حماس نے غزہ کی انتظامی کمیٹی کیلئے مصر کو 45 نام ارسال کر دئیے
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں طاہر النونو کا کہنا تھا کہ ان میں سے کسی بھی نام پر اتفاق ہوتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔ ہمیں ان ناموں پر پورا اعتماد ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے میڈیا مشیر "طاہر النونو" نے خبر دی كہ حماس نے غزہ پٹی کی انتظامی کمیٹی کے قیام کے لئے 45 امیدواروں کی فہرست، مصر کو ارسال کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مصر میں اپنے بھائیوں کے سامنے 45 نام پیش کئے تاکہ وہ غزہ پٹی کی انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری سنبھالیں۔ ان میں سے کسی بھی نام پر اتفاق ہوتا ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔ ہمیں ان ناموں پر پورا اعتماد ہے۔ طاہر النونو نے وضاحت کی کہ یہ نام فلسطینی گروہوں کے باہمی اتفاق سے طے کئے گئے ہیں۔ ارسال کئے گئے یہ نام غزہ پٹی کے آزاد اور مقامی افراد میں سے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فرد کی، کسی جماعت سے سیاسی وابستگی نہیں اور یہ سب غزہ کے مفادات کے خیرخواہ ہیں۔ سب کا مشترکہ مقصد، عوام کے مفادات اور غزہ کے مستقبل کا تحفظ ہے۔
واضح رہے کہ غزہ انتظامی کمیٹی، ایک ایسا عارضی ادارہ ہے جو غزہ پٹی میں گزشتہ دو سالہ جنگ کے بعد روزمرہ امور، امدادی کارروائیوں اور تعمیر نو کے مقاصد کے لئے قائم کیا جا رہا ہے۔ یہ کمیٹی، غزہ کی مقامی اور غیر سیاسی شخصیات پر مشتمل ہوگی جسے فلسطینی گروہوں کے باہمی اتفاق اور مصر کی ثالثی میں متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کمیٹی کے بنیادی فرائض میں سرکاری انتظامات، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون اور نظم و ضبط برقرار رکھنا شامل ہیں۔ اس کی قانونی حیثیت، خود مختار فلسطینی اتھارٹی کی ہوگی اور اس کا کام فلسطینی اتھارٹی کے صدر کے سرکاری حکم نامے سے شروع ہوگا۔ اس ڈھانچے کا مقصد سیاسی کشیدگی کو کم کرنا اور غزہ کے عوام کی فوری ضروریات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انتظامی کمیٹی غزہ پٹی
پڑھیں:
کیا پاکستان میں نئے صوبے بنانا ضروری ہے؟
سجاد حسین لکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انتظامی خود مختاری بہت اہم ہے۔ اگر نئے صوبے بنانے سے عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو اس پر غور کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ موجودہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام، روزگار کے مسائل اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلی بے حد ضروری لگتی ہے۔ مثال کے طور پر، پنجاب کی آبادی تقریباً 12 کروڑ اور سندھ کی تقریباً 7 کروڑ ہے، لیکن صرف ایک سیکرٹریٹ، ایک ہائی کورٹ اور ایک وزیراعلیٰ کے ذریعے مسائل حل کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک میں صوبوں یا ریاستوں کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یورپی ممالک، بھارت، ایران اور انڈونیشیا کی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ زیادہ صوبے انتظامی اور وسائل کی تقسیم کو بہتر بناتے ہیں۔ نئے صوبے بنانے سے نہ صرف عدالتی فیصلے جلد ہوں گے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اختیارات مقامی سطح پر منتقل ہوں گے۔
چند روز قبل وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے بھی نئے صوبوں کی تشکیل کی حمایت کی، جبکہ دیگر سیاستدان اور تجزیہ کار بھی اس پر بات کر رہے ہیں۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں اس پر اتفاق کر پائیں گی یا نہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں۔