پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج استنبول میں ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج استنبول میں ہوگا WhatsAppFacebookTwitter 0 25 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کا دوسرا دور آج استبول میں ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے سرحد پر ایک ہفتے تک جاری شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے پہلے دور میں دونوں ممالک نے آنے والے دنوں میں فالو اپ ملاقاتیں کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ جنگ بندی کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے اور اس کے نفاذ کی قابلِ اعتماد اور پائیدار نگرانی کی جا سکے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج اسنتبول میں ہوگا۔
بیان میں کہا گیا کہ افغانستان سے کشیدگی نہیں چاہتے لیکن افغان طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ عالمی برادری سے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، فتنۃ الہندوستان اور سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن لیں۔
اس سے قبل، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی کے لیے قطر میں مذاکرات 18 اور 19 اکتوبر کو منعقد ہوئے تھے جس میں دونوں ممالک نے اپنے اپنے تحفظات پیش کئے تھے۔
علاوہ ازیں، ایک انٹریو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان، ترکیہ اور قطر کی جانب سے دستخط کردہ معاہدے میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ کوئی سرحدی دراندازی نہیں ہوگی، اور جب تک اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جنگ بندی نافذ العمل رہے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان سے طالبان کی ’ملی بھگت‘ سے پاکستان پر حملے کرتی رہی ہے، تاہم کابل پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے کا بنیادی مقصد ’ دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ’ ہے، دہشت گردی کئی برسوں سے پاک-افغان سرحدی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل متنازع سرحد پر زمینی لڑائی اور پاکستانی فضائی حملے اس وقت شروع ہوئے تھے، جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں پر قابو پائے جو مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے حملے کرتے ہیں۔
بعد ازاں، 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغانستان سے طالبان حکومت کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کی تھی، جس پر پاک فضائیہ نے منہ توڑ جواب دیا۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے افغان علاقوں کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند میں بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں جب کہ جارحیت کا مظاہرہ کرنے والی کئی افغان چوکیوں کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں افغان طالبان مارے گئے۔
ناکامی اور پسپائی پر افغان طالبان حکومت نے پاکستان سے فوری جنگ بندی کی استدعا کی تھی جس پر پاکستان نے 15 اکتوبر کو 48 گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ۔
طالبان حکومت نے ایک بار پھر جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کی جس پر پاکستان نے امن مذاکرات تک جنگ بندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا عالمی اعتراف، امریکی جریدے نے ’خطے کا فاتح‘ قرار دے دیا پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا عالمی اعتراف، امریکی جریدے نے ’خطے کا فاتح‘ قرار دے دیا ٹرانزٹ کھیپوں کی تقریبا 495گاڑیاں طورخم اور چمن پر سرحد پار کرنے کی منتظر ہیں، ایف بی آر ملک میں مہنگائی کی شرح مسلسل چوتھے ہفتے بھی بلند ، ہفتہ وار مہنگائی میں صفر اعشاریہ22فیصد اضافہ اسلام آباد ہائیکورٹ، مغوی ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے کی بازیابی کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت پاکستان نے مہاجرین کو سینے سے لگایا، ہندوستان ہرا نہیں سکتا، وزیراعظم آزاد کشمیر وزیراعظم نے اسلام آباد میں شاہین چوک انڈر پاس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مذاکرات کا دوسرا دور ا ج پاکستان اور افغانستان پاک افغان میں ہوگا نے والے
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد، قطر کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ "دونوں فریقوں نے فوری طور پر فائر بندی پر اتفاق کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن اور استحکام کے قیام کے لیے جامع طریقہ کارطے کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔
’اسٹمسن سینٹر‘ میں جنوبی ایشیا کے امور کی ڈائریکٹر الزبتھ تھریلیکیلڈ کا اس پیش رفت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ میں فائر بندی کے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ پُر اُمید نہیں ہوں۔ ’’موجودہ منظرنامے میں کئی فریق شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ دیگر گروہ اس بات چیت اور اس کے نتیجے میں کیے جانے والے وعدوں کا حصہ نہیں ہیں جو دوحہ میں ہوئی ہے۔
لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ خود کو افغان حکومت کے کسی معاہدے کے تابع کر لیں۔ یہ ذمے داری تو، افغان طالبان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اقدامات کریں اور ان سرگرمیوں کو روکیں۔ یہ انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ سرحد کی مکمل نگرانی بہت زیادہ مشکل ہے۔ پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کی کوششوں کے باوجود، اس قسم کی دراندازیوں کو روکنے کی صلاحیت اور افرادی قوت حاصل کرنا واقعی مشکل ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کے لیے چیلنج ہوگا کہ وہ ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھیں، بشرطیکہ ان کے ارادے اچھے ہوں، تھریلیکیلڈ نے مزید کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان ایسے مُسلح گروپوں کو قابو میں رکھیں جو پاکستان پر حملوں میں ملوث ہیں، جیسے کہ پاکستان طالبان (ٹی ٹی پی) اور دیگر۔ ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) باہمی تال میل کے ساتھ بلوچستان کے علاقوں میں سرگرم ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں رواں برس غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سال 2025 شاید سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سال بننے کے راستے پر ہے‘‘۔ تجزیہ کاروں اور سابق سفارت کاروں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ پاکستان کو طالبان کے مسئلے کا سامنا بدستور رہا ہے، اور یہ گمبھیر مسئلہ اس وقت تک تقریباً ناقابلِ حل رہے گا جب تک افغانستان سخت پوری دیانتداری کے ساتھ اقدامات نہیں کرتا۔ پاک افغان مسائل کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر سامنے آنے والے زیادہ تر تجزیوں سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ افغانستان شاید درکار سخت اقدامات پر آمادہ نہیں ہے۔
حالیہ معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ ایک تو یہ تحریری شکل میں ہے اور دوسرے یہ کہ ثالثی کرانے والے ملکوں ترکیہ اور قطر نے معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے کی ذمے داری بھی اُٹھائی ہے۔دوسری طرف اس معاہدے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کی تفصیلات تاحال اندھیرے میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی اہم سرکاری شخصیات اس معاہدے کو اپنی خواہشات کے مطابق رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔افغان وزیر دفاؑع مُلا یعقوب مجاہد نے ڈیورنڈ لائن کو فرضی قرار دیا۔
افغانستان میں طالبان حکومت زبانی تو عسکریت پسند گروہوں کی میزبانی کرنے کے الزام کی تردید کرتی ہے، لیکن شواہد اور زمینی حقائق بالکل مختلف کہانی سناتے ہیں۔ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، کے حملوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے آزاد ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو طالبان حکومت کی طرف سے مالی اعانت حاصل ہے اور اس کے جنگجو القاعدہ کی مدد سے افغانستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان، جو افغانستان سے متصل ہیں، نے اس تشدد کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے۔ اسلام آباد کے تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے مطابق، رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کم از کم 2,414 اموات ہو چکی ہیں۔
دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان سے ہونے والی سرحد پار دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گا، اور اس بات کا عملی مظاہرہ افغانستان کے اندر دہشت گروپوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے کیا جا چکا ہے۔
یوں اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ پاکستان مستقبل میں بھی ایسی کسی کارروائی کا جواب دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر کرے گا خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کی آئیڈیالوجی یوں تو افغان طالبان کے ساتھ ہم آہنگ ہے لیکن دونوں گروپوں کے مقاصد مختلف ہیں اور وہ آزادانہ طور پر کام کرنے پر بضد ہیں۔ اور یہی بات حالیہ بات چیت کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ 2001 میں جب طالبان کو امریکا کی قیادت میں نیٹو افواج نے اقتدار سے محروم کیا تو پاکستان کو طالبان کے سب سے بڑا حامی ہونے کے الزام کا سامنا تھا۔ پاکستان پر یہ الزام بھی تھا کہ اس نے طالبان کے جنگجوؤں کو اُس وقت پناہ فراہم کی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف 20 سال تک مسلح بغاوت کرتے رہے تھے۔ لیکن بعد میں تعلقات اس وقت کشیدہ ہو گئے جب پاکستان کے اندر حملوں میں اضافہ ہوا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ افغان قیادت بھارت میں کھڑے ہو کر کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہی ہے۔
ٹی ٹی پی اس وقت پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بڑے چیلنج کے طور پر دوبارہ اُبھر کر سامنے آئی ہے، کیونکہ اس نے پچھلے سال سیکیورٹی فورسز کے خلاف 600 سے زائد حملے کیے ہیں، یہ بات ’آرمڈ کانفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا‘ (ACLED) کی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو ایک آزاد این۔ جی ۔ او ہے۔ سی آر ایس ایس کے مطابق، اس سال کی پہلے تین سہ ماہیوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی کی کارروائیاں 2010 کی دہائی کے اوائل میں اپنے عروج پر تھیں۔ اس کے بعد حکومت نے مسلح گروپوں کو مذاکرات میں شامل کیا اور 2021 میں ان کے بعض مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ دی گئی۔ طالبان چاہتے تھے کہ ان کے گرفتار ارکان کو رہا کیا جائے اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ختم کر دیے جائیں۔
ان کوششوں کے نتیجے میں حملوں میں کمی آئی تھی۔ ٹی ٹی پی یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ 2018 میں قبائلی علاقے کو خیبر پختونخواہ کے ساتھ ضم کرنے کا فیصلہ بھی واپس لیا جائے تاکہ وہ ان علاقوں میں اسلامی شریعیت کی وہ صورت نافذ کر سکیں جو اُن کے خیال میں درست ہے۔
تشدد اس وقت بڑھا جب ٹی ٹی پی نے 2022 میں یکطرفہ طور پر یہ کہتے ہوئے فائر بندی کے معاہدے سے انکار کر دیا کہ حکومت علاقے میں دوبارہ آپریشنز کر رہی ہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے راستے افغان تجارتی راہداریاں بند ہیں جن کے باعث سیکڑوں مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ ایک طرح سے افغانستان پر دباؤ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو درست رکھے۔ یہ دباؤ دانشمندی کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔
قطر اور سعودی عرب اس معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنانے میں اس لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کو جو بیرونی امداد میسر ہے اس میں بڑا حصہ انھی ملکوں سے آتا ہے۔
سیاسی اعتبار سے جو سب اہم ملک ہے وہ چین ہے۔ چین افغانستان کے تجارتی مستقبل کی بڑی اُمید ہے، اس لیے پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر افغانستان پر دباو برقرار رکھنا ہو گا۔
خطے کی سیاست کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ آیا پاکستان افغانستان کو بھارت سے دور رکھنے میں کامیاب ہو پاتا ہے یا نہیں۔ بھارت کو حالیہ تصادم میں پاکستان کے ہاتھوں جو ذلت اُٹھانا پڑی ہے اُس کا حساب برابر کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ایک اور اہم چیلنج پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال بھی ہے۔ مستقبل میں سامنے آنے والے ممکنا چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اندون ملک اتحاد، یکجہتی اور یکسوئی لازم ہے، بالخصوص کے پی کے کی حکومت اور تمام سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل کرنا لازم ہے۔
افغانستان کے میڈیا میں پاک افغان ٹکراؤ کے حوالے سے جو تاثر اُبھر کر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ صرف ہارنے والے ہوتے ہیں۔ یہ منطق کہ افغانستان کو بمباری کرکے سرنڈر کرایا جائے گا، 20 سال تک امریکی قبضے کے دوران بھی کامیاب نہیں ہوئی‘‘۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔