پاکستان میں ویسے تو حالات نارمل ہیں۔ ملک میں کوئی ہیجان نہیں ہے۔ سڑکیں پر امن ہیں۔ لوگ آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالات پر امن ہیں۔ سیاسی استحکام بھی ہے۔ سیاسی طور پر ریاست کو کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ پارلیمان کام کر رہی ہے۔ قانون سازی بھی ہو رہی ہے۔ آئین سازی بھی ہو رہی ہے۔ چاروں صوبائی حکومتیں بھی کام کر رہی اور مستحکم ہیں۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک مستحکم حکومت ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی ایک مستحکم حکومت ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف کی ایک مستحکم حکومت ہے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنا وزیر اعلیٰ نہائت آرام سے تبدیل کیا ہے۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس لیے ایک مستحکم حکومت ہے۔ بلوچستان میں ویسے تو اسٹبلشمنٹ کی مرضی کی حکومت ہی ہوتی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ سب کی مرضی کی حکومت ہے۔ اس لیے ایک مستحکم حکومت ہے۔
کیا پنجاب میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلنے کے امکانات ہیں۔ مجھے نہیں لگتا۔ تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پنجاب سیاسی طور پر پر امن نظر آرہا ہے۔ پنجاب کے عوام کسی بھی سیاسی عدم استحکام کے حق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لوگ ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ سندھ میں بھی امن ہے۔ کراچی میں بالخصوص کسی بھی سیاسی جماعت میں تحریک چلانے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ تحریک انصاف بھی کراچی میں احتجاج کرنے میں ناکام ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کراچی سیاسی طور پر خاموش ہے۔ اس وقت کوئی سیاسی جماعت کراچی کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اس لیے کراچی جہاں سے احتجاج جنم لیتا تھا۔ پر امن ہے۔ وہاں کرائم ہے۔ لیکن کرائم کم بھی ہوا ہے۔ لیکن جب لاہور اور کراچی کا تقابلی جائزہ ہوتا ہے۔ تو لاہور آگے نظرآتا ہے۔ اس حوالے سے کراچی کے لوگ پریشان ضرور ہیں۔ وہ کراچی میں ترقی چاہتے ہیں۔مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لاہور سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کراچی میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلا سکے۔
کے پی میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ وہاں کے لوگ امن چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی طور پر کے پی کسی سیاسی تحریک کے لیے تیار نہیں ہے۔ حال ہی میں 7دسمبر کو پشاور میں ہونے والا جلسہ بھی کوئی بہت بڑا جلسہ نہیں تھا۔ حالانکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی وجہ دے دی تھی۔ لیکن لوگ باہر نہیں نکلے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو یہ پتہ چل گیا ہوگا کہ لوگ فوج کے خلاف باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لوگ امن چاہتے ہیں۔ لوگ وہاں مزید بد امنی نہیں چاہتے ہیں۔
پشاور پر امن ہے۔ وہاں کوئی سیاسی تحریک نظر نہیں آرہی جن علاقوں میں دہشت گردی کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں امن ہے۔ یہ امن تحریک انصاف کی سیاست کے لیے پیغام ہے کہ لوگ کسی سیاسی جماعت کے لیے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ چند دن پہلے ایک احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ صوابی انٹر چینج پر لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ لیکن کتنے لوگ تھے، چند سو۔ بڑی تعداد میں لوگ تب بھی باہر نہیں نکلے۔ بات سمجھیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ سیاسی اجتماعات اور احتجاج کے لیے سرکاری وسائل استعمال نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی احتجاجی طاقت کافی کم ہوگئی ہے۔ اسی لیے سات دسمبر کے جلسہ میں کوئی اگلا لائحہ عمل نظر نہیں آیا ہے۔ ایک خاموشی ہے۔
بلوچستان کا بھی سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ لیکن سیاسی طورپر بلوچستان پر امن نظر آتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں دہشت گردی کی وجہ سے سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ وہاں احتجاجی تحریک کے حالات ہی نہیں ہیں۔ لیکن آپ دیکھیں بلوچستان یکجہتی کونسل جن کو دہشت گرد جماعتوں کا سیاسی ونگ کہا جاتا ہے۔ وہ بھی کوئی سیاسی احتجاج نہیں کر سکی ہیں۔ ماہ رنگ کی گرفتاری پر بھی کوئی بڑاحتجاج نہیں ہوا ہے۔
مینگل صاحب کے دھرنے میں بھی کوئی ہزاروں لوگ نہیں آئے تھے۔ حالانکہ وہ ماہ رنگ کے حق میں تھا۔ اس لیے بلوچستان میں تحریک انصاف تو شاید اپنا جود ختم کر چکی ہے۔ وہاں تحریک انصا ف کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ محمود خان اچکزئی بھی بلوچستان کی کوئی بڑی سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ اپنی سیٹ بڑی مشکل سے جیتتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں بلوچستان ان کی ہوم گراؤنڈ تھی۔ لیکن انھیں بلوچستان سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا۔ وہ فوج کے خلاف ہیں۔ لیکن انھیں کوئی عوامی حمائت حاصل نہیں۔ وہ لوگوں کو باہر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہ سارا منظر نامہ لکھنے کا مقصد اپنے ان نادان دوستوں کو بتانا ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی بحران نہیں ہے۔ عوام پر امن ہیں، کسی سیاسی جماعت کے لیے لوگ سڑکوں پر نہیں ہیں۔ کوئی ہزاروں لوگ اڈیالہ نہیں آتے۔ اس لیے یہ منطق کے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ غلط ہے۔ سیاسی عدم استحکام کب ہوتا ہے۔جب لوگ سڑکوں پر ہوں۔ احتجاج کر رہے ہوں۔ جب پارلیمان کام نہ کر رہی ہو، پارلیمان فعال نہ ہو۔ ایسا کچھ نہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی جو طوفان ہے۔ وہ پاکستان کی سڑکوں کو متاثر کرنے میں ناکام ہے۔ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں ناکام ہیں۔ ُ
ٹرینڈ کے نتیجے میں بھی چند ہزار لوگ بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی اثر نہیں۔ باہر سے شروع ہوتے ہیں۔ باہر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ شاید لوگ تفریح کے لیے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن اثر نہیں لیتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دوستوں کی رائے کہ خوف ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں پنجاب میں خوف ہے۔ کے پی کا بتائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کے پی میں بہت غصہ ہے۔ لیکن وہ غصہ کہیں نظر نہیں آیا۔
مجھے پاکستان میں اس وقت کوئی بڑی احتجاجی سیاسی تحریک چلتی نظر نہیں آرہی۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بتدریج اپنی احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کی طاقت کم کر لی ہے۔ انھوں نے طاقت کو بے جا استعمال کیا ہے۔ جس کا اب انھیں نقصان ہو رہا ہے۔ یہی حقیقت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایک مستحکم حکومت ہے کے لیے تیار نہیں احتجاجی تحریک سیاسی طور پر سیاسی جماعت تحریک انصاف کوئی سیاسی نظر نہیں ا کراچی میں چاہتے ہیں کسی سیاسی سڑکوں پر نہیں ہیں بھی کوئی کوئی بڑی میں کوئی نہیں ہے امن ہے اس لیے لیکن ا
پڑھیں:
تحریک انصاف کا پشاور میں سیاسی پاور شو جاری
پشاور:پاکستان تحریک انصاف کا حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس میں جلسہ جاری ہے جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔
جلسے سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما خطاب کریں گے۔ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کے فٹبال گراؤنڈ میں جلسے کے لیے پنڈال سج چکا ہے۔
جلسے سے تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور علامہ ناصر عباس خطاب کریں گے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجہ، اسد قیصر، جنید اکبر اور دیگر اہم رہنما بھی شرکت کریں گے۔ ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی ردعمل دیں گے۔
ٹریفک پولیس نے جلسے کے لیے روٹ پلان جاری کیا ہے اور حیات آباد جانے والے راستوں پر سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ مختلف اضلاع سے کارکنوں کی آمد جاری ہے اور جلسے میں جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔