WE News:
2025-11-05@15:59:15 GMT

پاکستان میں ججوں کے تبادلوں کی ضرورت کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

پاکستان میں ججوں کے تبادلوں کی ضرورت کیوں؟

ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ججوں کے تبادلے اور تقرری کا منظم نظام عدالتی شفافیت اور غیر جانبداری کے لیے ناگزیر ہے۔

ان کے مطابق جب کوئی جج ایک ہی ضلع میں طویل عرصہ خدمات انجام دیتا ہے تو وہ مقامی وکلا، پولیس اور بااثر طبقوں سے غیر رسمی تعلقات قائم کر لیتا ہے، جس سے عدالتی غیر جانبداری متاثر ہوتی ہے اور عوامی اعتماد میں کمی آتی ہے۔ باقاعدہ تبادلے نئی سوچ، تازگی اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہی علاقے میں طویل عرصہ تعیناتی سے پسند و ناپسند یا جانبداری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً تبادلوں سے ان تعلقات کے اثرات کم کیے جا سکتے ہیں، جس سے شفافیت اور احتساب مضبوط ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق

جب تبادلے میرٹ پر اور غیر سیاسی بنیادوں پر ہوں تو عدالتی نظام میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، اور ترقی و تعیناتی سفارش کے بجائے قابلیت اور دیانت پر مبنی ہوتی ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں یہ نظام کامیابی سے رائج ہے۔ فرانس اور جرمنی میں عدالتی کونسلیں خود ججوں کے تبادلے اور ترقی کا نظام چلاتی ہیں۔

جنوبی کوریا میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہر چند سال بعد ججوں کی تبدیلی کی جاتی ہے، جبکہ جاپان میں ہر 3 تا 5 سال بعد ججوں کو مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی نچلی عدلیہ کے ججوں کے تبادلے عام طور پر ہر 2 تا 3 سال بعد کیے جاتے ہیں، اور برطانیہ میں ’سرکٹ ججز‘ مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیتے ہیں تاکہ مقامی اثر سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:کسی کو 27ویں آئینی ترمیم پر حیرانی اور پریشانی نہیں ہونی چاہیے، ایم کیو ایم پاکستان

اسی طرح ملیشیا، کینیا، نائیجیریا اور سری لنکا میں عدالتی کمیشن یا سپریم کورٹ ججوں کی باقاعدہ تبدیلی لازمی قرار دیتی ہے تاکہ مقامی دباؤ، کرپشن اور جانبداری سے بچاؤ ممکن ہو۔

ماہرین کے مطابق عدالتی آزادی کا مطلب صرف حکومت کے دباؤ سے آزاد ہونا نہیں بلکہ مقامی اثر و رسوخ سے بھی آزاد رہنا ہے، اور یہی ججوں کے میرٹ پر مبنی تبادلوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27 ویں ترمیم بنگلہ دیش جاپان ججز تبادلے کوریا ماہر قانون ملیشیا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 27 ویں ترمیم بنگلہ دیش جاپان ججز تبادلے کوریا ماہر قانون ملیشیا ججوں کے

پڑھیں:

حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔

معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔

  غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔

کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔

جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔

مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔

کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔

سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔

صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت ہے: امیرِ قطر
  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت قرار: امیرِ قطر
  • سعودی عرب میں یورپی سینما کا میلہ، ثقافتی تبادلے کا نیا باب
  •  گوگل کی مقامی موجودگی اسے پاکستان کے اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کے قریب لائے گی:نائب وزیر اعطم
  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
  • ایم کیو ایم نے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کیلئے آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کرادی
  • کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد