بھارتی مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
مودی کے بھارت میں مسلمانوں کا معاشی قتل جاری ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا سوچ پورے معاشرے میں زہر اگل رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہونے کے بعد اب انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے معاشی بائیکاٹ کا نیا حربہ سامنے آیا ہے۔عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کا عمل جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلمان دکانداروں اور ہوٹل مالکان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کے ذہن میں یہ شک پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دکاندار کھانوں میں گائے کے گوشت، تھوک اور علاظت کی ملاوٹ کرتے ہیں۔ اس منفی پروپیگنڈے کے بعد مقامی ہندو تنظیموں اور سیاست دانوں کی جانب سے مسلمانوں کو دکانیں کرائے پر نہ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ اس گھٹیا پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں سے ان کا ذریعہ معاش چھین کر انہیں دربدر کیا جا رہا ہے۔ یہ معاشی بائیکاٹ مہم اترا کھنڈ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور اتر پردیش جیسے بڑے بھارتی ریاستوں میں پھیل چکی ہے۔ اس مہم کے دوران مسلمانوں کے کاروبار، خصوصاً ہوٹلوں اور دکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جہاں انتہاپسند ہندوؤں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان تاجروں کو دکانیں کرائے پر نہ دی جائیں۔اس حوالے سے ایک ہوٹل مالک وسیم احمد کا کہنا ہے کہ اس پروپیگنڈے نے میرے ہوٹل کو ویران کردیا جو پہلے گاہکوں سے بھرا ہوتا تھا۔گاہکوں کی کمی اور کاروبار میں نقصان کے باعث مجھے اپنا ہوٹل بند کرنا پڑا۔اترپردیش میں ایک منظم سازش کے تحت حکم جاری کیا گیا کہ دکانیں باقاعدہ نام کے ساتھ کھولی جائیں۔اس مہم کا مقصد ہندؤوں کو مسلمانوں کی دکانوں سے کچھ نہ خریدنے پر قائل کرنا تھا۔
مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ مہم میں ہندو مذہبی رہنماء بھی ملوث ہیں۔ہندو مذہبی رہنماء سوامی یشویت مہاراج نے اس مہم کی پر زور حمایت کی۔ یہ سلسلہ بھارت کی اترا کھنڈ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور اتر پردیش جیسی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے۔ان ریاستوں میں چھوٹے دکانداروں اور سبزی فروشوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اتر پردیش میں بے شمار ذبح خانے غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیے گئے ہیں۔مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا گیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق پر واویلا کرنے والی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ پر آواز اٹھانا چاہئے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی ملکیت والے ذبح خانوں کو غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا گیا ہے۔ حاجی یوسف قریشی نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی روزگار کے ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ادیتا ناتھ اور مودی کی جوڑی نے مسلمانوں میں ایک ایسے عدم تحفظ کو جنم دیا ہے جس کی کوئی اور مثال ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس جوڑی نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کے اقتدار میں چند رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس عید سے چند دن پہلے ایک 15 سالہ لڑکا اپنے اور دو دوستوں کے ساتھ دہلی سے عید کی خریداری کر کے ماتھورا میں واقع اپنے گھر بذریعہ ٹرین واپس جا رہا تھا۔ ان سب ساتھیوں کا حلیہ ان کے مسلمان ہونے پر دلالت کر رہا تھا۔ سیٹ پر بیٹھنے کے مسئلے پر ڈبہ میں سوار ایک گروہ سے کچھ تکرار ہوئی جو وقفے وقفے سے جاری رہی لیکن زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یہ مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ اس گروہ نے جنید کی ٹوپی، مسلمان ہونے اور گائے کاگوشت کھانے کے طعنے دیئے اور پھر یہ سارا معاملہ زبردست حملے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس گروہ کے لوگ جو جنید اور اس کے بھائی اور دوستوں سے عمر میں بڑے تھے’ جلد ہی چاقو نکال لئے اور جید کو بے رحمی سے قتل کر دیا۔ ایک شہری کا اس قدر سفاکانہ اور بہیمانہ قتل بھارت کی جمہوریت اور اس کے سیکولر آئین پر اک بدنما داغ ہے۔ مرکزی یا ریاستی حکومت کے کسی ذمہ دار نے اس واقعہ کی مذمت میں کوئی بیان نہیں دیا اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔دو سال پہلے دہلی کے قریب ایک اور واقعہ میں ایک 50 سالہ مسلمان عبدالخالق کو یہ افواہ پھیلا کر کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت کھایا جا رہا ہے قتل کر دیا گیا۔ راجستھان میں ایک اور واقعہ میں جہاں ایک مسلمان بدقسمتی سے گائیں منڈی لے کر جا رہا تھا ایک ناکردہ گناہ میں بلوائیوں نے بے رحمانہ طریقے سے موقع پر ہلاک کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جون میں۔ اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب تک 10 مسلمانوں کو گاؤ رکھشا کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہو رہا جب ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمان اقلیت کے خلاف اسلام فوبیا پھیلایا جا رہا ہے۔
گائے ذبح کرنے کے جرم میں عمر قید کے التزام کے قانون کے تحت گجرات میں پہلا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو دس سال کی سزا دی گئی اور ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ گائے اور گائے کی نسل کے جانوروں کو مارنے پر عمر قید کے التزام والے قانون (گجرات اینیمل پروٹیکشن (ترمیمی) قانون) 2017 کے تحت ریاست کی کسی عدالت کے ذریعہ دیئے گئے فیصلے کے تحت راجکوٹ ضلع کے دھوراجی کی ایک عدالت نے ایک شخص کو دس سال کی سزا اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔استغاثہ کے مطابق سلیم چادر نام کے ملزم نے گائے کا ایک بچھڑا لیا تھا اور بعد میں اس کے قتل کرنے کے بعد بریانی بنا کر اس نے اپنی بیٹی کے گھر آئے مہمانوں کو دعوت دی تھی۔ اس معاملے میں سپتا مجھوٹی نامی شخص نے معاملہ درج کرایا تھا۔ جانچ کے دوران الزام کو سچ قرار دیا گیا تھا۔ لیباریٹری میں جانچ میں بچھڑنے کے قتل کی بات ثابت ہوگئی تھی۔عدالت نے سلیم کو قصوروار قرار دیتے ہوئے یہ سزاسنائی۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: معاشی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے مسلمانوں کی مسلمانوں کے اتر پردیش میں ایک کیا گیا کر دیا کے تحت
پڑھیں:
پشاور ہائی کورٹ: وکلا کی ہڑتال اور عدالتی بائیکاٹ غیر قانونی قرار
پشاور ہائی کورٹ نے بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے وکلا کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے اور عدالتوں میں پیش ہونے سے روکنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
جسٹس سید ارشد علی کی سربراہی میں جاری 43 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ وکلا کی ہڑتال آئین کے آرٹیکل 4، 8 اور 10A کے تحت شہریوں کو دیے گئے فئیر ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ وکلا کی ہڑتال کی وجہ سے ہزاروں زیر سماعت مقدمات التوا کا شکار ہو جاتے ہیں، عدالتی نظام پر دباؤ بڑھتا ہے اور سرکاری خزانے پر بھی مالی بوجھ پڑتا ہے۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ صرف خیبر پختونخوا میں وکلا کی ہڑتال کے باعث عدالتوں کے روزمرہ اخراجات پر تقریباً 57 ملین روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ عدالت نے وکلا کو ہدایت دی کہ احتجاج کے لیے مہذب اور پر امن طریقے اختیار کیے جائیں، جیسے بازو پر کالی پٹی باندھنا، بینرز آویزاں کرنا یا پرامن اجلاس منعقد کرنا، نہ کہ مقدمات کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنا۔
پشاور ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ ایڈیشنل رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ ان گائیڈ لائنز کو صوبے بھر کی عدالتوں تک پہنچائیں تاکہ وکلا کی ہڑتال اور بائیکاٹ کے معاملے میں یکساں طریقہ کار اختیار کیا جا سکے۔