شہریوں پر بنائے گئے ای چالان کا خاتمہ اور مذکورہ سسٹم کی اصلاحات ضروری ہیں، علامہ مبشر حسن
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ گیس، بجلی، پانی، تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی بحالی کی بجائے حکومت کی تمام تر توجہ چالان کرنے پر ہے، بلدیاتی ادارے تباہ حالی کا شکار ہیں، نا اہل میئر سے شہری پہلے ہی پریشان ہیں، مہنگائی اور بنیادی سہولیات سے محروم شہریوں پر غیر ضروری ای چالان قابل مذمت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت شہریوں کے لیے وبال جان بن گئی ہے، ٹریفک چالان کی مد میں الیکڑانک بھتہ خوری کی جارہی ہے، شہر میں اس لاقانونیت کی سب سے بڑی وجہ عوام پر مسلط کردہ نااہل حکمران ہیں، وہ شہری جو بنیادی سہولیت سے محروم تھے اب نئی اذیت سے دوچار ہیں، ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس فراہم کرنے والا شہر کراچی کی صورت موئن جو دڑو جیسی ہوتی جا رہی ہے، ای چالان کیلئے پھرتیاں دکھانے والی حکومت اپنے فرائض سے دانستہ طور پر غافل ہے، گیس، بجلی، پانی، تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی بحالی کی بجائے حکومت کی تمام تر توجہ چالان کرنے پر ہے، بلدیاتی ادارے تباہ حالی کا شکار ہیں، نا اہل میئر سے شہری پہلے ہی پریشان ہیں، مہنگائی اور بنیادی سہولیات سے محروم شہریوں پر غیر ضروری ای چالان قابل مذمت ہے۔
علامہ مبشر حسن کا مزید کہنا تھا کہ حکومت عوام کو گیس، بجلی، پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرے، پیپلز پارٹی حکومت شہر قائد سمیت صوبے بھر کو نوچنا بند کرے، تنگ دستی کے شکار شہریوں کے لیے بھاری جرمانے خوف و ہراس کی علامت بنتے جا رہے ہیں، بدحال ٹریفک نظام کی درستگی متعلقہ حکام کی ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہیئے، حکومت سڑکوں کی تعمیر ات، ڈرائیونگ لائسنس، کاغذات کے حصول کیلئے اقدامات کرے، پہلے شہریوں کو ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑیوں کے کاغذات بنوانے میں مشکلات کو دور کیا جائے، کسی بھی ٹیکس ای چالان کا نفاذ ملک بھر میں یکساں ہونا چاہیئے، شہریوں پر بنائے گئے ای چالان کا خاتمہ اور مذکورہ سسٹم کی اصلاحات ضروری ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شہریوں پر
پڑھیں:
آئی ایم ایف پروگرام میں کوئی نئی شرائط شامل نہیں، وزارت خزانہ کی تردید
(ویب ڈیسک)وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت جاری اصلاحات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں شامل اقدامات کوئی نئی یا اچانک عائد کی گئی شرائط نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا تسلسل ہیں۔
وزارتِ خزانہ کے اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف کے اہم کنٹری پالیسی فریم ورک میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی گئی، حکومتِ پاکستان نے پروگرام کے آغاز پر اپنی مجوزہ اصلاحاتی پالیسیاں آئی ایم ایف کو پیش کیں، جنہیں مرحلہ وار ایم ایف ایف پی کا حصہ بنایا جاتا ہے، یہ اصلاحات ملک کے معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ای ایف ایف ایک طے شدہ درمیانی مدت کی اصلاحاتی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں شامل متعدد اصلاحات پر حکومت پہلے ہی عملدرآمد کر رہی ہے، ہر آئی ایم ایف جائزے میں نئے اقدامات شامل کرنا معمول کا حصہ ہے تاکہ پروگرام کے آغاز میں طے شدہ حتمی اہداف بتدریج حاصل کیے جا سکیں۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کے گوشواروں کی اشاعت کا معاملہ مئی 2024 سے ای ایف ایف میں شامل تھا، جبکہ سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کے بعد موجودہ ساختی ہدف ایک منطقی پیش رفت ہے،نیب کی کارکردگی اور خودمختاری میں بہتری اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے تعاون مضبوط بنانے پر بھی گزشتہ جائزوں میں اتفاق ہو چکا تھا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کو مالی معلومات تک رسائی دینا اے ایم ایل/سی ایف ٹی اصلاحات کا حصہ ہے جو ابتدا سے ای ایف ایف پروگرام میں شامل ہیں، حکومت کی جانب سے غیر رسمی ذرائع کی حوصلہ شکنی کے نتیجے میں مالی سال 2025 میں ترسیلاتِ زر میں 26 فیصد سالانہ اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 2026 میں 9.3 فیصد اضافے کی توقع ہے۔وزارتِ خزانہ کے مطابق مقامی کرنسی بانڈ مارکیٹ کی ترقی، شوگر سیکٹر میں اصلاحات، ایف بی آر میں ٹیکس اصلاحات، ڈسکوز کی نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات بھی حکومت کے اپنے اصلاحاتی اقدامات ہیں جو ای ایف ایف کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں، شوگر سیکٹر میں اصلاحات کے لیے وزیراعظم آفس نے وزیر توانائی کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو صوبوں سے مشاورت کے بعد سفارشات تیار کر رہی ہے۔
سستی اورمعیاری اشیاء کا حصول پنجاب کے عوام کا حق ہے:مریم نواز
اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ تازہ MEFP میں شامل تمام اقدامات حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا فطری تسلسل ہیں، جنہیں مرحلہ وار نافذ کیا جا رہا ہے، ان اصلاحات کو اچانک یا غیر متوقع نئی شرائط قرار دینا حقائق سے لاعلمی کے مترادف ہے۔