Islam Times:
2025-11-05@14:11:17 GMT

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

اسلام ٹائمز: طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تحریک شروع کرنے سے پہلے دارالعلوم حقانیہ سے گریجویشن کیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کی صفوں میں اضافہ کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بھرتی کیے گئے۔ طالبان کی تشکیل سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی حمایت کی جو پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کی حریف اسلامی سیاسی جماعت ”جماعت اسلامی“ کے ساتھ منسلک تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر دونوں ہی جماعت اسلامی کی قیادت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جماعت اسلامی نے مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی تھی جنہوں نے 1979ء میں بے نظیر کے والد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہءدار پر لٹکایا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس موقع پر بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر طالبان بنانے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جنہیں 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے قتل کا حکم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہلانے والے طالبان کے پاکستانی ونگ کے سربراہ بیت اللہ محسود نے دیا تھا۔محسود بعد میں 2009ء میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ تحریک طالبان کی داغ بیل ڈالنے میں بینظیر بھٹو اور ان کے دست راس، اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کا اہم کردار ہے۔ 1993-1996ء میں بینظیر کے دور اقتدار میں طالبان منصہء شہود پر آئے۔ طالبان تحریک کی تخلیق میں بینظیر بھٹو کے اسی کردار کی وجہ سے انہیں طالبان کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ بے نظیر اور جنرل بابر کی محنت سے طالبان جلد ہی ایک قوت بن گئے۔ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والی افغان جماعتوں کو شکست دی اور صرف چند سالوں میں ہی افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان کی حمایت سے کابل پر برسراقتدار آنے والے طالبان اس قدر پُراعتماد ہوگئے کہ انہوں نے پاکستان کے دباؤ کے باوجود ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی پاک افغان سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ طالبان تحریک کی پیدائش اور اس کی نشوونما میں بینظیر بھٹو کے کردار کو احمد رشید نے اپنی انتہائی قابل اعتماد اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب "دی طالبان: اسلام، آئل اینڈ دی نیو گریٹ گیم ان سنٹرل ایشیا" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ 90 پر مصنف کچھ طوالت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ کس طرح جمعیت علمائے اسلام (JUI-F) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بے نظیر کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے افغان-پاکستان سرحد کے ساتھ سیکڑوں مدارس قائم کیے، جن میں دارالعلوم حقانیہ بھی شامل تھا۔

طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تحریک شروع کرنے سے پہلے دارالعلوم حقانیہ سے گریجویشن کیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کی صفوں میں اضافہ کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بھرتی کیے گئے۔ طالبان کی تشکیل سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی حمایت کی جو پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کی حریف اسلامی سیاسی جماعت ”جماعت اسلامی“ کے ساتھ منسلک تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر دونوں ہی جماعت اسلامی کی قیادت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جماعت اسلامی نے مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی تھی جنہوں نے 1979ء میں بے نظیر کے والد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو  تختہءدار پر لٹکایا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس موقع پر  بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر  طالبان بنانے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔

رشید اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1992ء میں مجاہدین کے کابل پر قبضے کے بعد  مولانا فضل الرحمن کی JUI کے جنوبی پشتونوں پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نظر انداز کیا گیا۔ جے یو آئی اس وقت تک پاکستان میں سیاسی طور پر الگ تھلگ تھی اور بھٹو کی حکومت میں اپوزیشن میں رہی۔ تاہم جے یو آئی نے  بینظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ اتحاد کیا۔ یوں پہلی بار جے یو آئی کو اقتدار کی راہداریوں تک اجازت دی گئی اور اسے موقع دیا گیا کہ وہ فوج اور وزارت داخلہ کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب پاکستان کے حکام نے ایک ایسے نئے پشتون گروپ کی تلاش شروع کی جو افغانستان میں پشتونوں کو برسر اقتدار لا کر ان کے ذریعے افغانستان میں پاکستان کے لیے ایک ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ “ قائم کرے نیز جنوبی افغانستان کے راستے پاکستانی تجارت کو افغانستان تک رسائی فراہم کر سکے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین بنا دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ پہلی بار یورپی ممالک کے دورے کے لیے پاکستانی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوگئے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو طالبان کی مالی معاونت کے لیے تیار کیا گیا۔

11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہ دیکھنا آسان ہے کہ بے نظیر بھٹو کا مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کے ساتھ اتحاد اور طالبان کی تشکیل اور پرورش کی ان کی مشترکہ پالیسی نہ صرف بینظیر کے لیے بلکہ لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں کے لیے بھی مہلک تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا تھا جو اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے شروع میں ان لوگوں کے دام میں آ گئے جنہوں نے بعد میں ان کو تختہء دار تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج طالبان ایک بار پھر اپنے ان محسنوں کے خلاف نبرد آزما ہیں جنہوں نے کبھی اس پودے کی تخم ریزی کی تھی اور پھر اس کی آبیاری کر کے اسے تن آور درخت کی صورت دی تھی۔ آج وہ درخت اپنے باغبانوں کو سایہ دینے کی بجائے ان کے سروں پر عذاب کی صورت میں منڈلا رہا ہے۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان مولانا فضل الرحمن دارالعلوم حقانیہ جماعت اسلامی نظیر بھٹو کے بے نظیر بھٹو بینظیر بھٹو کی حمایت کی کے سربراہ طالبان کی جے یو آئی جنہوں نے کی قیادت سے پہلے کے ساتھ نظیر کے کی تھی کے لیے

پڑھیں:

مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان

 

 

بہاولپور(نامہ نگار)25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • دہشتگردی کا خاتمہ: پاکستان اور افغان طالبان میں مذاکرات کل استنبول میں ہوں گے
  • مولانا فضل الرحمان ترامیم کا معاملہ دیکھیں گے، فیصل واوڈا
  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • مسائل و بحرانوں کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے‘ مولانا عبد الماجد
  • سو خطرناک قیدی رہا کرنا، چالیس ہزار طالبانوں کو واپس لانا سنگین غلطی تھا، اسحاق ڈار
  • آج کے وزیر داخلہ کل جب صحافی تھے، محسن نقوی کی پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
  • اسلام آباد میں گولڈ اور دیگر قیمتی پتھروں کی نمائش
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان