عائشہ عمر کے متنازع ریئلٹی شو ’لازوال عشق‘ کو یوٹیوب سے ہٹا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, December 2025 GMT
اپنے لیے جیون ساتھی کے انتخاب کا موقع دینے والے ریئلٹی شو ’لازوال عشق‘ اب پاکستان میں یوٹیوب پر دستیاب نہیں رہا۔
اس شو کا فارمیٹ اپنے آغاز سے پہلے ہی متنازع رہا ہے۔ یوٹیوب پر نشر ہونے کے بعد اس شو پر تنقید میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
عائشہ عمر کی میزبانی میں پیش کیے جانے والے اس ریئلٹی شو کو اسلامی اقدار اور پاکستانی ثقافت کے منافی قرار دیا جا رہا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس شو کو یوٹیوب سے ہٹانے کے لیے باقاعدہ مہم بھی چلائی تھی اور اب یوٹیوب سے ہٹادیا گیا۔
ریئلٹی شو کی انتظامیہ نے اپنے انسٹاگرام پیج پر بتایا کہ کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہمارا پروگرام پاکستان میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
یاد رہے کہ ’لازوال عشق‘ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے آٹھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں جو استنبول کے ایک بنگلے میں جیون ساتھی کے انتخاب کے لیے قیام کرتے ہیں۔
یہ شو بین الاقوامی ریئلٹی ڈیٹنگ شو ’لو آئی لینڈ‘ کے طرز پر بنایا گیا ہے اور ترکی کے ریئلٹی شو ’آشک آداسی‘ سے متاثر لگتا ہے۔
شو کی مجموعی 100 اقساط میں سے 50 اقساط نشر ہو چکی تھیں لیکن اب اچانک پاکستان میں یوٹیوب پر یہ اقساط ہٹا دی گئی تھیں تاہم مختصر کلپس اب بھی دستیاب ہیں۔
اے ایف پی نے لازوال عشق کو پاکستان کے ناظرین کے لیے ہٹانے پر یوٹیوب انتظامیہ کا مؤقف لینے کی کوشش کی لیکن فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ ٹریلر کے جاری ہونے پر ہی عائشہ عمر کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے اس کو شو کو فحش اور غیر اخلاقی مواد قرار دیا۔
جس پر عائشہ عمر کا کہنا تھا کہ یہ پاکستانی شو نہیں ہے بلکہ ایک ترک پروڈکشن ہے تاہم پاکستان کے لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں۔
قبل ازیں پیمرا نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس شو کے خلاف بڑی تعداد میں شکایات موصول ہوئیں، تاہم ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
پیمرا نے درخواست گزاروں کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا، جو آن لائن مواد کی نگرانی کرتی ہے۔
لازوال عشق کے پاکستان میں یوٹیوب پر بند ہونے سے متعلق پی ٹی اے سے موقف جاننے کی کوشش کا بھی تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں یوٹیوب سے کوئی پروگرام ہٹایا گیا ہو۔ گزشتہ برس ڈرامے ’برزخ‘ کو ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے الزام پر ہٹا دیا گیا تھا۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل پاکستان میں لازوال عشق ریئلٹی شو یوٹیوب پر یوٹیوب سے
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-03-3
پاکستان میں کرپشن ہی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے، جو ریاستی اداروں، معیشت اور عوامی اعتماد، تینوں کو بیک وقت کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان عالمی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف، کے پاس جاتا ہے تو قرض کے ساتھ ایسی شرائط بھی آتی ہیں جو محض مالی نظم و ضبط تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ براہِ راست گورننس اور کرپشن کے نظامی ڈھانچے پر بات ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کا دوسرا جائزہ اور اس کے تحت تجویز کی گئی نئی شرائط دراصل اسی تلخ حقیقت کی عکاسی ہیں کہ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کی جڑیں بدانتظامی اور کرپشن میں پیوست ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شائع کی گئی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں ریاستی اداروں کی وہ کمزوریاں نمایاں کی گئی ہیں جن پر برسوں سے پردہ ڈالا جاتا رہا۔ اس رپورٹ میں قانونی عملداری کی کمزوری، ادارہ جاتی احتساب کا فقدان، اختیارات کے ناجائز استعمال اور شفافیت کی کمی کو بنیادی مسائل قرار دیا گیا ہے۔ یہ محض نشاندہی نہیں بلکہ ایک تشخیص ہے، جس کے بعد علاج ناگزیر ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی سب سے اہم شرط یہی تھی کہ حکومت اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لائے اور اس کی روشنی میں ایک جامع، قابل ِ عمل اور شفاف ایکشن پلان ترتیب دے۔ اگرچہ حکومت نے تاخیر کے بعد رپورٹ شائع کر دی، مگر ایکشن پلان کا نہ بن پانا اس بات کی علامت ہے کہ کرپشن کے خلاف سنجیدہ اصلاحات اب بھی سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہی تاخیر آئی ایم ایف کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے، جو خود اصلاح کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ نئی شرائط میں اعلیٰ سطحی وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات شائع کرنے کی تجویز ایک غیر معمولی مگر ناگزیر قدم ہے۔ اگر واقعی شفافیت مقصود ہے تو اثاثوں کی عوامی دستیابی، بینکوں کو معلومات تک رسائی اور آزادانہ جانچ پڑتال وہ اقدامات ہیں جن سے کرپشن کی جڑوں پر ضرب لگ سکتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اقدامات عملی طور پر نافذ ہو پائیں گے یا ماضی کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائیں گے؟ آئی ایم ایف کی جانب سے ’ہائی رسک‘ قرار دیے گئے دس اداروں کے لیے ایکشن پلان کی ذمے داری نیب کو سونپنا بھی ایک حساس فیصلہ ہے۔ نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ، انتخابی دباؤ اور یکطرفہ احتساب کے الزامات کی زد میں رہا ہے۔ ایسے میں نیب کو مرکزی کردار دینا تب ہی مؤثر ہو سکتا ہے جب اسے واقعی خودمختار، پیشہ ور اور غیر جانبدار بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر، احتساب کا عمل مزید متنازع ہو کر کرپشن کے خلاف جدوجہد کو کمزور کر دے گا۔ ان اصلاحات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز، خاص طور پر کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ، ایک نیا سماجی و معاشی سوال کھڑا کرتی ہیں۔ ایک طرف کرپشن کم کرنے اور اشیائے ضروریہ کی منڈیوں میں رکاوٹیں ختم کرنے سے عوام کو ریلیف ملنے کی امید دلائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر زرعی معیشت کو مزید دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔ اگر کرپشن کا اصل بوجھ اشرافیہ اور طاقتور طبقات پر ڈالنے کے بجائے بالواسطہ طور پر عام شہری اور کسان برداشت کریں، تو ایسی اصلاحات عوامی قبولیت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آئی ایم ایف کیا شرائط عائد کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان خود کب تک بیرونی دباؤ کے تحت اصلاحات کرتا رہے گا؟ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ وہی ہوتی ہے جو اندرونی سیاسی عزم، مضبوط اداروں اور عوامی نگرانی سے لڑی جائے۔ جب تک قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا، جب تک طاقتور احتساب سے بالاتر رہتے ہیں، اور جب تک شفافیت کو قومی قدر نہیں بنایا جاتا، کرپشن کی جڑیں مضبوط ہی رہیں گی۔ گو کہ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، لیکن ان باتوں پر اگر سنجیدگی سے عمل ہو تو پاکستان ایک بہتر، شفاف اور منصفانہ نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر یہ اصلاحات بھی محض رسمی ثابت ہوئیں تو معیشت کے ساتھ ساتھ ریاستی ساکھ کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ اب فیصلہ پاکستان کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ لڑنا چاہتے ہیں یا ہر چند سال بعد ایک نئے قرض اور نئی شرائط کے ساتھ اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔