Islam Times:
2025-12-14@22:57:59 GMT

حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (1)

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (1)

اسلام ٹائمز: فلسطین میں تشکیل پانے والے نمایاں مزاحمتی گروہوں میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، تحریکِ فتح، فلسطینی اسلامی جہاد، عوامی محاذ برائے آزادیٔ فلسطین، جمہوری محاذ، عوامی مزاحمتی کمیٹیاں اور تحریکِ مزاحمتِ اسلامی (حماس) شامل ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ، جیسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، وقت گزرنے کے ساتھ مزاحمتی اور جہادی فکر سے بتدریج دور ہوتے گئے، جبکہ کچھ دیگر، بالخصوص تحریکِ حماس اور اسلامی جہاد، فلسطین کی آزادی کے مقصد اور اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہے۔ اگرچہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی کارروائیاں، چاہے وہ منظم تحریکوں کی صورت میں ہوں یا انفرادی مزاحمت کی شکل میں، 1948 سے صہیونی قبضے کے ساتھ ساتھ جاری رہیں اور ایک کٹھن و نشیب و فراز سے بھرپور مرحلے سے گزریں، تاہم اس مزاحمت کا سب سے نمایاں اور واضح اظہار ان انتفاضوں میں سامنے آیا جو فلسطینی قوم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں برپا کیں۔ خصوصی رپورٹ:

فلسطین کی مزاحمتی اسلامی تحریک حماس اور مجموعی طور پر فلسطینی مزاحمت نے صہیونیوں کی جانب سے اس سرزمین پر قبضے کے آغاز سے ہی ایک نہایت نشیب و فراز سے بھرپور راستہ طے کیا ہے، یہاں تک کہ وہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کو پتھروں کی انتفاضہ سے تاریخی حماسہ طوفانُ الاقصیٰ تک لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ تاریخ کے ہر دور میں دنیا کے جس خطے میں بھی ظلم اور قبضہ جمایا گیا ہے، وہاں اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت بھی وجود میں آئی ہے، جو مختلف شکلوں اور سطحوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ تاہم مغربی ایشیا کے خطے میں مزاحمت کا مفہوم ایک خاص انداز میں فلسطین کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، اور جب بھی مزاحمت، اس کے مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے فلسطین اور اس سرزمین کے عوام کی جدوجہد ذہن میں آتی ہے۔

فلسطین میں مزاحمت کی تاریخ:
سنہ 1940 کی دہائی سے، جب صہیونیوں نے مغرب اور امریکہ کی حمایت سے باضابطہ طور پر فلسطینی سرزمین پر قبضے کا آغاز کیا اور بعد ازاں اسے دیگر عرب علاقوں تک وسعت دی، اسی کے ساتھ فلسطین میں مزاحمت نے بھی جنم لیا، جو مختلف طریقوں اور سطحوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ فلسطین پر صہیونی قبضے کے ابتدائی برسوں میں مختلف عوامی گروہ اور سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں، جن میں سے ہر ایک کی اپنی مخصوص نظریاتی بنیاد اور عملی حکمتِ عملی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ انفرادی مزاحمت بھی فلسطینی عوام کی جدوجہد کی ایک نمایاں خصوصیت رہی۔ تاہم اُس دور میں فلسطینی مزاحمت کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ مختلف مزاحمتی گروہوں کے درمیان عمومی طور پر کوئی مضبوط اتحاد موجود نہیں تھا، جس کے باعث وہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے ایک متحد، منظم اور ہم آہنگ حکمتِ عملی وضع کرنے میں ناکام رہے۔

فلسطین میں تشکیل پانے والے نمایاں مزاحمتی گروہوں میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، تحریکِ فتح، فلسطینی اسلامی جہاد، عوامی محاذ برائے آزادیٔ فلسطین، جمہوری محاذ، عوامی مزاحمتی کمیٹیاں اور تحریکِ مزاحمتِ اسلامی (حماس) شامل ہیں۔ ان میں سے بعض گروہ، جیسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، وقت گزرنے کے ساتھ مزاحمتی اور جہادی فکر سے بتدریج دور ہوتے گئے، جبکہ کچھ دیگر، بالخصوص تحریکِ حماس اور اسلامی جہاد، فلسطین کی آزادی کے مقصد اور اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہے۔ اگرچہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی کارروائیاں، چاہے وہ منظم تحریکوں کی صورت میں ہوں یا انفرادی مزاحمت کی شکل میں، 1948 سے صہیونی قبضے کے ساتھ ساتھ جاری رہیں اور ایک کٹھن و نشیب و فراز سے بھرپور مرحلے سے گزریں، تاہم اس مزاحمت کا سب سے نمایاں اور واضح اظہار ان انتفاضوں میں سامنے آیا جو فلسطینی قوم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں برپا کیں۔

پتھروں کی انتفاضہ سے الاقصیٰ تک:
فلسطین کی پہلی انتفاضہ، جو „انتفاضۂ سنگ“ کے نام سے معروف ہوئی، 8 دسمبر 1987 کو شروع ہوئی اور سنہ 1993 تک جاری رہی، جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے صہیونیوں کے ساتھ بدنام زمانہ اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔ پہلی انتفاضہ کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک اسرائیلی ٹرک نے چند فلسطینی مزدوروں کو کچل دیا، جس کے نتیجے میں چار فلسطینی شہید ہو گئے۔ فلسطینی عوام نے اس واقعے کو ایک دانستہ قتل قرار دیا۔ اگلے دن شہداء کے جنازے کے موقع پر جب لوگ جبالیا میں صہیونی فوج کے اڈے کے قریب پہنچے تو انہوں نے فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے جواب میں صہیونی فوجیوں نے ہوائی فائرنگ کی، جبکہ فلسطینیوں نے پتھروں اور مولوتوف کاک ٹیلوں کی بارش کر کے اس کا جواب دیا۔ یہی واقعہ فلسطین کی پہلی انتفاضہ کی ابتدائی چنگاری تھا، لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ انتفاضہ شہر بہ شہر پھیلتا چلا گیا۔ اس انتفاضہ کے دوران تقریباً 1300 فلسطینی شہید ہوئے۔

قبائلی جدوجہد کی ناکامی اور عرب دنیا سے مایوسی:
جیسا کہ ذکر کیا گیا، فلسطینیوں کی مزاحمتی سرگرمیاں کسی ایک متحد اور مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت انجام نہیں پا رہی تھیں، اسی لیے وہ مؤثر نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ مزید یہ کہ صہیونی قبضے کے آغاز کے بعد ابتدائی دو دہائیوں تک فلسطینی عوام کو اس بات کی بڑی امید تھی کہ دیگر عرب ممالک انہیں نجات دلائیں گے، مگر عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، صہیونی رجیم کے مقابلے میں عرب افواج کی شکست، اور بعد ازاں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے آغاز نے فلسطینی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ انہیں ان ممالک کی حمایت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ فلسطین کی پہلی انتفاضہ ایسے وقت میں ابھری جب عرب ممالک اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ عرب حکمرانوں نے فلسطین کے مسئلے کو اپنی ترجیحات کے مرکز سے ہٹا دیا تھا اور اسے ایک ثانوی مسئلے کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔

صہیونیوں کا فلسطینیوں پر دوہرا دباؤ:
انتفاضہ کے ظہور کی ایک اہم وجہ یہ بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر مسلسل تحقیر کا سامنا تھا۔ دنیا بھر سے یہودیوں کی بڑے پیمانے پر مقبوضہ سرزمین کی طرف ہجرت اور صہیونیوں کی جانب سے آبادی کا تناسب یہودیوں کے حق میں بدلنے کی کوششیں، نیز فلسطینی عربوں سے حقوق، سہولیات اور مراعات چھینے جانے کے اقدامات نے فلسطینی عوام میں یہ احساس مزید گہرا کر دیا کہ ان پر ظلم اور ناانصافی دوگنی ہو چکی ہے۔

انقلابِ اسلامی ایران سے الہام:
فلسطینی عوام نے جبر و استبداد کے برسوں میں عملی طور پر یہ سیکھ لیا کہ ان کی مزاحمت اور کامیابی کا اصل راز اس کی اسلامی بنیاد میں مضمر ہے، نہ کہ کسی اور عنصر میں۔ اسی لیے انہوں نے اسلامی نقطۂ نظر اپناتے ہوئے اور انقلابِ اسلامی ایران سے الہام حاصل کر کے میدانِ جدوجہد میں قدم رکھا۔ خطے کے طاقتور ترین ملک میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام واضح طور پر طاقت کے توازن کو مسلمانوں کے حق میں بدلنے کا سبب بنا اور یہ امر فلسطینی عوام کے لیے ایک مضبوط محرک ثابت ہوا۔ فلسطینیوں نے ایران کے انقلاب سے متاثر ہو کر اپنی سیاسی، اقتصادی اور سماجی صورتحال کے مطابق جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنی مزاحمت کو عرب سیاسی معادلات کے محدود دائرے سے باہر نکال لیا۔ فلسطین میں دیگر مزاحمتی تحریکوں کے مقابلے میں انتفاضہ کا امتیاز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایرانی مسلم قوم کی برحق جدوجہد اور اس کی قیادت سے الہام پا کر فلسطینیوں کو یہ ادراک حاصل ہوا کہ امریکہ اور اسرائیل ناقابلِ شکست نہیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔

فلسطین کی دوسری انتفاضہ؛ انتفاضۂ الاقصیٰ:
پچیس سال قبل، 28 ستمبر 2000 کو، مقبوضہ بیت المقدس کے اس وقت کے وزیرِ اعظم آریل شارون کی جانب سے بڑی تعداد میں صہیونی فوجیوں کے ہمراہ مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد فلسطین کی دوسری انتفاضہ، جسے انتفاضۂ الاقصیٰ کہا جاتا ہے، بھڑک اٹھی۔ شارون کے مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہونے اور اس کے صحنوں میں گشت کرنے سے فلسطینیوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے، جس کے نتیجے میں مسلمان نمازیوں اور صہیونی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں سات فلسطینی شہید ہوئے اور 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جبکہ اس دوران 13 صہیونی فوجی بھی زخمی ہوئے۔ اس وقت مقبوضہ شہر بیت المقدس میں شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں جن کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں بہت تیزی سے مغربی کنارے کے تمام شہروں اور غزہ کی پٹی تک پھیل گئیں اور اسی تحریک کو بعد میں „انتفاضۂ الاقصیٰ“ کا نام دیا گیا۔

محمد الدرّہ، وہ فلسطینی شہید بچہ جو انتفاضۂ الاقصیٰ کے دوسرے دن شہید ہوا، دوسری فلسطینی انتفاضہ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 30 ستمبر 2000 کو فرانسیسی ٹیلی وژن نیٹ ورک کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں واضح طور پر اس 11 سالہ بچے کے قتل کے مناظر دکھائے گئے ہیں، جب وہ غزہ شہر کے جنوب میں شارعِ صلاح الدین پر اپنے والد کے ساتھ ایک کنکریٹ کی رکاوٹ کے پیچھے پناہ لیے ہوئے تھا۔ صہیونی فوج کے ہاتھوں اس فلسطینی بچے کے قتل نے فلسطینی قوم کے جذبات کو شدید طور پر بھڑکا دیا اور مختلف علاقوں میں غم و غصے پر مبنی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان مظاہروں کے دوران صہیونی فوجیوں اور فلسطینی شہریوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شہید یا زخمی ہو گئے۔

فلسطین کی دوسری انتفاضہ، پہلی انتفاضہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید جھڑپوں، فوجی کارروائیوں میں اضافے اور فلسطینی مزاحمت اور صہیونی فوج کے درمیان براہِ راست تصادم کی حامل رہی۔ دونوں فریقوں کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس انتفاضہ کے دوران 4412 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ 48 ہزار 322 افراد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب 1069 صہیونی ہلاک اور 4500 سے زائد زخمی ہوئے۔ انتفاضۂ الاقصیٰ کے دوران پیش آنے والے اہم ترین واقعات میں سے ایک، صہیونی رجیم کے اس وقت کے وزیرِ سیاحت رحبعام زئیفی کا فلسطین کی عوامی محاذ برائے آزادیٔ فلسطین کے مجاہدین کے ہاتھوں قتل تھا، جو اس انتفاضہ کے نمایاں واقعات میں شمار ہوتا ہے۔

(جاری ہے۔۔)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطین لبریشن آرگنائزیشن فلسطینی شہید ہو فلسطینی عوام کی صہیونی قبضے کے صہیونی فوجیوں کے نتیجے میں کے ساتھ ساتھ فلسطینی قوم اسلامی جہاد فلسطین میں میں فلسطین انتفاضہ کے کی مزاحمتی کی جانب سے زخمی ہوئے کے درمیان کی مزاحمت مزاحمت کی فلسطین کی مزاحمت کا نے فلسطین کے دوران زخمی ہو اور اس

پڑھیں:

عرب کپ، فلسطین کوارٹر فائنل میں جگہ نہ بناسکا، سعودی عرب نے آخری لمحات میں کامیابی حاصل کرلی

سنسنی خیز مقابلے کے بعد سعودی عرب نے فلسطین کو عرب کپ میں شکست دے دی ہے، فلسطین کی ٹیم کوارٹرفائنل میں رسائی حاصل نہ کرسکی۔

قطر میں جاری عرب کپ 2025 میں فلسطین کی فٹبال ٹیم نے تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی بار کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی، تاہم سعودی عرب نے اضافی وقت میں ایک گول سے فتح حاصل کر کے فلسطینی سفر کو روک دیا۔ یہ فیصلہ کن گول ایک 115ویں منٹ میں محمد کینو کے جھکتے ہوئے ہیڈر کی صورت میں سامنے آیا، جبکہ معمول کا وقت دونوں ٹیموں کے درمیان سخت مقابلے کے بعد برابر رہا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب 2034 میں ’سب سے دلچسپ ورلڈ کپ‘ منعقد کرنے کے لیے پرعزم

سعودی عرب کی جانب سے پہلا گول 58ویں منٹ میں فِراس البریکان نے پنالٹی پر کیا۔ یہ پنالٹی اس وقت ملی جب سالم الدوسری کو باکس میں ٹرپ کیا گیا۔ البریکان نے گیند کو بااعتماد انداز میں فلسطینی گول کیپر رامی حمادہ کے دائیں طرف پھینک کر برتری حاصل کی۔

فلسطین نے صرف 6 منٹ بعد شاندار انداز میں میچ برابر کر دیا۔ عودے داباغ نے بائیں پاؤں سے کراس کو کنٹرول کیا اور فوراً ہی دائیں پاؤں سے خوبصورت شاٹ مار کر گیند کو جال میں پہنچا دیا، جس سے فلسطینی شائقین جھوم اٹھے۔

پہلا ہاف سخت مقابلے، محدود مواقع اور صرف ایک آن ٹارگٹ شاٹ کے ساتھ گزرا۔ فلسطین کی مضبوط دفاعی دیوار نے سعودی عرب کے تابڑ توڑ حملوں کو روکے رکھا۔ سالم الدوسری کا ایک خطرناک کراس حمادہ نے مشکل سے نکالا، جبکہ البریکان کا ایک یقینی موقع آخری لمحے میں دفاع نے ناکام بنایا۔

میچ کے برابر ہونے کے بعد سعودی عرب دباؤ بڑھاتا رہا۔ علی مجرشی کا زوردار شاٹ کراس بار سے ٹکرایا، جبکہ انجری ٹائم میں کینو نے گول بھی کر دیا تھا جو آف سائڈ قرار پانے پر مسترد ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کے سالم الدوسری پھر ایشیا کے بہترین فٹبالر بن گئے

ایکسٹرا ٹائم میں بھی دونوں ٹیمیں مسلسل کوشش کرتی رہیں، مگر فیصلہ کن لمحہ 115ویں منٹ میں آیا جب محمد کینو نے کارنر پر شاندار ہیڈر کے ذریعے سعودی عرب کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ آخری لمحات میں فلسطین کے پاس میچ کو پنالٹی تک لے جانے کا سنہری موقع تھا مگر داباغ والی کنورٹ نہ کرسکے۔

ادھر دن کے پہلے میچ میں مراکش نے شام کو ایک صفر سے شکست دے کر سیمی فائنل کا ٹکٹ حاصل کیا، حالانکہ مراکش کو آخری لمحات میں محمد مفید کے ریڈ کارڈ کے باعث ایک کھلاڑی کم کر کے کھیلنا پڑا۔ سیمی فائنل میں مراکش کا مقابلہ الجزائر اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے میچ کے فاتح سے ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • جے ایس او پاکستان کے مرکزی صدر فتح رضوی کی ڈاکٹر صابر ابومریم سے ملاقات
  • بشار اسد کے زوال کی پہلی سالگرہ، ایک سال میں شام انہدام کے دہانے پر
  • اسرائیل نے حماس کے اہم کمانڈر کو نشانہ بنایا، فضائی حملے میں 3 فلسطینی شہید
  • سپریم کورٹ: زیادتی کے کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
  • سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
  • کیلیفورنیا کی خاتون نے سالگرہ سے ایک دن قبل لاکھوں ڈالرز کی لاٹری جیت لی
  • عرب کپ، فلسطین کوارٹر فائنل میں جگہ نہ بناسکا، سعودی عرب نے آخری لمحات میں کامیابی حاصل کرلی
  • بھارت: آندھرا پردیش میں بس گہری کھائی میں گرنے سے 9 افراد ہلاک، درجنوں زخمی