آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق نئی شرائط کا تاثر غلط، اصلاحات پہلے سے طے شدہ ہیں، وزارتِ خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت جاری اصلاحات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں شامل اقدامات کسی نئی یا اچانک عائد کی گئی شرائط کا حصہ نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا تسلسل ہیں۔
جاری کردہ ایک تفصیلی اعلامیے میں وزارتِ خزانہ نے واضح کیا کہ ای ایف ایف پروگرام کے تحت اصلاحات مرحلہ وار انداز میں نافذ کی جاتی ہیں اور ہر جائزے کے ساتھ ایسے اقدامات شامل کیے جاتے ہیں جو پروگرام کے آغاز میں طے کیے گئے حتمی اہداف کے حصول میں مددگار ہوں، دوسرے جائزے کے بعد طے پانے والا ایم ای ایف پی پہلے جائزے کے میمورنڈم کا تسلسل ہے، کوئی الگ یا غیر متوقع دستاویز نہیں۔
وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ جن اقدامات کو بعض حلقے نئی شرائط قرار دے رہے ہیں، ان میں سے کئی اصلاحات حکومتِ پاکستان پہلے ہی شروع کر چکی تھی یا ان پر عملی کام جاری تھا, آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران حکومت اپنی مجوزہ پالیسی اصلاحات پیش کرتی ہے اور جہاں یہ اصلاحات پروگرام کے اہداف سے ہم آہنگ ہوں، انہیں ایم ای ایف پی کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔
اعلامیے میں وضاحت کی گئی کہ سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کے گوشواروں کی اشاعت کا معاملہ مئی 2024 سے ای ایف ایف پروگرام میں شامل ہے اور سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کے بعد یہ اگلا منطقی قدم ہے, اسی طرح نیب کی مؤثر کارکردگی اور صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کے ساتھ تعاون مضبوط بنانے پر بھی پہلے ہی اتفاق ہو چکا تھا۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق زیادہ خطرات سے دوچار اداروں کے لیے ایکشن پلان، اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام سے متعلق اصلاحات، اور صوبائی اداروں کو مالی معلومات کی فراہمی بھی ای ایف ایف پروگرام کے آغاز سے شامل اصلاحات کا حصہ ہیں۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ ترسیلاتِ زر ملکی معیشت کے استحکام کے لیے نہایت اہم ہیں۔ غیر رسمی ذرائع کی حوصلہ شکنی کے نتیجے میں مالی سال 2025 کے دوران ترسیلاتِ زر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 26 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ مالی سال 2026 میں مزید 9.
وزارتِ خزانہ کے مطابق مقامی بانڈ مارکیٹ، شوگر سیکٹر کی اصلاحات، ایف بی آر میں اصلاحاتی روڈ میپ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری، بڑے سرکاری اداروں کے ساتھ پبلک سروس آبلیگیشن معاہدے، کمپنیز ایکٹ اور اسپیشل اکنامک زونز سے متعلق ترامیم بھی پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی فریم ورک کا حصہ ہیں۔
اعلامیے کے آخر میں وزارتِ خزانہ نے زور دیا کہ تازہ ایم ای ایف پی میں شامل تمام اقدامات پاکستان کی معاشی بحالی، استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے ایک جامع اور مرحلہ وار اصلاحاتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں اور انہیں اچانک یا غیر متوقع شرائط قرار دینا حقائق کے منافی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایم ای ایف پی ایف پروگرام آئی ایم ایف پروگرام کے ایف ایف کے ساتھ کے لیے کا حصہ
پڑھیں:
وزیرخزانہ کا معاشی اصلاحات پرزور، این ایف سی پر جنوری تک پیش رفت کا اعلان
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات پر تیزی سے عمل کر رہی ہے اور پالیسیوں میں تسلسل کو یقینی بنایا جائے گا۔
لاہور میں آل پاکستان چیمبرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنوری تک قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق کمیٹی کو دوبارہ بلا کر پیش رفت کی جائے گی، جبکہ چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے ساتھ مثبت اور تعمیری ماحول میں بات چیت ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت درست سمت میں گامزن، آئندہ مالی سال کا بجٹ ایف بی آر نہیں بنائےگا، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف سے اسٹرکچرل ریفارمز پر بات جاری ہے اور سرکاری ملازمین و پارلیمنٹرینز کے اثاثے عوام کے سامنے لانے کے لیے پہلے ہی قانون سازی مکمل کی جاچکی ہے۔
تنخواہ دار طبقے پر جو بوجھ پڑا ہے ہمیں اس کا احساس ہے۔ لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ ڈنڈے کے زور پر تو یہ ڈنڈا نہیں ہے، ملک تو چلانا ہے نا۔ Private Sector has to lead the country، محمد اورنگزیب pic.twitter.com/kX9OXRnLcb
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) December 13, 2025
ان کے مطابق یہ کوئی اضافی شرط نہیں بلکہ شفافیت کے فروغ کے لیے عملی اقدام ہے، اور تمام سول سرونٹس و پارلیمنٹرینز کے اثاثے ہر سال 31 دسمبر کو ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گے۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات، ٹیکس نیٹ میں توسیع اور خودکار نظام کے نفاذ سے شفافیت اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ موجود ہے، تاہم حکومت نان کمپلائنس سیکٹر کے خلاف کارروائی کر کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی کے معیشت پر زیادہ اثرات نہیں ہوں گے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی قیادت نجی شعبے کو کرنی ہے، نوکریاں پیدا کرنا حکومت نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کا کردار ہے، اسی لیے اسٹارٹ اپس، نوجوان کاروباری افراد، ڈیجیٹل اکانومی اور ای کامرس کو فروغ دینا حکومتی ترجیح ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو کو بند کیا جا رہا ہے جبکہ اسٹریٹیجک ذخائر نجی شعبے کے ذریعے رکھے جائیں گے، انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی کی گئی ہے اور 24 ادارے نجکاری کمیشن کے حوالے کیے جاچکے ہیں، جبکہ قومی ایئر لائن کی نیلامی 23 دسمبر کو متوقع ہے۔
مزید پڑھیں: ہمیں اپنی معیشت کا ڈی این اے تبدیل کرنا ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو ایکسچینجز کو لائسنس دینے کے معاہدے سے بھی معیشت میں بہتری آئے گی، کیونکہ ڈھائی کروڑ سے زائد پاکستانی، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، کرپٹو کاروبار سے وابستہ ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی فی الحال قابو میں ہے، اصلاحاتی اقدامات سے معاشی اعشاریے بہتر ہوئے ہیں اور سرمایہ کاروں و تاجروں کا اعتماد بحال ہونے سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے وزیر خزانہ کا ملکی معیشت میں بہتری کا اعتراف، تسلسل جاری رکھنے کا فارمولہ بھی بتا دیا
انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے سال کا پالیسی ساز بجٹ ایف بی آر نہیں بنائے گا، اور ہر شعبے کو برآمدات بڑھانے کے لیے متحرک ہونا ہوگا، اس مقصد کے لیے ٹیکس پالیسی آفس تاجر برادری سے 24 گھنٹے رابطے میں رہے گا، جبکہ لاہور چیمبر میں کراچی کی طرز پر ریسرچ سیل قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹرکچرل ریفارمز پاسکو پالیسی ساز بجٹ پرائیویٹ سیکٹر ٹیکس پالیسی چیمبر اینڈ کامرس قومی مالیاتی کمیشن لاہور محمد اورنگزیب وزیر خزانہ