data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
موتہ (میم کو پیش اور واو ساکن) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کا نام ہے جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔
 یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ وقوع جمادی الاولیٰ 8ھ مطابق اگست یا ستمبر 629ء ہے۔
معرکے کا سبب
 اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسولؐ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کر لیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن مار دی۔
 یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپؐ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپ نے اس علاقے پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا (زاد المعاد، فتح الباری)۔ اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے سوا کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہو سکا تھا۔
رسولؐ کی وصیت
 رسولؐ نے اس لشکر کا سپہ سالار سیدنا زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔ اور فرمایا کہ اگر زید قتل کر دیے جائیں تو جعفر، اور جعفر قتل کر دیے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے (صحیح بخاری)۔
اسلامی لشکر کی پیش رفت
 اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصرِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم و جذام، بلقین و بہرا اور بلی (قبائلِ عرب) کے مزید ایک لاکھ افراد بھی جمع ہو گئے ہیں۔
معان میں مجلس شوریٰ
 مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہو گئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذرا سا لشکر دو لاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکرا جائے یا کیا کرے؟ مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دو راتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزار دیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسولؐ کو لکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔
 لیکن سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرما دیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترا رہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھیے! ہمیں دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہو کر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پا گئی۔
اسلامی لشکر کی پیش قدمی
 غرض اسلامی لشکر نے معان میں دو راتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام مَشَارِف تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن مزید قریب آگیا اور مسلمان موتہ کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہوگئے۔ پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی۔ مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ۔
سپہ سالاروں کی شہادت
 اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت سخت لڑائی شروع ہو گئی۔ تین ہزار کی نفری دو لاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ عجیب وغریب معرکہ تھا، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن جب ایمان کی بادِ بہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔
 سب سے پہلے رسولؐ کے چہیتے سیدنا زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے سوا کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ لڑتے رہے، لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہو کر زمین پر آ رہے۔
 اس کے بعد سیدنا جعفرؓ کی باری تھی۔ انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کر دی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ و سیاہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک دشمن کی ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دو بازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دو بازوؤں والا)
 اس طرح کی شجاعت و بسالت سے بھرپور جنگ کے بعد جب سیدنا جعفرؓ بھی شہید کر دیے گئے تو اب عبداللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلے کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہوئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کرلو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں
 اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا: مسلمانو! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو، صحابہ نے کہا: آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا: میں یہ کام نہیـں کر سکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا (صحیح بخاری)۔
 ادھر رسولؐ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا، اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا، وہ بھی شہید کر دیے گئے، پھر ابنِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کر دیے گئے- اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں- یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا کی (ایضا)۔
خاتمہ جنگ
 انتہائی شجاعت و بسالت اور زبردست جاں بازی و جاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
 روایات میں بڑا اختلاف ہے کہ اس معرکے کا آخری انجام کیا ہوا۔ تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حالیہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز خالد بن ولیدؓ دن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جس کے ذریعے رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹا لیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کر دیا، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہو گا۔
 چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کر دی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن) کو ساقہ (پچھلی لائن) اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکر کا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہو چکی تو خالد بن ولیدؓ نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحرا کی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقے میں واپس چلا گیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اور سلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آ گئے (فتح الباری، زاد المعاد)
فریقین کے مقتولین
 اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہو سکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب تنہا خالدؓ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہو گی۔
اس معرکے کا اثر
 اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خود کشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دو لاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آ جانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد و منصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِ پیکار رہتے تھے، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ چنانچہ بنو سلیم، اشجع، غطفان، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔
 یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی، جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شہید کر دیے گئے اللہ بن رواحہ خالد بن ولید مسلمانوں کو اسلامی لشکر اس کے بعد تین ہزار معرکے کا انہوں نے ہاتھ میں اس معرکے جھنڈا ا اللہ کی کے ساتھ یہاں تک لیا اور لشکر کی نے لیا کے لیے کی طرف اور اس ہو گئے اور یہ
پڑھیں:
معرکۂ موتہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
موتہ (میم کو پیش اور واو ساکن) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کا نام ہے جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔
 یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ وقوع جمادی الاولیٰ 8ھ مطابق اگست یا ستمبر 629ء ہے۔
معرکے کا سبب
 اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسولؐ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کر لیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن مار دی۔
 یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپؐ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپ نے اس علاقے پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا (زاد المعاد، فتح الباری)۔ اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے سوا کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہو سکا تھا۔
رسولؐ کی وصیت
 رسولؐ نے اس لشکر کا سپہ سالار سیدنا زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔ اور فرمایا کہ اگر زید قتل کر دیے جائیں تو جعفر، اور جعفر قتل کر دیے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے (صحیح بخاری)۔
اسلامی لشکر کی پیش رفت
 اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصرِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم و جذام، بلقین و بہرا اور بلی (قبائلِ عرب) کے مزید ایک لاکھ افراد بھی جمع ہو گئے ہیں۔
معان میں مجلس شوریٰ
 مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہو گئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذرا سا لشکر دو لاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکرا جائے یا کیا کرے؟ مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دو راتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزار دیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسولؐ کو لکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔
 لیکن سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرما دیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترا رہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھیے! ہمیں دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہو کر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پا گئی۔
اسلامی لشکر کی پیش قدمی
 غرض اسلامی لشکر نے معان میں دو راتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام مَشَارِف تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن مزید قریب آگیا اور مسلمان موتہ کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہوگئے۔ پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی۔ مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ۔
سپہ سالاروں کی شہادت
 اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت سخت لڑائی شروع ہو گئی۔ تین ہزار کی نفری دو لاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ عجیب وغریب معرکہ تھا، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن جب ایمان کی بادِ بہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔
 سب سے پہلے رسولؐ کے چہیتے سیدنا زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے سوا کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ لڑتے رہے، لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہو کر زمین پر آ رہے۔
 اس کے بعد سیدنا جعفرؓ کی باری تھی۔ انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کر دی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ و سیاہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک دشمن کی ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دو بازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دو بازوؤں والا)
 اس طرح کی شجاعت و بسالت سے بھرپور جنگ کے بعد جب سیدنا جعفرؓ بھی شہید کر دیے گئے تو اب عبداللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلے کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہوئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کرلو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں
 اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا: مسلمانو! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو، صحابہ نے کہا: آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا: میں یہ کام نہیـں کر سکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا (صحیح بخاری)۔
 ادھر رسولؐ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا، اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا، وہ بھی شہید کر دیے گئے، پھر ابنِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کر دیے گئے- اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں- یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا کی (ایضا)۔
خاتمہ جنگ
 انتہائی شجاعت و بسالت اور زبردست جاں بازی و جاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
 روایات میں بڑا اختلاف ہے کہ اس معرکے کا آخری انجام کیا ہوا۔ تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حالیہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز خالد بن ولیدؓ دن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جس کے ذریعے رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹا لیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کر دیا، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہو گا۔
 چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کر دی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن) کو ساقہ (پچھلی لائن) اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکر کا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہو چکی تو خالد بن ولیدؓ نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحرا کی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقے میں واپس چلا گیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اور سلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آ گئے (فتح الباری، زاد المعاد)
فریقین کے مقتولین
 اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہو سکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب تنہا خالدؓ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہو گی۔
اس معرکے کا اثر
 اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خود کشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دو لاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آ جانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد و منصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِ پیکار رہتے تھے، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ چنانچہ بنو سلیم، اشجع، غطفان، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔
 یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی، جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
 اسلام آباد ہائیکورٹ: بانی پی ٹی آئی کا ایکس اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
اسلام آباد ہائیکورٹ: بانی پی ٹی آئی کا ایکس اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست سماعت کیلیے مقرر