ٹیرف تعین کے خلاف درخواست، آئینی عدالت نے نیپرا کو متعلقہ دستاویز جمع کرانے کی مہلت دیدی
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی آئینی عدالت نے نیپرا کے ٹیرف تعین کے خلاف بجلی کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا ہے جبکہ نیپرا کو متعلقہ دستاویزات جمع کرانے کے لیے مہلت دے دی گئی۔
وفاقی آئینی عدالت میں نیپرا کے ٹیرف تعین کے خلاف بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ دو رکنی بینچ کی سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں ہوئی۔
سماعت کے دوران بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹیرف تعین کے وقت نیپرا کے چیئرمین کا عہدہ خالی تھا، اس لیے اتھارٹی کا اجلاس قانونی طور پر نہیں ہو سکتا تھا۔ وکیل کے مطابق چیئرمین کی عدم موجودگی میں وائس چیئرمین اجلاس نہیں بلا سکتا، جبکہ ٹیرف آرڈر پر چیئرمین کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر چیئرمین نہیں ہوگا تو اتھارٹی کے امور کیسے چلیں گے؟ عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ نیپرا نے سماعت کب مکمل کی اور چیئرمین کی تقرری کب ہوئی۔ وکیل سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ ٹیرف تعین کی سماعت مارچ 2013 میں مکمل کی گئی جبکہ چیئرمین کی تقرری مئی 2013 میں ہوئی۔
دوران سماعت نیپرا کے وکیل نے ریکارڈ اور ضروری دستاویزات جمع کرانے کے لیے مہلت مانگی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے نیپرا کو تمام تحریری نکات اور دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت جاری کر دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹیرف تعین کے عدالت نے نیپرا کے
پڑھیں:
سات سال تک شوہر کے بارے میں معلومات نہ ملنے کی صورت میں خاتون آزاد ہو جاتی ہے: سندھ ہائیکورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ اگر کسی خاتون کے شوہر کے بارے میں سات سال تک کوئی خبر نہ ملے تو وہ قانونی طور پر آزاد ہو جاتی ہے۔
یہ ریمارکس جسٹس یوسف علی سعید کی سربراہی میں تشکیل پانے والے آئینی بینچ نے دئیے، جس میں جسٹس عبد المبین لاکھو بھی شامل تھے اور اس موقع پر ایک 14 سال سے لاپتا شہری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی گئی۔
عدالت نے اس کیس میں لاپتا شہری کی اہلیہ کو طلب کیا اور کہا کہ درخواست گزار خود آکر واضح کرے کہ کیا وہ اتنے طویل عرصے کے بعد بھی درخواست کی پیروی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل سید ندیم الحق نے عدالت کو بتایا کہ عبد الرحمان کی کلفٹن میں دوپٹوں کی دکان تھی اور 28 نومبر 2011 کو کاروباری معاملے کے سلسلے میں فون کے ذریعے مزار قائد بلایا گیا، جس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ گمشدگی اور اغوا کی ایف آئی آر 2017 میں بریگیڈ تھانے میں درج کی جا چکی ہے۔
جسٹس یوسف علی سعید نے کہا کہ مقدمے کے سلسلے میں سپریم کورٹ تک جانے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا، وکیل نے جواب دیا کہ ہر فورم پر درخواست دی گئی مگر عبد الرحمان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کے کتنے بچے ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ تین بچے ہیں اور ان کی والدہ نے بازیابی کے لیے درخواست دائر کی ہے۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ سات سال تک شوہر کے بارے میں معلومات نہ ملنے کی صورت میں خاتون کی قانونی حیثیت خود بخود آزاد قرار پاتی ہے۔
تاہم وکیل نے وضاحت کی کہ موجودہ درخواست صرف شوہر کی بازیابی کے لیے دائر کی گئی ہے، نہ کہ خاتون کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے۔
عدالت نے کہا کہ خاتون کی رائے جاننا ضروری ہے اور انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ہے تاکہ تمام متعلقہ پہلوؤں پر غور کیا جا سکے۔