کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ بات کہاں سے شروع کروں، کیسے شروع کروں یا کہوں بھی کہ نہ کہوں
زخم چاہت نے تری اتنے دیے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تم سے کہ خاموش رہوں
کیوں کہ ایک تو میری سمجھ دانی بہت چھوٹی ہے اوردوسری یہ بات بہت بڑی ہے اسے محاورہ میں چھوٹا منہ اوربڑی بات بھی کہتے ہیں ؎
تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی
اک خواب سادیکھا ہے تعبیر نہیں بنتی
بات واقعی ایک خواب کی ہے لیکن یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ خواب ہم نے خود بچشم خود اور بہ چشمہ خود دیکھا ہے یاکسی اور نے دیکھ کر ہمیں بزبان غیر دہان غیر اوردربیان غیر سنایا ہے ، بہرحال پیٹ پھول رہا ہے اگر اس پریشر ککر کا والو نہیں کھولا تو دھماکا ہونے کا خطرہ ہے لیکن بات’’ سیٹی ‘‘میں کرنے کی ہے ؎
بہ بانگ جنگ می گوئم آں حکایت ہا
کہ ازتہفتن آں دیگ سینہ می زد جوش
تو لیئجے سنئیے افسانہ خواب ہم سے
ہم نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان ہے ، تپتا ہوا ریگستان ہے، اس میں ایک کارواں ہے جو رواں دواں ہے لیکن اس میں ہرکوئی پریشان ہے کیوں کہ بھوک ہے، پیاس ہے ،نالاں اورتھکان سے بے جان میں خود بھی اس کاروان میں شامل ہوں ، اندر باہرسے گھائل ہوں کیوں کہ جاہل ہوں، اس لیے کہ عوام ہوں ،کالانعام ہوں ،بے نام ہوں اور ناکام ہوں ۔
ہمارے آگے گھڑسوار ہیں جن کے گھوڑے بھی شاندار ہیں، لباس بھی چمک دار ہیں اورسب کے سروں پر دستار ہیں یعنی سردار اور سالارہیں، جب کہ ہم پیچھے کارواں والے پاپیادہ ہیں افتادہ ہیں، زندہ کم اور مردے زیادہ ہیں ، پھر اچانک آگے والے گھڑسوار یعنی سردار وسالار پکارپکار اورخوشی سے سرشار ہوکر گفتارکرتے ہیں ۔
مل گیا مل گیا سبزباغ مل گیا
وہ دیکھ سامنے نظر آرہا ہے ، جلوے دکھا رہا ہے ، لہلہا رہا ہے اور ہمیں بلا رہا ہے ۔ تھوڑی دیر میں ہم سبزباغ کے سونے کے دروازے پر کھڑے تھے جس میں ہیرے موتی جڑے تھے لیکن اس میں تالے پڑے تھے جو بڑے بڑے تھے ۔ آخر کار کافی انتظار ، خرابی بسیار اورچیخ وپکار کے بعد دروازے کھل گئے لیکن یہ کیا؟ صرف گھوڑوں والے سردار سالار اورسرکار لوگ اندر جاسکتے تھے، کوئی عامی، امی، کمی کمین اگر اندر جانے کا قصد کرتا تھا تو کوئی غیبی طاقت اسے پیچھے دھکیل دیتی تھی ۔ یوں سارے سردار سرکار گھڑ سوار سبزباغ کے اندرون ہوگئے ، مشکورومامون ہوگئے اورممنون ہوگئے لیکن جو عامی شمی بیرون رہ گئے۔ وہ رونے لگے ، چلانے لگے، دہائیاں اور آنسو بہانے لگے ،اتنے میں ایک غیبی آواز آنے لگی، ہرطرف لہرانے لگی اوران خدا ماروں کو بتانے لگی، سمجھانے لگی بلکہ ڈرانے لگی ۔
ہرسماع راست ہرکس چیرنیست
طمعہ ہر مرغکے انجیر نیست
باغ کے بائیں طرف جاؤ اورپاؤ ایک اوردروازہ اوراس کے اندر جاؤ کہ وہی تمہاری جائے قیام ہے، طعام ہے اورآلام ہے ۔ ہم دوڑ کر گرتے پڑتے لڑتے جھگڑتے اس دروازے میں داخل ہوگئے، دیکھا تو ہر طرف ایک صحرا ہے، دشت وبیابان ہے جنگل نیستان ہے، ہرسو ویرانی ہی ،ویرانی عیاں ہے۔ لیکن سب سے خاردار کوڑے بردار وہ پہرے دار تھے جو طرح طرح کے لباسوں میں قطار اندر قطار تھے ،ان پہرہ داروں نے کوڑے لہرا لہرا کر ،مارمارکر ہمیں گروہوں میں تقسیم کیا۔
ایک گروہ تو وسیع وعریض کھیتوں میں کھیتی باڑی پر لگایا ، پھنسایا اورسمجھایا کہ یہاں تم خود ہی ہل کھینچو گے ، کھیت سینچو گے اور پیداوار ہوگی اسے احتیاط سے جودہی گاڑی اور بیل بن کر کچھ سبزباغ کے دروازے پر پہنچاؤ گے اورخبردار اگر اس میں کچھ خود کھاؤ گے تو سزا پاؤ گے اورمرجاؤ گے ، تمہارا کھاجا صرف سوکھی روٹی کے ساتھ لہسن، مولی اورپیاز ہے اورایک چڈی بنیان تمہارا لباس ہے ۔دوسرے گروہ کو ایک پہاڑ کے دامن میں بے شمار کنوؤں پر پہنچایا گیا ،کام پر لگایا گیا اورسمجھایا گیا کہ کس طرح تم کوان کنوؤں سے پانی کھینچنا ہے اوراس نہرمیں ڈالنا ہے جو سبزباغ کے اندر جاتی ہے ۔تیسرے گروہ کو ایک وسیع وعریض چراگاہ میں لے جایا گیا جہاں ان کاکام بے شمار جانوروں کو چرا کر ان کا دودھ دوہنا اوراس دودھ کو نہرمیں ڈالنا تھا جو سبز باغ کی طرف بہتا تھا۔
چوتھے بدنصیب گروہ کو جنگل نشین کیاگیا ، کوڑے مار مارکر اچھی طرح نرم ومہین کردیاگیا اورمشرف بہ تلقین کیاگیا کہ تمہیں اس جنگل میں رہنا ہے ، سہنا ہے اورکچھ بھی نہیں کہنا ہے، صرف کرنا یہ ہے جنگل میں پھر شہد کے چھتے توڑوگے اورشہدکو اس نہرمیں چھوڑوگے پھر شہد خود اس نہرمیں سبزباغ کی طرف بہے گا اورباغ والوں کا رہے گا۔یہاؒں بھی وہی ہدایات ، تاکیدات بلکہ تنبیہات جاری کردی گئیں کہ جو دوسرے مقامات پر جاری کی گئی تھیں ،عطاری کردی گئی تھیں اور آئین وقانون سرکاری کردی گئی تھیں کہ اگر پانی کو، دودھ کو اورشہد کو چکھا بھی تو اسے الٹا لٹکا کر اس وقت تک کوڑے مارے جائیں گے جب تک اس کا ساراکھایا پیا باہرنہیں آجائے گا۔
لیکن مجھ سے ایک دن غلطی ہوگئی نادانی ہوگئی تو یہ نافرمانی ہوگی۔ میں نے دیکھا کہ قرب وجوار میں کوئی کوڑے دار خونخوار پہرے دار نہیں ہے تو نہرسے غٹاغٹ دودھ پینے لگا کہ قیامت ٹوٹ پڑی ، میں یہ بھول گیا تھا کہ کچھ پہرے دار نادیدہ بھی ہوتے ہیں، نظر نہیں آتے لیکن ہم پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مجھے الٹا لٹکاکر کوڑے مارے جانے لگے اورپھر میں نے ایک چیخ ماری اورمرگیا لیکن چیخ کے ساتھ آنکھ کھلی تو میں تھانے میں تھا، مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ٹیکس چوری کیا ہے اورپولیس والے میرے اندر سے ٹیکس نکال رہے تھے ، اب میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا ہے کہ وہ خواب تھا جو میں نے دیکھا یا وہ زندگی تھی اورخواب یہ ہے کہ جو میں اب دیکھ رہا ہوں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا رہا ہے نہیں ا ہے اور نے لگی گے اور
پڑھیں:
ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، شرجیل میمن
سندھ کے سینئر صوبائی وزیر ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے اور حکومت کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی مصروف شاہراہ پر گزشتہ روز سندھ ثقافتی دن کی مناسبت سے ریلی میں ہنگامہ آرائی پر شرجیل میکن نے کہا کہ کلچر ڈے منانا سب کا حق ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے، کل ہم نے سب کو کلچر ڈے پر مبارک باد بھی دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ مظالم برادشت کیے مگر کبھی اداروں کیخلاف سازش نہیں کی،
پیپلزپارٹی نے مارشل لا کا سامنا کیا، آصف زرداری کو بغیر کسی ثبوت اور سزا کے 12 سال جیل میں رکھا گیا مگر ہم نے کبھی ریڈ لائن کراس نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ آج ایک شخص ملک کے خلاف سازشیں کررہا ہے جو قابل مذمت ہیں اور اس حوالے سے ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے، بھارت ہمیشہ پاکستان کے خلاف رہا ہے اور اُس کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔