ایم کیو ایم میں دھڑے بندی، کیا پارٹی مجبوری کے تحت متحد ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
ایم کیو ایم پاکستان کی دھڑے بندی یا مختلف گروپس کی کہانی خاصی پیچیدہ اور پرانی ہے جو کہ پارٹی کے بانی کی بیرون ملک سے لاتعلقی کے بعد زیادہ شدت اختیار کر گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار پر حملہ، ’یہ سیاست چمکانے آئے ہیں‘، شہریوں کا الزام
اصولی طور پر ایم کیو ایم پاکستان میں اتحاد کی کوششیں مرکزی دھڑے بندی پر سبقت لے چکی ہیں لیکن اندرونی طور پر اختلافات اور رسہ کشی اب بھی موجود رہتی ہے۔
اس وقت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کنوینیئر اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری اہم ترین رہنماؤں میں شامل ہیں جبکہ سابق میئر کراچی اور وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار بھی پارٹی میں اہم مقام حاصل کر چکے ہیں ایم کیو ایم مرکز بہادر آباد ایک مرکزی پارٹی ہے جو عام انتخابات اور حکومتی اتحاد کا حصہ رہی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق ایم کیو ایم کی حالیہ سرگرمیوں میں کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دینے یا نئے صوبوں کا مطالبہ شامل ہے جس کا مقصد سندھ کے شہری علاقوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی کے فیصلے سمجھ سے بالاتر، پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی قابل مذمت ہے، ایم کیو ایم
ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار دیکھنے میں آیا ہے کہ پارٹی کے اندرونی اجلاسوں، تنظیمی تبدیلیوں اور فیصلوں پر سینیئر رہنماؤں اور کارکنان کی جانب سے اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 2023 میں ایم کیو ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) اور تنظیم بحالی کمیٹی جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کرتے تھے نے مل کر دوبارہ ایک ہونے کا اعلان کیا تھا۔ وہ دراصل سندھ کے شہری علاقوں میں اپنی کمزور ہوتی سیاسی قوت کو بحال کرنے کی ایک بڑی کوشش تھی۔
ضم ہونے کے بعد مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار دونوں کو ایم کیو ایم پاکستان کے اہم عہدے دیے گئے جس سے یہ تینوں دھڑے ایک مرکزی جماعت کا حصہ بن گئے۔ تاہم اندرونی طور پر اختلافات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں اور تنظیمی ڈھانچے میں اہم عہدوں کے لیے ردو بدل اور کشمکش کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے مختلف دھڑے نہ بھی چاہیں تب بھی ان کا ساتھ رہنا مجبوری بن چکا ہے۔
جہاں تک دھڑوں کی بات ہے تو یہ اپنی طاقت دکھاتے بھی رہیں گے اور کارکنوں کے ذریعہ دباؤ بھی بڑھاتے رہیں گے تا کہ ہر دھڑا پارٹی پر اپنی گرفت قائم کر سکے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما و ممبر قومی اسمبلی حسان صابر کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم میں کوئی اختلافات نہیں ہیں نظریاتی طور پر سب اکٹھے ہیں لیکن گروپ بندیاں کون سی سیاسی جماعت میں نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ایم کیو ایم کے حوالے سے ایسا کچھ ہوتا ہے تو یو ٹیوبرز وی لاگ بنانے بیٹھ جاتے ہیں کیوں کہ انہیں ویوز ملتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟
حسان صابر کے مطابق پالیسی پر یا کچھ فیصلوں پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایم کیو ایم قیادت میں کوئی گہری خلیج ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ہونے والی پریس کانفرنس اس بات کے ثبوت ہے کہ خالد مقبول صدیقی کے ساتھ مصطفیٰ کمال سمیت پوری لیڈر شپ نظر آرہی ہے۔
حسان صابر کا کہنا ہے کہ یوٹیوبر اس پر اپنی ویوز بٹورتے رہیں لیکن ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں متحد ہے اور رہے گی، ایم کیو ایم ایک جمہوری جماعت ہے اور اس میں ہر ممبر کو اختلاف رائے رکھنے کا پورا حق بھی ہے اور موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم مشکل حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے اور ان حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم شہباز شریف سے ایم کیو ایم وفد کی ملاقات، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لوگ ہم پر تنقید کرتے ہیں جسے ہم کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم کیو ایم ایم کیو ایم پاکستان ایم کیو ایم میں اختلافات ایم کیو ایم میں دھڑے بندی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم کیو ایم ایم کیو ایم پاکستان ایم کیو ایم میں اختلافات ایم کیو ایم پاکستان ایم کیو ایم میں کہ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ فاروق ستار دھڑے بندی ہیں لیکن انہوں نے ہے اور کہا کہ
پڑھیں:
خواب اندر خواب
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ بات کہاں سے شروع کروں، کیسے شروع کروں یا کہوں بھی کہ نہ کہوں
زخم چاہت نے تری اتنے دیے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تم سے کہ خاموش رہوں
کیوں کہ ایک تو میری سمجھ دانی بہت چھوٹی ہے اوردوسری یہ بات بہت بڑی ہے اسے محاورہ میں چھوٹا منہ اوربڑی بات بھی کہتے ہیں ؎
تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی
اک خواب سادیکھا ہے تعبیر نہیں بنتی
بات واقعی ایک خواب کی ہے لیکن یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ خواب ہم نے خود بچشم خود اور بہ چشمہ خود دیکھا ہے یاکسی اور نے دیکھ کر ہمیں بزبان غیر دہان غیر اوردربیان غیر سنایا ہے ، بہرحال پیٹ پھول رہا ہے اگر اس پریشر ککر کا والو نہیں کھولا تو دھماکا ہونے کا خطرہ ہے لیکن بات’’ سیٹی ‘‘میں کرنے کی ہے ؎
بہ بانگ جنگ می گوئم آں حکایت ہا
کہ ازتہفتن آں دیگ سینہ می زد جوش
تو لیئجے سنئیے افسانہ خواب ہم سے
ہم نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان ہے ، تپتا ہوا ریگستان ہے، اس میں ایک کارواں ہے جو رواں دواں ہے لیکن اس میں ہرکوئی پریشان ہے کیوں کہ بھوک ہے، پیاس ہے ،نالاں اورتھکان سے بے جان میں خود بھی اس کاروان میں شامل ہوں ، اندر باہرسے گھائل ہوں کیوں کہ جاہل ہوں، اس لیے کہ عوام ہوں ،کالانعام ہوں ،بے نام ہوں اور ناکام ہوں ۔
ہمارے آگے گھڑسوار ہیں جن کے گھوڑے بھی شاندار ہیں، لباس بھی چمک دار ہیں اورسب کے سروں پر دستار ہیں یعنی سردار اور سالارہیں، جب کہ ہم پیچھے کارواں والے پاپیادہ ہیں افتادہ ہیں، زندہ کم اور مردے زیادہ ہیں ، پھر اچانک آگے والے گھڑسوار یعنی سردار وسالار پکارپکار اورخوشی سے سرشار ہوکر گفتارکرتے ہیں ۔
مل گیا مل گیا سبزباغ مل گیا
وہ دیکھ سامنے نظر آرہا ہے ، جلوے دکھا رہا ہے ، لہلہا رہا ہے اور ہمیں بلا رہا ہے ۔ تھوڑی دیر میں ہم سبزباغ کے سونے کے دروازے پر کھڑے تھے جس میں ہیرے موتی جڑے تھے لیکن اس میں تالے پڑے تھے جو بڑے بڑے تھے ۔ آخر کار کافی انتظار ، خرابی بسیار اورچیخ وپکار کے بعد دروازے کھل گئے لیکن یہ کیا؟ صرف گھوڑوں والے سردار سالار اورسرکار لوگ اندر جاسکتے تھے، کوئی عامی، امی، کمی کمین اگر اندر جانے کا قصد کرتا تھا تو کوئی غیبی طاقت اسے پیچھے دھکیل دیتی تھی ۔ یوں سارے سردار سرکار گھڑ سوار سبزباغ کے اندرون ہوگئے ، مشکورومامون ہوگئے اورممنون ہوگئے لیکن جو عامی شمی بیرون رہ گئے۔ وہ رونے لگے ، چلانے لگے، دہائیاں اور آنسو بہانے لگے ،اتنے میں ایک غیبی آواز آنے لگی، ہرطرف لہرانے لگی اوران خدا ماروں کو بتانے لگی، سمجھانے لگی بلکہ ڈرانے لگی ۔
ہرسماع راست ہرکس چیرنیست
طمعہ ہر مرغکے انجیر نیست
باغ کے بائیں طرف جاؤ اورپاؤ ایک اوردروازہ اوراس کے اندر جاؤ کہ وہی تمہاری جائے قیام ہے، طعام ہے اورآلام ہے ۔ ہم دوڑ کر گرتے پڑتے لڑتے جھگڑتے اس دروازے میں داخل ہوگئے، دیکھا تو ہر طرف ایک صحرا ہے، دشت وبیابان ہے جنگل نیستان ہے، ہرسو ویرانی ہی ،ویرانی عیاں ہے۔ لیکن سب سے خاردار کوڑے بردار وہ پہرے دار تھے جو طرح طرح کے لباسوں میں قطار اندر قطار تھے ،ان پہرہ داروں نے کوڑے لہرا لہرا کر ،مارمارکر ہمیں گروہوں میں تقسیم کیا۔
ایک گروہ تو وسیع وعریض کھیتوں میں کھیتی باڑی پر لگایا ، پھنسایا اورسمجھایا کہ یہاں تم خود ہی ہل کھینچو گے ، کھیت سینچو گے اور پیداوار ہوگی اسے احتیاط سے جودہی گاڑی اور بیل بن کر کچھ سبزباغ کے دروازے پر پہنچاؤ گے اورخبردار اگر اس میں کچھ خود کھاؤ گے تو سزا پاؤ گے اورمرجاؤ گے ، تمہارا کھاجا صرف سوکھی روٹی کے ساتھ لہسن، مولی اورپیاز ہے اورایک چڈی بنیان تمہارا لباس ہے ۔دوسرے گروہ کو ایک پہاڑ کے دامن میں بے شمار کنوؤں پر پہنچایا گیا ،کام پر لگایا گیا اورسمجھایا گیا کہ کس طرح تم کوان کنوؤں سے پانی کھینچنا ہے اوراس نہرمیں ڈالنا ہے جو سبزباغ کے اندر جاتی ہے ۔تیسرے گروہ کو ایک وسیع وعریض چراگاہ میں لے جایا گیا جہاں ان کاکام بے شمار جانوروں کو چرا کر ان کا دودھ دوہنا اوراس دودھ کو نہرمیں ڈالنا تھا جو سبز باغ کی طرف بہتا تھا۔
چوتھے بدنصیب گروہ کو جنگل نشین کیاگیا ، کوڑے مار مارکر اچھی طرح نرم ومہین کردیاگیا اورمشرف بہ تلقین کیاگیا کہ تمہیں اس جنگل میں رہنا ہے ، سہنا ہے اورکچھ بھی نہیں کہنا ہے، صرف کرنا یہ ہے جنگل میں پھر شہد کے چھتے توڑوگے اورشہدکو اس نہرمیں چھوڑوگے پھر شہد خود اس نہرمیں سبزباغ کی طرف بہے گا اورباغ والوں کا رہے گا۔یہاؒں بھی وہی ہدایات ، تاکیدات بلکہ تنبیہات جاری کردی گئیں کہ جو دوسرے مقامات پر جاری کی گئی تھیں ،عطاری کردی گئی تھیں اور آئین وقانون سرکاری کردی گئی تھیں کہ اگر پانی کو، دودھ کو اورشہد کو چکھا بھی تو اسے الٹا لٹکا کر اس وقت تک کوڑے مارے جائیں گے جب تک اس کا ساراکھایا پیا باہرنہیں آجائے گا۔
لیکن مجھ سے ایک دن غلطی ہوگئی نادانی ہوگئی تو یہ نافرمانی ہوگی۔ میں نے دیکھا کہ قرب وجوار میں کوئی کوڑے دار خونخوار پہرے دار نہیں ہے تو نہرسے غٹاغٹ دودھ پینے لگا کہ قیامت ٹوٹ پڑی ، میں یہ بھول گیا تھا کہ کچھ پہرے دار نادیدہ بھی ہوتے ہیں، نظر نہیں آتے لیکن ہم پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مجھے الٹا لٹکاکر کوڑے مارے جانے لگے اورپھر میں نے ایک چیخ ماری اورمرگیا لیکن چیخ کے ساتھ آنکھ کھلی تو میں تھانے میں تھا، مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ٹیکس چوری کیا ہے اورپولیس والے میرے اندر سے ٹیکس نکال رہے تھے ، اب میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا ہے کہ وہ خواب تھا جو میں نے دیکھا یا وہ زندگی تھی اورخواب یہ ہے کہ جو میں اب دیکھ رہا ہوں ۔