data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بوسنیا و ہرزیگووینا کے سرب اکثریتی خطے  ریپبلکا سرپسکا  کے سابق صدر میلوراڈ ڈوڈک پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں، ڈوڈک کو رواں ماہ امریکی حمایت یافتہ ڈیٹن امن معاہدے کی خلاف ورزی پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے بین الاقوامی حلقوں میں شدید بحث چھیڑ دی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق امریکی محکمہ خزانہ نے ڈوڈک اور ان کے قریبی ساتھیوں، اہل خانہ اور منسلک کمپنیوں پر عائد پابندیاں ختم کرنے کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی،  امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ریپبلکا سرپسکا کی نیشنل اسمبلی نے ملک میں  استحکام کے فروغ کے لیے حالیہ ہفتوں میں چند مثبت اقدامات  کیے۔

دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ بلیگوئیوِچ کی کمپنی RRB Strategies LLC نے ریپبلکا سرپسکا حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت وہ امریکی نمائندوں کو  سرب رہنماؤں کے خلاف جاری سیاسی انتقام کو روکنے  اور پابندیوں کے خاتمے  کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرے گی، ایک اور امریکی لابی فرم، مارک زیل ایسوسی ایٹس، نے بھی ایک ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت اسی مقصد کے لیے خدمات فراہم کیں۔

ڈوڈک نے پابندیاں ختم ہونے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام  اوباما اور بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ریپبلکا سرپسکا پر ڈھائے گئے بڑے ظلم کا ازالہ ہےحالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی پر 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ڈیٹن معاہدے کی خلاف ورزی پر پابندیاں لگائی تھیں، جنہیں بائیڈن حکومت نے 2022 اور 2025 میں مزید سخت کیا۔

ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ ایک خطرناک نظیر قائم کر سکتا ہے کہ اگر کسی رہنما کے پاس درست لابی یا روابط ہوں تو وہ پابندیوں سے بچ نکل سکتا ہے، کنگز کالج لندن کے ماہر امورِ بلقان، اینڈی ہاکساج کے مطابق، یہ اقدام ڈیٹن امن معاہدے کی 30ویں سالگرہ سے صرف تین ہفتے قبل سامنے آیا ہے جو ایک مایوس کن پیغام ہے۔

خیال رہے کہ میلوراڈ ڈوڈک پر الزام ہے کہ انہوں نے بوسنیا کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی، یورپی انضمام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور روسی صدر پیوٹن سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ وہ ماضی میں کئی بار یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ سرب اکثریتی علاقے کو بوسنیا سے الگ کر کے سربیا کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پابندیاں ختم

پڑھیں:

ٹرمپ دور ایک بار اور: کیا امریکی صدر تیسری مرتبہ بھی صدر بن سکتے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعتراف کیا کہ امریکی آئین کے تحت وہ تیسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکیوں کو جاگنا ہوگا، ٹرمپ تیسری مدت کے لیے سنجیدہ ہیں، کیلیفورنیا کے گورنر کا انتباہ

صدر ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر آپ آئین پڑھیں تو یہ بالکل واضح ہے کہ مجھے اجازت نہیں ہے کہ میں دوبارہ الیکشن لڑوں۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ میری عوامی مقبولیت اپنے عروج پر ہے میں ایک بار پھر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔

ان کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے انکشاف کیا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے تیسری مدت کے امکان پر بات کی تھی۔

تاہم مائیک جانسن نے کہا کہ آئین کی 22ویں ترمیم واضح طور پر اس کی اجازت نہیں دیتی۔

مزید پڑھیے:تیسری بار صدر بننا پسند کرونگا،امریکی آئین میں اجازت نہ ہونے کے باوجود ٹرمپ کی تیسری مدت کی خواہش

صدر ٹرمپ نے ماضی میں کہا تھا کہ انہیں 8 سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کا حق ملنا چاہیے کیونکہ ان کی پہلی مدت میں انہیں ناانصافی اور مواخذے کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی آئین کے مطابق کوئی بھی صدر 2 سے زیادہ مدت کے لیے الیکشن نہیں لڑ سکتا۔

امریکی تاریخ میں صرف فرینکلن ڈی روزویلٹ ایسے صدر تھے جنہوں نے سنہ 1933 سے سنہ 1945 تک 4 بار یہ عہدہ سنبھالا تھا۔

ان کی طویل صدارت کے بعد آئین میں 22ویں ترمیم شامل کی گئی جس کے تحت کسی بھی صدر کو 2 سے زیادہ مدتوں کے لیے منتخب ہونے سے روکا گیا۔

یونیورسٹی آف شکاگو کے ماہرِ آئین پروفیسر ہیری کیلون کے مطابق یہ ترمیم بالکل واضح ہے اور اس میں کسی قسم کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔

کیا آئین میں تبدیلی ہوجائے گی؟

پروفیسر ہیری کیلون نے وضاحت کی کہ آئین میں ترمیم کرنا ایک طویل اور مشکل عمل ہے جس کے لیے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں 2 تہائی اکثریت اور 75 فیصد امریکی ریاستوں کی توثیق درکار ہوتی ہے۔

مائیک جانسن نے کہا کہ ’آئین میں ترمیم کا عمل کم از کم 10 سال لیتا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ صدر تیسری مدت کے لیے راستہ نکال سکیں۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کو تیسری بار صدر بنانے کے لیے تیاریاں شروع، آئینی ترمیم پیش

دوسری جانب ٹرمپ کے حامیوں نے اس خیال کو مہماتی نعرے میں بدل دیا ہے۔ ٹرمپ 2028 کی کیپس، ٹی شرٹس اور دیگر اشیا ان کی سرکاری اسٹور پر فروخت ہو رہی ہیں۔ ٹرمپ نے خود بھی یہ کیپ اوول آفس میں دکھائی ہے۔

یہ بحث اس وقت تیز ہوئی جب سابق مشیر اسٹیو بینن نے کہا کہ عوام کو تیسری مدت کے تصور کے ساتھ خود کو تیار کر لینا چاہیے۔

انہوں نے عندیہ دیا کہ آئینی رکاوٹوں سے نمٹنے کے کئی راستے ہیں جنہیں وقت آنے پر واضح کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید الیکشن لڑنے سے انکار، اپنا جانشین بھی بتا دیا

سیاسی مبصرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے بیانات ان کی صدارتی طاقت بڑھانے کے رجحان کا تسلسل ہیں جیسا کہ انہوں نے ماضی میں ایگزیکٹو آرڈرز اور ہنگامی اختیارات کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹرمپ کی تیسری ٹرم صدر ٹرمپ صدر ٹرمپ کی تیسری ٹرم

متعلقہ مضامین

  • استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ
  • روس پر امریکی پابندیاں، پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا خدشہ
  • چینی صدر شی ایک عظیم ملک کے عظیم رہنما ہیں، امریکی صدر
  • ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات کے اثرات آنا شروع، ٹرمپ نے چین پر عائد ٹیکس میں کمی کا اعلان کردیا
  • امریکا کی 25ریاستوں کا ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ
  • ٹرمپ دور ایک بار اور: کیا امریکی صدر تیسری مرتبہ بھی صدر بن سکتے ہیں؟
  • روس نے ایٹمی صلاحیت کے حامل پوسائیڈن سپر ٹارپیڈو کا تجربہ کرلیا، ولادیمیر پیوٹن
  • اسرائیل نے غزہ پر حملوں سے قبل امریکی انتظامیہ کو آگاہ کردیا تھا، اسرائیلی میڈیا
  • چلتی پرواز میں بھارتی شہری کا دو نوجوانوں پر حملہ، فرد جرم عائد کردی گئی