(ویب ڈیسک)وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت جاری اصلاحات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں شامل اقدامات کوئی نئی یا اچانک عائد کی گئی شرائط نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا تسلسل ہیں۔
وزارتِ خزانہ کے اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف کے اہم کنٹری پالیسی فریم ورک میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی گئی، حکومتِ پاکستان نے پروگرام کے آغاز پر اپنی مجوزہ اصلاحاتی پالیسیاں آئی ایم ایف کو پیش کیں، جنہیں مرحلہ وار ایم ایف ایف پی کا حصہ بنایا جاتا ہے، یہ اصلاحات ملک کے معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ای ایف ایف ایک طے شدہ درمیانی مدت کی اصلاحاتی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں شامل متعدد اصلاحات پر حکومت پہلے ہی عملدرآمد کر رہی ہے، ہر آئی ایم ایف جائزے میں نئے اقدامات شامل کرنا معمول کا حصہ ہے تاکہ پروگرام کے آغاز میں طے شدہ حتمی اہداف بتدریج حاصل کیے جا سکیں۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کے گوشواروں کی اشاعت کا معاملہ مئی 2024 سے ای ایف ایف میں شامل تھا، جبکہ سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کے بعد موجودہ ساختی ہدف ایک منطقی پیش رفت ہے،نیب کی کارکردگی اور خودمختاری میں بہتری اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے تعاون مضبوط بنانے پر بھی گزشتہ جائزوں میں اتفاق ہو چکا تھا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کو مالی معلومات تک رسائی دینا اے ایم ایل/سی ایف ٹی اصلاحات کا حصہ ہے جو ابتدا سے ای ایف ایف پروگرام میں شامل ہیں، حکومت کی جانب سے غیر رسمی ذرائع کی حوصلہ شکنی کے نتیجے میں مالی سال 2025 میں ترسیلاتِ زر میں 26 فیصد سالانہ اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 2026 میں 9.

3 فیصد اضافے کی توقع ہے۔وزارتِ خزانہ کے مطابق مقامی کرنسی بانڈ مارکیٹ کی ترقی، شوگر سیکٹر میں اصلاحات، ایف بی آر میں ٹیکس اصلاحات، ڈسکوز کی نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات بھی حکومت کے اپنے اصلاحاتی اقدامات ہیں جو ای ایف ایف کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں، شوگر سیکٹر میں اصلاحات کے لیے وزیراعظم آفس نے وزیر توانائی کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو صوبوں سے مشاورت کے بعد سفارشات تیار کر رہی ہے۔

سستی اورمعیاری اشیاء کا حصول پنجاب کے عوام کا حق ہے:مریم نواز

اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ تازہ MEFP میں شامل تمام اقدامات حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا فطری تسلسل ہیں، جنہیں مرحلہ وار نافذ کیا جا رہا ہے، ان اصلاحات کو اچانک یا غیر متوقع نئی شرائط قرار دینا حقائق سے لاعلمی کے مترادف ہے۔

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف ایف ایف ایف کے

پڑھیں:

عراقی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل حمید الشطری کون ہیں؟!

1991ء میں صدام رژیم کیخلاف شعبانیہ بغاوت میں حصہ لیا۔ اس بغاوت کے بعد انہیں، ان کے خاندان کے کچھ اراکین کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے باعث وہ 1993ء تک جیل میں رہے۔ اسلام ٹائمز۔ "حمید الشطری" کے نام سے مشہور "حمید رشید فلیح ساهی الزیرجاوی" اس وقت عراقی انٹیلیجس چیف ہیں۔ جن کا نام "محمد شیاع السوڈانی" کی مدت ختم ہونے کے بعد، عراق کی وزارت عظمیٰ کے ممکنہ امیدوار کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ویب سائٹ "الخنادق" نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ کچھ ذرائع کے مطابق، شیعہ پارٹیوں کے اتحاد "شیعہ کوآرڈینیشن فریم ورک" نے وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے حمید الشطری اور "علی الشکری" کو نامزد کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ دونوں میں اہلیت، دیانتداری اور تجربہ موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان دو ناموں میں سے ایک کو، فریم ورک کے فریقین کی تقریباً 70 فیصد حمایت حاصل ہو گئی ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ کون سا نام شارٹ لسٹ ہو چکا ہے۔ الخنادق کی رپورٹ کے مطابق، حمید الشطری جنوبی عراق کے صوبہ ذی قار سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 1969ء میں اسی علاقے میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی ہی سے صدام حسین کی رژیم اور بعث پارٹی کے مخالف تھے، جس کی وجہ سے انہیں گرفتاری اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1986ء میں صدام مخالف گروہ میں شامل ہوئے اور 1991ء میں صدام رژیم کے خلاف شعبانیہ بغاوت میں حصہ لیا۔ اس بغاوت کے بعد انہیں، ان کے خاندان کے کچھ اراکین کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے باعث وہ 1993ء تک جیل میں رہے۔

رہائی کے بعد کچھ عرصے تک جنوبی عراق کے علاقوں میں خفیہ طور پر آتے جاتے رہے۔ بعد ازاں وہ، عراق حكومت كے زیر اثر ریاست کردستان چلے گئے۔ جہاں انہوں نے 1997ء تک اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ حمید الشطری نے 1998 میں عراق چھوڑ دیا۔ وہ پہلے اسلامی جمہوریہ ایران آئے اور پھر سوئزرلینڈ چلے گئے، جہاں انہوں نے کچھ عرصے قیام کیا۔بیرون ملک صدام مخالفین کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، یورپ میں ان کی کئی میٹنگز میں شرکت کی اور ساتھ ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی و کمیونیکیشن کے شعبے میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ 2003ء میں امریکہ کے عراق پر حملے اور سقوطِ صدام کے بعد، حمید الشطری عراق واپس آئے اور اپنی سرگرمیوں کے نئے دور کا آغاز کیا۔ اس پورے عرصے کے دوران انہوں نے سیکورٹی اداروں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ وہ اب تک قومی سیکیورٹی ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر، "فالکنز انٹیلی جنس یونٹ" کے ڈائریکٹر، عراقی وزارت داخلہ میں انٹیلی جنس اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت وہ عراقی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سربراہ ہیں۔ داعش کے خلاف جنگ کے دوران، حمید الشطری نے "عشائری حشد" کے معاملات کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں عربی، انگریزی، فارسی اور جرمن زبانوں پر عبور حاصل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق نئی شرائط  کا تاثر غلط، اصلاحات پہلے سے طے شدہ ہیں، وزارتِ خزانہ
  • آئی ایم ایف پروگرام میں کوئی نئی شرائط شامل نہیں : وزارت خزانہ 
  • آئی ایم ایف شرائط میں کچھ نیا نہیں، طے شدہ ایجنڈا مرحلہ وار نافذ کیا جا رہا: وزارت خزانہ
  • آئی ایم ایف پروگرام میں کوئی نئی شرائط شامل نہیں، وزارت خزانہ کی تردید
  • وزارت مذہبی امور کا نجی حج ٹور آپریٹرز کیلئے شرائط سخت کرنے کا فیصلہ
  • وزیرخزانہ کا معاشی اصلاحات پرزور، این ایف سی پر جنوری تک پیش رفت کا اعلان
  • عراقی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل حمید الشطری کون ہیں؟!
  • آئی ایم ایف نے پاکستان کیلیے 11نئی سخت شرائط عائد کر دیں
  • فیض حمید کی سزا کسی حکومت کی فتح نہیں: طارق فضل چوہدری