ہتھیار چھوڑنے کا معاملہ پیچیدہ ہے، اتفاق رائے کی ضرورت ہے: حماس
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حماس تنظیم کا کہنا ہے کہ اسلحہ ترک کرنے کا معاملہ نہایت پیچیدہ ہے اور اس کے لیے فلسطینیوں کے درمیان مکمل اتفاقِ رائے درکار ہے۔
غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ فلسطینیوں کو امن اور جنگ، دونوں فیصلوں پر جامع اتفاق تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے زور دیا کہ حماس غزہ میں سیکیورٹی کی ذمے داری حوالگی کے عمل پر متفقہ سمجھوتوں کے تحت عمل کی پابند ہے، اور یہ کہ تنظیم نے ثالثوں کے ذریعے غزہ کی مکمل انتظامی ذمے داری حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
قاسم نے مزید کہا کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے تاکہ معاہدے کے تمام مراحل مکمل ہوں۔ انھوں نے تنظیم کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے اور تمام یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کے وعدے کی تجدید کی۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب بدھ کی شام اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اب غزہ پٹی اسرائیل کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں رہے گی۔
کریات گات میں امریکی ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کو ایک غیر عسکری علاقے میں تبدیل کرنا ہے۔ ان کے مطابق تل ابیب واشنگٹن کے ساتھ مل کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت غزہ کی صورت حال تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا “ہم مرحلہ وار غیر مسلح کرنے پر کام کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ منصوبے کے دیگر پہلوؤں پر بھی پیش رفت ہو رہی ہے”۔
ادھر قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اعلان کیا کہ ان کا ملک حماس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے اسلحے سے دست بردار ہونے کی ضرورت کو تسلیم کرے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ حماس غزہ کی حکومت چھوڑنے پر آمادہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ غزہ جنگ بندی منصوبہ رواں ماہ (اکتوبر 2025) کی دس تاریخ سے نافذ ہوا۔ اس کے مطابق غزہ کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا اور ٹکنوکریٹس پر مشتمل ایک فلسطینی انتظامیہ قائم کی جائے گی جو ایک بین الاقوامی کمیٹی کی نگرانی میں علاقے کا نظم و نسق سنبھالے گی۔
اس سے قبل غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے پیر کو جاری بیان میں کہا تھا کہ اسلحے کا معاملہ زیرِ بحث ہے، لیکن یہ مسئلہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حماس نے جنگ بندی کے ثالثوں سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کر دیا
حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور فلسطینی شہریوں کے قتل پر ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ فوری طور پر حملے روکیں اور معاہدے کی پاسداری کریں۔
حماس کے بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل فلسطینی عوام پر دھوکے اور جارحانہ حملے جاری رکھ کر اپنے مقاصد ظاہر کر رہا ہے، اور امریکہ اسرائیل کی غزہ پر کارروائیوں میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی حمایت اسرائیلی حکومت کو سیاسی پناہ فراہم کرتی ہے تاکہ وہ جرائم جاری رکھ سکے، اور اس طرح امریکہ بھی بچوں اور خواتین کے خون میں براہِ راست شریک ہے۔
حماس نے ثالثوں اور ضمانت دینے والے فریقین پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اسرائیل فوری طور پر قتل عام بند کر کے معاہدے کی مکمل پاسداری کرے۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے غزہ میں شدید حملوں کے بعد جنگ بندی معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ فوج نے غزہ پٹی میں مزاحمتی تنظیموں کے کمانڈ مراکز پر کارروائی کی، جس میں 30 سے زائد مزاحمت کار ہلاک یا نشانہ بنائے گئے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی فوج جنگ بندی معاہدے کی پابندی جاری رکھے گی اور کسی بھی خلاف ورزی پر سخت جواب دے گی۔
گزشتہ روز اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شدید حملوں کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شہید اور کئی زخمی ہوئے، جس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا۔