اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
اسلام آباد (وقار عباسی/وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے علاوہ وفاق کو بذریعہ وزارت قانون اور صدر مملکت کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری جوڈیشل کمشن، پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرر،ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین روز میں جواب طلب کر لیا۔ گذشتہ روز میاں داؤد ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار وکیل ذاتی طور پر عدالت پیش ہوئے جبکہ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم گجر اپنے وکیل احمد حسن کے ہمراہ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت، عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ اور دیگر عدالت پیش ہوئے، درخواست گزار پھر بار اس کے بعد عدالتی معاون کو سنوں گا، درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ جج کے لیے وکیل ہونا لازم ہے،جسٹس جہانگیری جج بلکہ وکیل بننے کیلئے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے، جج پر الزام سچا لگا یا جھوٹا اب بارِ ثبوت اْن پر ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ڈگری اصل ہے، احمد حسن بھی روسٹرم پر آگئے اور کہاکہ پہلے بار کو اس کیس میں سنا جائے اس کے بعد عدالتی معاون کو سنا جائے، میں آٹھ ہزار وکلاء کا نمائندہ ہوں مجھے پہلے سنا جائے، یہ درخواست اسلام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست دائر کی ہے، دوران سماعت درخواست گزار وکیل نے اسلام آباد بار کے فریق بننے پر اعتراض عائد کر دیا، اس موقع پر اسلام آباد بار کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا جبکہ بیرسٹر ظفر اللہ دوبارہ بیٹھ گئے۔ اسلام آباد بارکے وکیل احمد حسن نے کہاکہ درخواست گزرا اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہے، اگر یہ سمجھتے ہیں کوئی ایشو ہے تو ان کو بار کونسل جانا چاہیے، وکیل کی ڈگری کا معاملہ ڈسٹرکٹ بار اور بار کونسل ہی دیکھتی ہیں، اگر درخواست گزار وکیل صاحب کو مسئلہ ہے تو بار کونسل سے رجوع کریں، جس جج کے خلاف کیس ہے وہ پہلے وکیل رہے، بعد میں جج بنے، وکالت کے بعد جسٹس جہانگیری کو جوڈیشل کمشن نے جج تعینات کیا۔ ڈگری اور دیگر معاملات کا فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے، ڈگری غلط ہو تو معاملہ عدالت نہیں، بار کونسل لے کر جانا ہوتا ہے۔ اگر کسی کو ان کی دس سالہ وکالت پر اعتراض ہے تو بار کونسل میں جائے، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے وکیل نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کیس قابلِ سماعت قرار دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیس اِس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہے۔ استدعا ہے کہ عدالت بار کونسل کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، عدالت سے استدعا ہے کہ اپنے ہی ساتھی جج کو ماتحت نہ سمجھا جائے، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن کے دلائل مکمل ہو جانے پر اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ بار کے وکیل احمد حسن نے کہاکہ اگر ہائیکورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اس طرح کارروائیاں شروع کر دے گا تو نظام عدل دھرم برہم ہو جائے گا، اسلام آباد بار کونسل کی جانب سے بھی کیس دوسرے بنچ میں منتقل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاگیاکہ آج اگر یہ نظیر قائم ہوگئی تو کل کسی کو نہیں روک سکیں گے، یونیورسٹی کچھ بھی کہے، عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی،جج کا معاملہ جوڈیشل کونسل، وکالت کا معاملہ بار کونسل دیکھے گی، یہ ہماری ہائی کورٹ ہے۔ اس کا تحفظ ضروری ہے، ممبر اسلام آباد بار کونسل راجہ علیم عباسی کے دلائل مکمل ہو جانے پر عدالتی معاون بیرسٹر ظفراللہ خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میں ذاتی رائے نہیں دوں گا، صرف قانونی نکات سامنے رکھوں گا، رِٹ درخواست پر بھارتی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ کی جانب سے کو وارنٹو رٹ کے قابل سماعت ہونے پر دلائل کے دوران مختلف اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا بھی حوالہ دیاگیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کیس قابل سماعت ہونے کی حمایت کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کراچی یونیورسٹی کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاگیا کہ یونیورسٹی رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج نے طارق محمود کو Stranger قرار دیا، یونیورسٹی یہ کہہ رہی ہے کہ طارق محمود اسلامیہ کالج کے کبھی سٹوڈنٹ ہی نہیں رہے؟، کراچی یونیورسٹی کا جواب بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا جس میں کہاگیاکہ سال1989میں طارق محمود پر ان فیئر مینز کمیٹی 3 سال کی پابندی لگا چکی تھی،کمیٹی نے نقل کرنے اور ایگزامنر کو دھمکیاں دینے کا الزام ثابت ہونے پر طارق محمود پر 3 سالہ پابندی لگائی تھی۔ یونیورسٹی سے 1989ء کے فیصلے کے تحت طارق محمود 1992ء میں دوبارہ امتحان دینے کیلئے اہل تھے، پابندی کے خلاف طالبعلم طارق محمود نے ڈگری حاصل کرنے کیلئے 1990 کا جعلی انرولمنٹ فارم استعمال کیا، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے 5 جولائی 2024ء کو بذریعہ ای میل کنٹرولر ایگزامیشن کے لیٹر کی تصدیق مانگی۔ رجسٹرار ہائیکورٹ کی ای میل کے جواب میں یونیورسٹی نے ڈگری کو غلط قرار دینے کے مراسلے کی تصدیق کی۔ پرنسپل اسلامیہ کالج نے تصدیق کی کہ طارق محمود 1984ء تا 1991ء تک کبھی کالج میں طالب علم ہی نہیں رہا، وکلاء کے دلائل مکمل ہو جانے پر عدالت نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین سے تین روز میں جواب طلب کر لیا اور سماعت ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اسلام ا باد بار کونسل اسلام ا باد ہائیکورٹ درخواست گزار وکیل کے وکیل احمد حسن عدالتی معاون ڈسٹرکٹ بار کرتے ہوئے کے خلاف ہوئے کہ بار کے
پڑھیں:
جسٹس طارق کی ڈگری تنازع کیس؛ ایچ ای سی رپورٹ و جامعہ کراچی کے جواب میں اہم انکشافات
جسٹس طارق کی ڈگری تنازع کیس؛ ایچ ای سی رپورٹ و جامعہ کراچی کے جواب میں اہم انکشافات WhatsAppFacebookTwitter 0 9 December, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس)
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری تنازع کیس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دی گئی، کراچی یونیورسٹی کا جواب بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔
ایچ ای سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں کوئی کردار نہیں، موجودہ رِٹ پٹیشن مکمل طور پر یونیورسٹی کا داخلی معاملہ ہے اور یونیورسٹی کی اپنی اتھارٹیز ڈگری جاری کرنے کی ذمہ دار ہیں، اس حوالے سے ایچ ای کا کوئی کردار نہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری کبھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے تصدیق کے لیے پیش ہی نہیں کی گئی اور ڈگری کی تصدیق سے متعلق نہ ہی کوئی درخواست زیر التوا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نہ تو ڈگری جاری کرتا ہے اور نہ ہی انہیں منظور کرتا ہے۔
ایچ ای سی کسی ایسی ڈگری کی تصدیق نہیں کر سکتا جو متعلقہ یونیورسٹی یا اعلیٰ تعلیمی ادارے کے تحت تسلیم شدہ نہ ہو، ہائر ایجوکیشن کمیشن کا اس معاملے کے حقائق یا حالات سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
جامعہ کراچی کا جواب
کراچی یونیورسٹی کے جواب میں جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کی وجوہات کا بھی ذکر موجود ہے۔
جامعہ کراچی نے جواب میں موقف اپنایا ہے کہ سال 1989 میں طارق محمود پر اَن فیئر مینز کمیٹی نے 3 سال کی پابندی لگائی، کمیٹی نے نقل کرنے اور ایگزامنر کو دھمکیاں دینے کا الزام ثابت ہونے پر 3 سالہ پابندی لگائی تھی۔
یونیورسٹی کے 1989 کے فیصلے کے تحت طارق محمود 1992 میں دوبارہ امتحان دینے کے لیے اہل تھے، پابندی کے خلاف طالبعلم طارق محمود نے ڈگری حاصل کرنے کے لیے 1990 کا جعلی انرولمنٹ فارم استعمال کیا، جس پر طالبعلم طارق محمود نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج کی جعلی مہر استعمال کی۔
کراچی یونیورسٹی نے جواب میں بتایا کہ طارق محمود کی ڈگری پر انرولمنٹ نمبر 5968/87 امتیاز احمد نامی طالبعلم کو الاٹ ہوا ہوا ہے، طارق محمود نے 1990 میں ایل ایل پارٹ 2 کے لیے بھی 7184/87 انرولمنٹ نمبر جعلسازی سے حاصل کیا۔ نام اور انرولمنٹ نمبر بدل بدل کر مارک شیٹس اور ڈگری حاصل کی گئیں۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ شہری عرفان مظہر نے 23 مئی 2024 کو طارق محمود کی ڈگری کی تصدیق کی درخواست دی، شہری کی درخواست کے ردعمل میں یونیورسٹی نے دوبارہ دونوں انرولمنٹ نمبروں کی جانچ پڑتال کی۔ کنٹرولر ایگزامنیشن نے دوہرے انرولمنٹ نمبرز کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ڈگری اور مارک شیٹس کو غلط قرار دیا۔
کراچی یونیورسٹی کے جواب میں بتایا گیا ککہ رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے 5 جولائی 2024 کو بذریعہ ای میل کنٹرولر ایگزامیشن کے لیٹر کی تصدیق مانگی، رجسٹرار ہائیکورٹ کی ای میل کے جواب میں یونیورسٹی نے ڈگری کو غلط قرار دینے کے مراسلے کی تصدیق کی۔ پرنسپل اسلامیہ کالج نے تصدیق کی کہ طارق محمود 1984 سے 1991 تک کبھی کالج میں طالب علم ہی نہیں رہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرالیکشن کمیشن فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرے، اسلام آباد آزاد گروپ کا مطالبہ الیکشن کمیشن فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرے، اسلام آباد آزاد گروپ کا مطالبہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کا اعلامیہ جاری پاکستان جلد قرضوں سے مکمل نجات حاصل کرکے معاشی طور پر خود کفیل ہوگا، وزیراعظم بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے 6ناموں کی فہرست جیل حکام کو بھجوا دی گئی قومی اسمبلی اجلاس، ایوان میں کسی رکن کے پیسے گرنے پر اسپیکرکا اعلان، 12اراکین نے ہاتھ کھڑے کر دیے عمران خان کو دی جانے والی سہولیات کے جائزے کا معاملہ ، پی ٹی آئی نے حکومت کی پیشکش قبول کرلیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم