آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-03-3
پاکستان میں کرپشن ہی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے، جو ریاستی اداروں، معیشت اور عوامی اعتماد، تینوں کو بیک وقت کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان عالمی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف، کے پاس جاتا ہے تو قرض کے ساتھ ایسی شرائط بھی آتی ہیں جو محض مالی نظم و ضبط تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ براہِ راست گورننس اور کرپشن کے نظامی ڈھانچے پر بات ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کا دوسرا جائزہ اور اس کے تحت تجویز کی گئی نئی شرائط دراصل اسی تلخ حقیقت کی عکاسی ہیں کہ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کی جڑیں بدانتظامی اور کرپشن میں پیوست ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شائع کی گئی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں ریاستی اداروں کی وہ کمزوریاں نمایاں کی گئی ہیں جن پر برسوں سے پردہ ڈالا جاتا رہا۔ اس رپورٹ میں قانونی عملداری کی کمزوری، ادارہ جاتی احتساب کا فقدان، اختیارات کے ناجائز استعمال اور شفافیت کی کمی کو بنیادی مسائل قرار دیا گیا ہے۔ یہ محض نشاندہی نہیں بلکہ ایک تشخیص ہے، جس کے بعد علاج ناگزیر ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی سب سے اہم شرط یہی تھی کہ حکومت اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لائے اور اس کی روشنی میں ایک جامع، قابل ِ عمل اور شفاف ایکشن پلان ترتیب دے۔ اگرچہ حکومت نے تاخیر کے بعد رپورٹ شائع کر دی، مگر ایکشن پلان کا نہ بن پانا اس بات کی علامت ہے کہ کرپشن کے خلاف سنجیدہ اصلاحات اب بھی سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہی تاخیر آئی ایم ایف کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے، جو خود اصلاح کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ نئی شرائط میں اعلیٰ سطحی وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات شائع کرنے کی تجویز ایک غیر معمولی مگر ناگزیر قدم ہے۔ اگر واقعی شفافیت مقصود ہے تو اثاثوں کی عوامی دستیابی، بینکوں کو معلومات تک رسائی اور آزادانہ جانچ پڑتال وہ اقدامات ہیں جن سے کرپشن کی جڑوں پر ضرب لگ سکتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اقدامات عملی طور پر نافذ ہو پائیں گے یا ماضی کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائیں گے؟ آئی ایم ایف کی جانب سے ’ہائی رسک‘ قرار دیے گئے دس اداروں کے لیے ایکشن پلان کی ذمے داری نیب کو سونپنا بھی ایک حساس فیصلہ ہے۔ نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ، انتخابی دباؤ اور یکطرفہ احتساب کے الزامات کی زد میں رہا ہے۔ ایسے میں نیب کو مرکزی کردار دینا تب ہی مؤثر ہو سکتا ہے جب اسے واقعی خودمختار، پیشہ ور اور غیر جانبدار بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر، احتساب کا عمل مزید متنازع ہو کر کرپشن کے خلاف جدوجہد کو کمزور کر دے گا۔ ان اصلاحات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز، خاص طور پر کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ، ایک نیا سماجی و معاشی سوال کھڑا کرتی ہیں۔ ایک طرف کرپشن کم کرنے اور اشیائے ضروریہ کی منڈیوں میں رکاوٹیں ختم کرنے سے عوام کو ریلیف ملنے کی امید دلائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر زرعی معیشت کو مزید دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔ اگر کرپشن کا اصل بوجھ اشرافیہ اور طاقتور طبقات پر ڈالنے کے بجائے بالواسطہ طور پر عام شہری اور کسان برداشت کریں، تو ایسی اصلاحات عوامی قبولیت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آئی ایم ایف کیا شرائط عائد کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان خود کب تک بیرونی دباؤ کے تحت اصلاحات کرتا رہے گا؟ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ وہی ہوتی ہے جو اندرونی سیاسی عزم، مضبوط اداروں اور عوامی نگرانی سے لڑی جائے۔ جب تک قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا، جب تک طاقتور احتساب سے بالاتر رہتے ہیں، اور جب تک شفافیت کو قومی قدر نہیں بنایا جاتا، کرپشن کی جڑیں مضبوط ہی رہیں گی۔ گو کہ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، لیکن ان باتوں پر اگر سنجیدگی سے عمل ہو تو پاکستان ایک بہتر، شفاف اور منصفانہ نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر یہ اصلاحات بھی محض رسمی ثابت ہوئیں تو معیشت کے ساتھ ساتھ ریاستی ساکھ کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ اب فیصلہ پاکستان کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ لڑنا چاہتے ہیں یا ہر چند سال بعد ایک نئے قرض اور نئی شرائط کے ساتھ اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کی کرپشن کے خلاف کے ساتھ رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکہ کا ویزا شرائط مزید سخت کرنے کا فیصلہ ، درخواست گزاروں کی گزشتہ 5 سال کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی مکمل جانچ کی جائے گی
نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن )ٹرمپ انتظامیہ نے ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کیلئے سخت شرائط متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کے تحت درخواست گزاروں کی گزشتہ 5 سال کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی مکمل جانچ کی جائے گی۔
امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے اس فیصلے کا نوٹس فیڈرل رجسٹر میں شائع کردیا ہے، جسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز یہ جانچ کرے گی کہ آیا درخواست دہندگان نے گزشتہ برسوں میں امریکا مخالف، یہود مخالف یا دہشت گردی سے متعلق کوئی مواد شیئر یا ترویج تو نہیں کی۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کب سے شروع ہوگا۔
بھارت کے بغیر پاکستان کے ساتھ ’کسی اتحاد‘ میں شمولیت ممکن ہے: بنگلہ دیش
امریکی عوام کو 60 روز کے اندر اس نئے اقدام پر اپنی رائے دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق امریکا میں داخلے کے خواہش مند افراد سے اہل خانہ کے ای میل ایڈریس، فون نمبر اور دیگر ذاتی معلومات بھی طلب کی جائیں گی۔
اس سے قبل محکمہ خارجہ نے سیاحوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کو ’پبلک‘ کریں، جبکہ اگست میں ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ ویزا اور گرین کارڈ کیلئے درخواست دینے والوں کی سوشل میڈیا تاریخ کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس اقدام کے بعد طلبہ، سیاحوں اور دیگر وزیٹرز کی امریکا مخالف سوشل میڈیا سرگرمیاں ویزا مسترد ہونے کا سبب بن سکتی ہیں، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکام اب سیاسی یا نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر بھی ویزا مسترد کرسکیں گے۔
سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی ، ڈالر بھی سستا ہو گیا
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی 19 ممالک کے شہریوں کیلئے امریکا کے دروازے بند کرچکی ہے اور اس دائرے کو 30 ممالک تک بڑھانے پر غور کیا جارہا ہے۔ حیران کن طور پر یہ نیا اقدام برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک پر بھی نافذ ہوگا، جنہیں اب تک ویزا چھوٹ حاصل تھی۔
مزید :