Islam Times:
2025-11-10@07:07:44 GMT

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

اسلام ٹائمز: طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تحریک شروع کرنے سے پہلے دارالعلوم حقانیہ سے گریجویشن کیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کی صفوں میں اضافہ کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بھرتی کیے گئے۔ طالبان کی تشکیل سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی حمایت کی جو پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کی حریف اسلامی سیاسی جماعت ”جماعت اسلامی“ کے ساتھ منسلک تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر دونوں ہی جماعت اسلامی کی قیادت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جماعت اسلامی نے مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی تھی جنہوں نے 1979ء میں بے نظیر کے والد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہءدار پر لٹکایا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس موقع پر بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر طالبان بنانے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جنہیں 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے قتل کا حکم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہلانے والے طالبان کے پاکستانی ونگ کے سربراہ بیت اللہ محسود نے دیا تھا۔محسود بعد میں 2009ء میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ تحریک طالبان کی داغ بیل ڈالنے میں بینظیر بھٹو اور ان کے دست راس، اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کا اہم کردار ہے۔ 1993-1996ء میں بینظیر کے دور اقتدار میں طالبان منصہء شہود پر آئے۔ طالبان تحریک کی تخلیق میں بینظیر بھٹو کے اسی کردار کی وجہ سے انہیں طالبان کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ بے نظیر اور جنرل بابر کی محنت سے طالبان جلد ہی ایک قوت بن گئے۔ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والی افغان جماعتوں کو شکست دی اور صرف چند سالوں میں ہی افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان کی حمایت سے کابل پر برسراقتدار آنے والے طالبان اس قدر پُراعتماد ہوگئے کہ انہوں نے پاکستان کے دباؤ کے باوجود ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی پاک افغان سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ طالبان تحریک کی پیدائش اور اس کی نشوونما میں بینظیر بھٹو کے کردار کو احمد رشید نے اپنی انتہائی قابل اعتماد اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب "دی طالبان: اسلام، آئل اینڈ دی نیو گریٹ گیم ان سنٹرل ایشیا" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ 90 پر مصنف کچھ طوالت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ کس طرح جمعیت علمائے اسلام (JUI-F) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بے نظیر کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے افغان-پاکستان سرحد کے ساتھ سیکڑوں مدارس قائم کیے، جن میں دارالعلوم حقانیہ بھی شامل تھا۔

طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تحریک شروع کرنے سے پہلے دارالعلوم حقانیہ سے گریجویشن کیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کی صفوں میں اضافہ کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بھرتی کیے گئے۔ طالبان کی تشکیل سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی حمایت کی جو پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کی حریف اسلامی سیاسی جماعت ”جماعت اسلامی“ کے ساتھ منسلک تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر دونوں ہی جماعت اسلامی کی قیادت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جماعت اسلامی نے مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی تھی جنہوں نے 1979ء میں بے نظیر کے والد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو  تختہءدار پر لٹکایا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس موقع پر  بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر  طالبان بنانے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔

رشید اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1992ء میں مجاہدین کے کابل پر قبضے کے بعد  مولانا فضل الرحمن کی JUI کے جنوبی پشتونوں پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نظر انداز کیا گیا۔ جے یو آئی اس وقت تک پاکستان میں سیاسی طور پر الگ تھلگ تھی اور بھٹو کی حکومت میں اپوزیشن میں رہی۔ تاہم جے یو آئی نے  بینظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ اتحاد کیا۔ یوں پہلی بار جے یو آئی کو اقتدار کی راہداریوں تک اجازت دی گئی اور اسے موقع دیا گیا کہ وہ فوج اور وزارت داخلہ کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب پاکستان کے حکام نے ایک ایسے نئے پشتون گروپ کی تلاش شروع کی جو افغانستان میں پشتونوں کو برسر اقتدار لا کر ان کے ذریعے افغانستان میں پاکستان کے لیے ایک ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ “ قائم کرے نیز جنوبی افغانستان کے راستے پاکستانی تجارت کو افغانستان تک رسائی فراہم کر سکے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین بنا دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ پہلی بار یورپی ممالک کے دورے کے لیے پاکستانی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوگئے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو طالبان کی مالی معاونت کے لیے تیار کیا گیا۔

11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہ دیکھنا آسان ہے کہ بے نظیر بھٹو کا مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کے ساتھ اتحاد اور طالبان کی تشکیل اور پرورش کی ان کی مشترکہ پالیسی نہ صرف بینظیر کے لیے بلکہ لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں کے لیے بھی مہلک تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا تھا جو اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے شروع میں ان لوگوں کے دام میں آ گئے جنہوں نے بعد میں ان کو تختہء دار تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج طالبان ایک بار پھر اپنے ان محسنوں کے خلاف نبرد آزما ہیں جنہوں نے کبھی اس پودے کی تخم ریزی کی تھی اور پھر اس کی آبیاری کر کے اسے تن آور درخت کی صورت دی تھی۔ آج وہ درخت اپنے باغبانوں کو سایہ دینے کی بجائے ان کے سروں پر عذاب کی صورت میں منڈلا رہا ہے۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان مولانا فضل الرحمن دارالعلوم حقانیہ جماعت اسلامی نظیر بھٹو کے بے نظیر بھٹو بینظیر بھٹو کی حمایت کی کے سربراہ طالبان کی جے یو آئی جنہوں نے کی قیادت سے پہلے کے ساتھ نظیر کے کی تھی کے لیے

پڑھیں:

ہردیپ سنگھ نجر کا قتل: کینیڈ ا کو برطانیہ نے خفیہ معلومات فراہم کی تھیں، بلومبرگ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

(فائل فوٹو)

لندن:۔ امریکی خبر رساں ادارے بلومبرگ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سب سے پہلے برطانیہ نے کینیڈا کی حکومت کوخالصتان حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور امریکہ اور برطانیہ میں دو دیگر افراد کو نشانہ بنانے کی سازشوں کے سلسلے میں خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔

میڈیا رپورٹ میں اس معاملے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ برطانوی انٹیلی جنس نے جولائی 2023ءکے آخر میں کینیڈا کے ساتھ ایک فائل شیئر کی تھی جس میں برطانیہ کی سگنلز انٹیلی جنس ایجنسی، گورنمنٹ کمیونیکیشن ہیڈ کوارٹرز کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیایہ برطانیہ کی سگنلز انٹیلی جنس ایجنسی، گورنمنٹ کمیونیکیشن ہیڈ کوارٹر کے ذریعے ان افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو کا خلاصہ اور تجزیہ تھا جن کے بارے میں برطانوی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ بھارتی حکومت کی جانب سے کام کر رہے تھے۔ اس گفتگو میں تین افراد کو نشانہ بنانے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر، امریکہ میں پنون اور برطانیہ میں کھنڈا کو۔نِجر کو جون 2023ءمیں مغربی کینیڈا میں ایک گردوارہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ گر پتونت سنگھ پنون کو نیویارک میں نشانہ بنایا جانا تھا، تاہم یہ سازش بے نقاب ہوگئی جبکہ کھنڈا کو برطانیہ میں گولی مار دی گئی۔

یاد رہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور نیویارک میں گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش سے متعلق حال ہی میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ملکی میڈیا کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی منصوبہ بندی بھارت کی اعلیٰ ترین سطح پر کی گئی تھی۔کینیڈین حکام نے بھی اپنی تحقیقات میں نتیجہ اخذ کیا کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے پیچھے بھارتی ریاستی عناصر ملوث تھے۔

ویب ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • مولانا فضل الرحمان کی صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اہم ملاقات
  • 27ویں آئینی ترمیم، مولانا فضل الرحمان کی صدر مملکت اور بلاول بھٹو سے اہم ملاقات
  • آئینی ترمیم، مولانا فضل الرحمان کی صدر مملکت اور بلاول بھٹو سے اہم ملاقات
  • ’میں ہوں نا‘ کیلئے پہلی چوائس امریتا راؤ نہیں تھیں، فرح خان نے بتادیا
  • پاک افغان مذاکرات
  • ہردیپ سنگھ نجر کا قتل: کینیڈ ا کو برطانیہ نے خفیہ معلومات فراہم کی تھیں، بلومبرگ
  • آرٹیکل 243پر حمایت جبکہ دہری شہریت اورایگزیکٹو مجسٹریٹس سے متعلق ترمیم کی مخالفت کرینگے، بلاول بھٹو
  • خفیہ سیاسی پیشرفت: بلاول بھٹو کا خفیہ معاہدہ، مولانا فضل الرحمان کا غیر ملکی دورہ
  • پاکستان نے ثبوتوں کے ساتھ مطالبات طالبان کے سامنے رکھ دیے، ثالثوں کی مکمل تائید
  • پاکستان نے مطالبات ثبوتوں کے ساتھ طالبان کے سامنے رکھ دیے، ثالثوں کی مکمل تائید