیادت نے مل کر ملک کو بحران سے نکالا، تاہم یہ شروعات ہیں، منزل ابھی بہت دور ہے۔

 وزیراعظم نے افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اگر ہم اپنی فوج کی عزت نہیں کریں گے تو دنیا پاکستان کا احترام کیسے کرے گی؟ یہ سوال بنیادی نوعیت رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں متاثرین اور ہزاروں شہداء دے چکا ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جو پاکستان نے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے لڑی۔ دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ فوج ہو یا پولیس، شہری آبادی ہو یا کمزور اضلاع، کسی میں تمیز نہیں کی گئی۔

ایسے میں ان قربانیوں کو متنازع بنانے یا ان کا مذاق اڑانے کا طرزِ عمل نہ صرف قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دشمن کو تقویت بھی دیتا ہے۔ حساس قومی اداروں اور ان کی قربانیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتا۔

دہشت گردی اور معاشی ترقی کے باہمی تعلق پر وزیراعظم کی گفتگو بالکل درست سمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک جس میں روزانہ دھماکے ہوں، شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانہ بن رہی ہوں، صوبے عدم استحکام سے دوچار ہوں اور وہاں سرمایہ کار تحفظ محسوس کریں، صنعتکار اعتماد کے ساتھ سرمایہ لگائیں یا عالمی کمپنیوں کے وفود وہاں آکر بیٹھنے میں آسودگی پائیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات اس حقیقت کا دردناک چہرہ ہیں کہ دہشت گردی صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتی بلکہ پورے ترقیاتی عمل کو یرغمال بنا دیتی ہے۔

ایک طرف عوام کی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت پر سیکیورٹی اخراجات بڑھ جاتے ہیں، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونے والا پیسہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔

علمائے کرام کو فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر قائم تفریق نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو توڑتی ہیں بلکہ دہشت گرد عناصر کے لیے غذا بھی فراہم کرتی ہیں۔ اگر علماء کرام منبر و محراب کے ذریعے امن، وحدت، باہمی احترام اور رواداری کا درس دیں، فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنائیں اور مذہبی جھگڑوں کا دروازہ بند کریں تو ملک کی داخلی استحکام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو سکتی ہے۔

اسی منظر نامے میں آرمی چیف سید عاصم منیر کے خطاب نے قومی بیانیے کو ایک اور زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا وطیرہ ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں دشمن قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بارہا اس بات کے ثبوت پیش کیے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کو بیرونی معاونت فراہم کی جاتی ہے، انھیں عسکری، مالی اور تکنیکی مدد دی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے اندر افراتفری اور خوف کی فضا قائم رکھ سکیں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم دشمن کو للکار کر مارتے ہیں، پاکستان کی عسکری قوت کے اس اعتماد اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو طویل جنگی تجربے اور مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں پروان چڑھی ہے۔

پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ اپنے علاقوں کو کلیئر کیا، لاکھوں شہریوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا اور دنیا کو دکھایا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو دہشت گردی ناقابل شکست نہیں رہتی۔دوسری جانب امریکی ایگزم بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری ملک میں معدنیات کے شعبے کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے معاشی امکانات کا دروازہ ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکا میں چھ ہزار اور بلوچستان میں تقریباً ساڑھے سات ہزار روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ خوشحالی اور معاشی سرگرمی کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔

امریکی سرمایہ کاری کا پاکستان کے لیے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت دنیا خصوصی طور پر معدنیات، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اگر پاکستان شفاف سیاسی ماحول، مضبوط اداروں، مستحکم سیکیورٹی صورتحال اور معیاری قانونی فریم ورک فراہم کرے تو بیرونی سرمایہ کار یقیناً ملک کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ریکوڈک کا منصوبہ ایک ایسی کامیاب مثال بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیرونی سرمایہ کاری اپنی نئی راہوں پر چل نکلے گی۔

 اگر ہم نے محنت کو اپنا شعار نہ بنایا، اگر ہم نے سیکیورٹی کو مضبوط نہ کیا، اگر ہم نے فرقہ واریت کو جڑ سے نہ اکھاڑا ، اگر ہم نے قومی اداروں کی عزت نہ کی، اگر ہم نے بیرونی سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے مربوط پالیسی نہ بنائی تو پھر کوئی جادو، کوئی دعا، کوئی شارٹ کٹ اور کوئی خفیہ طاقت ہمیں ترقی نہیں دلا سکتی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام، آرمی چیف کا عزم، امریکی سرمایہ کاری کی نوید، یہ سب پاکستان کے لیے ایک نئی امید کی علامت بن سکتے ہیں۔ لیکن اس امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اجتماعی طور پر بطور قوم اپنی ذمے داریوں کا احساس۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کی ترقی ہم سب کی ترقی ہے، اس کا استحکام ہم سب کا استحکام ہے۔ آج وقت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں، ملک میں امن و اتحاد کو فروغ دیں اور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں دوسرے ہفتے بھی ہفتہ وار مہنگائی میں کمی
  • ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام
  • لاہور میں رواں سال جرائم میں کمی آئی: رپورٹ
  • اے ڈی بی، پاکستانی معیشت کی شرح نمو میں اضافے کی پیشگوئی
  • ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستانی معیشت سے متعلق رپورٹ جاری، شرح نمو میں اضافے کی پیشگوئی
  • مسلم لیگ ن کی غلط پالیسیوں نے ملک کو معاشی عدم استحکام سے دوچار کیا، شفیع جان
  • پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ، آئی ایم ایف کی رپورٹ جاری
  • آئی ایم ایف نے خبردار کردیا ،پاکستان میں مہنگائی دوبارہ بڑھنے کا خدشہ
  • پاکستان میں کاروباری اعتماد 7 سال کی بلند ترین سطح پر آگیا
  • بھارتی معیشت کا جھوٹ؟ آئی ایم ایف رپورٹ کی روشنی میں