بھیانک چوریوں کے المناک انجام
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
ملک کے سب سے بڑے شہر میں کھلے ہوئے گٹروں کا ذمے دار ڈھکن چوری کرنے والوں اور نشئی افراد کو قرار دیا جاتا ہے، جو چند روپوں کے حصول کے لیے یہ بھاری ڈھکن کسی نہ کسی طرح چرا لیتے ہیں اور محفوظ مقام پر لے جا کر یہ سیمنٹ سے بنے ڈھکن توڑ کر لوہا نکال لیتے ہیں اور کباڑی کو جا کر فروخت کر دیتے ہیں۔
کباڑی کچھ دیکھے اور پوچھے بغیر لوہا تول کر پیسے دے دیتا ہے جو حاصل کر کے ڈھکن چور اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے اس کی بلا سے جس گٹر سے اس نے لوہے کے حصول کے لیے ڈھکن چرایا ہے اس کھلے ہوئے گٹر میں کوئی معصوم بچہ گر کر ہلاک ہو سکتا ہے۔ کراچی میں تقریباً دو درجن معصوم بچے ان کھلے ہوئے گٹروں میں گر کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ دن کے وقت کوئی بچہ کھلے ہوئے گٹر میں گرے اور خوش قسمتی سے کوئی بڑا دیکھ لے اور بچے کو بچا لے مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے کیوں کہ گٹر گہرائی میں بنے ہوتے ہیں اور ان گٹروں پر سیمنٹ کے ڈھکن رکھ کر ذمے داری پوری کر لی جاتی ہے۔
شہر میں اوور ہیڈ برجز بنے ہوئے ہیں، جو لوہے کے ہوتے ہیں جن کی سیڑھیوں اور سڑک کراس کرنے والے راستے کے دونوں طرف لوہے کی گرلیں لگائی جاتی ہیں جن میں استعمال کیا گیا لوہا اتنا کمزور ہوتا ہے جسے باآسانی بازار میں چند روپوں میں ملنے والی آری کے بلیڈ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس لوہا چوری میں بھی بے روزگار افراد یا نشئی ملوث ہوتے ہیں اور یہ لوہا چوری کرکے کباڑیوں کو جا کر فروخت کر دیتے ہیں اور کباڑی سب کچھ جانتے ہوئے لوہا سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ کباڑیوں کو یہ لوہا کوڑیوں کے مول مل جاتا ہے اور وہ جو رقم لوہا چور کو دیتے ہیں وہ بغیر مول تول کیے لے کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔
یہ لوہا خریدنے والے کباڑیوں کو پتا ہوتا ہے کہ سیمنٹ لگا یہ سریا گٹروں کے سیمنٹ کے ڈھکن توڑ کر حاصل کیا گیا ہے اور صاف سریا اوورہیڈ پلوں کا ہے جو چوری کرکے لایا گیا ہے مگر اسے کوئی غرض نہیں ہوتی کیوں کہ کباڑیوں کو اونے پونے لوہا اور لوہا چوروں کو رقم مل جاتی ہے اور دونوں اپنا اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں۔ اخبارات میں کھلے ہوئے گٹروں اور اوور ہیڈ پلوں کی سائیڈوں سے غائب لوہے کی تصاویر آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں اور یہ چوریاں عام ہو چکی ہیں اور یہ چوریاں کرنے والے شاید یہ جانتے بھی ہوں کہ ان کی یہ چوریاں کتنی بھیانک ہو سکتی ہیں۔
پہلے گٹروں پر لوہے کے بھاری اور بڑے ڈھکن بھی لگائے جاتے تھے جن کو بنوانے پر زیادہ لاگت آتی تھی اور وہ بھی چوری ہو جاتے اور کباڑیوں کے پاس فروخت بھی زیادہ رقم میں ہو جاتے تھے اور گول ہوتے تھے جو بیڑ کے بھی بنے ہوتے تھے اور لوہے کے چوکور ڈھکن بھی گٹروں پر آہنی فریم میں پھنسا کر لگائے جاتے تھے جو لوہے کی موٹی چادروں سے بنوائے جاتے وہ بھی محفوظ نہیں تھے اور چرا لیے جاتے ہیں۔ کباڑی بیڑ کے گول ڈھکن خود توڑ کر آگے فروخت کر دیتے تھے جو لوہے کے مقابلے میں کم نرخوں پر فروخت ہوتے تھے۔
پہلے اخبارات میں ریلوے لائنوں کو جوڑنے والی پلیٹوں اور انھیں مضبوط کرنے کے لیے لوہے کے موٹے نٹ بولٹ لگائے جاتے تھے جن کو کھولنا نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی لوہا چور کسی نہ کسی طرح انھیں کھول کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے تھے جس سے لوہے کی پٹریاں غیر محفوظ ہو جاتی تھیں اور ٹرینوں کو حادثات کا خطرہ رہتا تھا۔ یہ کام عام چور نہیں بلکہ تخریب کار کرتے تھے جو پٹریاں تک اکھاڑ دیتے تھے تاکہ ٹرینیں حادثات کا شکار ہو جائیں اور مسافروں کا جانی نقصان ہو۔ یہ خبریں بھی اخباروں میں شایع ہوتی تھیں مگر یہ بھیانک تخریب کاری کرنے والے ملک دشمن یا پیسے کے لیے یہ سب کچھ کرتے تھے اور بلوچستان میں ایسے کئی واقعات ہوئے۔
لوہا چوریوں میں سب سے آسان کام گٹروں کے ڈھکن چوری کا ہے جس کی وجہ سے حب کے علاقے میں وہاں کی بلدیہ نے پتھروں کے ڈھکن بنوا کر گٹروں پر لگوائے جو چوری نہیں ہوتے تھے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے بعض ٹاؤن چیئرمینوں نے ایسے گٹروں کے ڈھکن بنوائے جو لوہے کے نہیں ہیں۔ مضبوط بھی ہیں اور چوری بھی نہیں ہوتے۔
واٹر بورڈ یا ٹاؤن کونسلیں ٹھیکوں پر لوہے سیمنٹ کے جو ڈھکن بنواتے ہیں ان میں سریا اور سیمنٹ کم استعمال ہونے سے وہ معیاری اور مضبوط نہیں ہوتے اور کسی عام گاڑی کی زد میں آ کر ٹوٹ جاتے ہیں اور گٹروں میں گر جاتے ہیں۔ کراچی میں سڑکوں کے درمیان لگے یہ ڈھکن بھاری ٹریفک کا لوڈ برداشت نہیں کرتے اور ٹوٹ جاتے ہیں ایسا ہی نیپا چورنگی پر لگے گٹر کا ڈھکن ٹوٹا اور المناک واقعہ پیش آیا جس نے کے ایم سی اور سندھ حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
گٹروں کے ڈھکنوں اور اوورہیڈ برجز پر لگی آہنی گرلوں کی چوری یوں تو عام بات ہے مگر حقیقت میں یہ بھیانک اور مذموم چوریاں بن چکی ہیں جن کا انجام المناک اور بچوں کی اموات کا سبب بن چکا ہے اور بلدیاتی ادارے ڈھکن چوری کرنے والوں کو ذمے دار قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں مگر کمزور ڈھکن بنوانے والے محفوظ رہتے ہیں اور نہ کبھی ڈھکن چور پکڑے جاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ عام چوریاں بھیانک اور جان لیوا بن چکی ہیں جن میں گرنے سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
بلدیاتی ادارے ان عام چوریوں کو المناک حادثات کا باعث سمجھیں اور گٹروں کے ڈھکن پتھروں یا کسی اور چیز سے بنوائیں جو چوری نہ ہو سکیں۔ گٹروں کے ڈھکن کے باعث ہونے والی ہلاکتیں کراچی کا اہم مسئلہ بن چکی ہیں جب کہ اوور ہیڈ برجز سے گرلز کی چوریاں جان لیوا بھی بن سکتی ہیں مگر گٹروں کے ڈھکنوں کی چوریاں عام مگر سنگین مسئلہ بن چکی ہیں جس کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر اقدامات ضروری ہو چکے ہیں ورنہ نہ جانے کتنے اور ابراہیم ان چوریوں میں جان گنواتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فروخت کر دیتے گٹروں کے ڈھکن بن چکی ہیں جاتے ہیں لوہا چور ڈھکن چور جاتے تھے ہوتے تھے گٹروں پر لیتے ہیں جو لوہے ہیں اور لوہے کی لوہے کے تھے اور ہوتا ہے ہے اور تھے جو ہیں جن کے لیے
پڑھیں:
ڈھکن تو سب ہٹائے جائیں گے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251208-03-7
مظفراعجاز
پہلے اہل ِ نظر اور سخن فہم لوگ نظام کی خرابی پر کہا کرتے تھے کہ ’’ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟ لیکن اب سب بدل گیا ہے جب سے گلشن کی جگہ کنکریٹ کے شہری گلشنوں نے لی ہے اور باغ اُجاڑنے کا کام اُلوؤں کی جگہ بلدیاتی اداروں نے لے لیا ہے، اب ہر ادارے پر ایک اُلو کی جگہ ڈھکن رکھا ہوا ہے، اور ان ڈھکنوں کو جب تک زور لگا کر ہلایا نہیں جاتا یہ کوئی حرکت نہیں کرتے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، یہ کام بھی ننھے ابراہیم ہی کو کرنا پڑا۔ پھر گٹر کا ڈھکن نہیں تھا، پھر ایک معصوم جان گئی، اب سب ملزم اور مجرم کی تلاش میں ہیں، مئیر صاحب نے ایک دو دن ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا پھر ابراہیم کے گھر جاکر معافی بھی مانگ لی، یہ تو انہوں نے اچھا کیا، لیکن کیا نظام کی اصلاح کے حوالے سے کچھ کرنے کا عزم کیا ہے، اپنے مخالف کے ٹائون کو فنڈ دینے کا ارادہ کیا ہے، مخالفین کی یونین کونسل کو یا مخالف کونسلر کو فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے، اور فیصلہ بھی کیوں فیصلہ تو قانون کے مطابق موجود ہے کہ ہر یوسی، ہر ٹائون، ہر کونسلر کو فنڈز دیے جائیں، یہ دیتے نہیں، پھر معاملات کیسے چلیں گے۔ بچہ جان سے گیا اور ایک دن سے کم وقت میں ہزاروں ڈھکن لا کر حاضر کر دیے گئے، بلکہ لگا بھی دیے گئے۔ ایک ہی دن میں ہزاروں۔
ڈھکن!!! کمال سے بھی بڑا کمال، واٹر بورڈ والے تو کہتے تھے کہ دستیاب نہیں ہیں فنڈز نہیں ہیں اب ایک جھٹکے میں اتنے ڈھکن؟ اور الزام دوسروں پر۔ اور تو اور خود کے ایم سی کے ذمے دار نے اس اسٹور والے کو ذمے دار قرار دے دیا جس کے سامنے حادثہ پیش آیا، شہری ذمے داریوں کے حوالے سے تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اچل ذمے دار تو کے ایم سی، واٹر بورڈ اور ریڈ لائن منصوبے والے ہیں، کم از کم وہ تو یہ بات نہ کریں، ہاں اسٹور والوں کو بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور استعداد کا تو علم ہے پھر تو خود ہی لگا دینا چاہیے تھا، ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ کیس داخل دفتر ہی ہوجائے گا اور نہ ہوا تو بھی کسی کو سزا نہیں ہوگی، سزا تو معصوم ابراہیم کو، اس کے ماں باپ کو اور شہریوں کو بار بار ملتی ہے۔
گزشتہ کئی برس سے ہم توجہ دلاتے رہے ہیں کہ کراچی کا شہری نظام جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے، شہر کے اختیارات کی تقسیم ہی ایسی کی گئی ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور کئی کئی چکر کے بعد پتا چلتا ہے کہ آپ غلط جگہ پہنچے ہیں، یہ علاقہ کے ایم سی کے کنٹرول میں نہیں ہے یہاں کنٹونمنٹ کا سکہ چلتا ہے، اور اس کا دفتر کہیں دور ہے۔ شہر کا بہت بڑا حصہ کنٹونمنٹ کے کنٹرول میں ہے وہی وہاں سے ٹیکس وصول کرتا ہے، ایک اور بڑا حصہ ڈی ایچ اے کے پاس ہے اور وہاں ڈی ایچ اے کے قوانین چلتے ہیں، باقی بچا کھچا کے ایم سی کے پاس ہے، یہ باتیں تو کے ایم سی یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے تعلق رکھنے والے ذمے داران بتاتے رہتے ہیں، لیکن اس کے آگے کی کہانی بڑی دردناک ہے، شہری تینوں میں سے کسی بھی علاقے میں رہتے ہوں وہ شہری ہیں اور کم وبیش سب ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن جب ان کے مسائل حل کرنے کا وقت آتا ہے تو انہیں تھانے کی طرح حدود کے تعین کے چکر میں ڈال دیا جاتا ہے، یہ سڑک کے ایم سی کی ہے، گٹر کی خرابی واٹر بورڈ ٹھیک کرتا ہے لیکن علاقہ کنٹونمنٹ کا ہے اس لیے اجازت اس کی درکار ہوگی، اور اجازت سائل کو لینی ہوگی، یہ معاملہ صرف ان تین اداروں کی حدود کا نہیں ہے، کے ایم سی کے اندر بھی یہی چل رہا ہے، یہ کام ٹائون کرتا ہے، وہ کام یوسی کی ذمے داری ہے، اور فلاں کام کے ایم سی کا ہے، بجٹ اوپر سے آنا چاہیے، لیکن ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جاتی ہے، ٹائون والے یوسی کو اس کا فنڈ اس لیے نہیں دیتے کہ وہ دوسری پارٹی کے پاس ہے، اور کے ایم سی دوسری پارٹی کے ٹائون کو فنڈ نہیں دیتی، سارا دباؤ یوسی پر ہوتا ہے اور اس کو کے ایم سی اور ٹائون فنڈز نہیں دیتے، اور یوسی کے کونسلرز ہی میدان میں ہوتے ہیں انہی سے شکایات کی جاتی ہیں ان ہی کو مسائل حل کرانے ہوتے ہیں۔ یہ یوسی والے ہر وقت نشانے پر رہتے ہیں۔ دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی بلدیاتی اکائی کا ذمے دار اپنے علاقے کا گورنر، وزیراعلیٰ وغیرہ کی طرح ہوتا ہے اس پر ذمے داریاں ہوتی ہیں تو اسے بجٹ اور اختیار بھی ملتا ہے، اور یہ نیچے بھی جاتا ہے، لیکن پاکستان، اور اس کے سب سے بڑے شہر کراچی کا حال ہی نرالا ہے، اور اب تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کراچی کو تباہ کرنے میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی وغیرہ سے زیادہ ان کا ہاتھ ہے جنہوں نے ان دونوں پارٹیوں کو شہر پر مسلط کیا، یہ خود تو ڈی ایچ اے یا کنٹونمنٹ کے جزائر میں رہتے ہیں یا اسلام آباد میں، انہیں یہاں کی صورتحال کا حقیقی ادراک ہی نہیں ہوتا، سارا کام محض رپورٹس پر چلتا ہے۔
تین سالہ ابراہیم کی موت نے اس سارے نظام کا ڈھکن کھول دیا ہے اور ایک ایک ادارے پر رکھا ڈھکن بے نقاب ہوگیا ہے۔ کراچی کے اداروں کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے والے کردار بھی سامنے ہیں اور ان محکموں کی کارکردگی بھی، ایک دن میں جو ہزاروں ڈھکن ابراہیم کی موت کے بعد جادو سے حاضر ہوگئے وہ پہلے کیوں روک کر رکھے ہوئے تھے، واٹر کارپوریشن والے اس کا جواب نہیں دے سکیں گے، اور دے بھی نہیں سکتے کیونکہ اس کا جواب سب جانتے ہیں، جن افسروں کو لوگ ڈی جی، سی ای او اور چیئرمین کے ناموں سے جانتے ہیں ان کی اوقات اس سسٹم کے سامنے چپراسی سے زیادہ نہیں، اور عوام کے سامنے افسر بنے پھرنے والے یہ لوگ ایک خاص مقام پر اپنی بے عزتی کروانے میں کامیابی سمجھتے ہیں، بلکہ ان عہدوں پر ان ہی راستوں سے پہنچتے ہیں، گٹر کے ڈھکنوں کا معاملہ تو اتنا سنگین ہوگیا کہ اسسٹنٹ کمشنر، ڈی سی اور دیگر افسران بھی سرگرم نظر آئے۔ یا نظر آنے کی کوشش کرنے لگے، اس کی وجہ عوام کا غصہ، تھا وہ سیاسی دباؤ سے اتنا متاثر نہیں ہوتے، لیکن سوشل میڈیا اور عوام کے غصے نے اسے بھی متحرک کردیا جس کی ذمے داری گٹر کے ڈھکن نہیں ہیں۔ حکمراں طبقے کی کیفیت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شہلا رضا دو عشرے قبل اپنے دوبچوں سے اسی گٹر اور نالے والے واٹر بورڈ کی وجہ سے محروم ہوچکی تھیں لیکن سترہ برس کے مکمل کنٹرول کے باوجود ان کی پارٹی یہ نظام ٹھیک نہ کرسکی۔ خود موجودہ ڈپٹی مئیر کے علاقے میں یکے بعد دیگرے دوبچے گٹر میں گرکر جاں بحق ہوئے لیکن کچھ نہ کیا جاسکا۔ تو اب کیا ہوگا۔ کیا شہر کا بیڑا غرق کروانے والے واپسی کا سفر شروع کرنے پر تیار ہیں؟ اگر تیار ہیں تو خود شروع کردیں ورنہ جلد یا بدیر ڈھکن تو سب ہی اٹھائے جائیں گے۔
سیف اللہ