Express News:
2025-12-06@21:10:10 GMT

نسل پرستی کا بھیانک کردار

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

سیاسی بنیاد پر انسان کا درد اور اس کے جمہوری حق کو سمجھنے والے ہمارے جمہوریت پسند اور سوشلسٹ دوست شاہ محمد پیرزادو، صالح ھنگورو اور سجاد ظہیر سولنگی کا خیال ہے کہ سندھ میں انسانی بنیادوں پر تقسیم نہ سندھو ماتا کا چلن ہے اور نہ ہی سندھ کے عوام نے کبھی لسانی بنیاد پر انسانی تقسیم کا سوچا۔ 

شاہ محمدکا نکتہ نظر ہے کہ ’’ کمیونسٹ اور دیگر لیفٹ میں بھی کمزوریاں تھیں لیکن دونوں ری تھنک میں یقین رکھتے تھے اور درستگیاں بھی کرتے تھے، ایک کمزوری سندھ میں یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ ہمارے کافی کامریڈز، قوم پرست بیانیہ میں احساس کمتری میں چلے گئے ہیں اور اس کمزوری کی بنیاد پر اپنی صفوں میں دراڑ ڈال بیٹھے۔ 

لیکن مارکس ازم سائنسی سماجی فلسفہ ہے، اس لیے مارکسسٹ لوگ غلطی مان کر سدھارکر واپس بنیادی تضاد والے نکتے پر جمع ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ عوام کے درمیان نفرت کو دائمی نہیں رہنا چاہیے۔

صالح ھنگورو کا خیال ہے کہ ’’ سندھ/ سندھی اس دن اکیسویں صدی میں داخل ہوں گے جس دن بھوتاروں، سرداروں، پیروں، میروں سے ماورا کراچی بیسڈ سندھی سندھ کے حکمران ہوں گے‘‘۔

جب کہ سجاد ظہیر سولنگی کا ماننا ہے کہ سندھ میں جب تک حکمران طبقات کی جانب سے پھیلایا جانے والا ’’ نسل پرستی‘‘ کا زہر ختم نہیں ہوگا، اس وقت تک سندھ اپنی امن پروری، انسان دوستی اور اپنی کھوتی ہوئی ثقافت اور تہذیب پر روتا رہے گا اور کسی طور عوام کی جمہوری آزادی سندھ دوست عوام حاصل نہیں کر پائیں گے۔

ان کے بقول جب کراچی کے تعلیمی اداروں سے سرکاری سطح پر سندھی زبان کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو حسن ناصر(مرحوم) نے کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں سخت مؤقف اختیارکرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا تھا۔

انھوں نے پارٹی کے اندر بھی سندھی زبان کے نفاذ اور احترام کے لیے مضبوط اسٹینڈ لیا اور ان کے اس اصولی موقف نے پارٹی کو سندھی زبان کے دفاع کے فیصلے پر قائم رکھا۔

آج اگر کراچی میں کوئی بھی اردو بولنے والا سندھ کی وحدت کا بھرپور دفاع کرتا ہے تو اس کے پیچھے شہید حسن ناصر جیسے ایک اردو بولنے والے انسان کا تاریخی اور اصولی کردار نظر آتا ہے۔

ان کی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ نسل پرستی کے نام پر نہیں بلکہ انصاف، برابری اور انسانیت کے لیے کھڑا ہونا اصل ورثہ ہے۔ ہمیں ان روایات کو دہرانے کی ضرورت ہے۔

آج بھی ہزاروں اردو بولنے والے ایسے ہیں جو تعصب اور نسل پرستی کے بیانیے کو مسترد کرتے ہیں اور سندھ کی تقسیم کے سخت خلاف ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر آج معاشرے میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے حکمران طبقات ہیں، جنھوں نے 18ویں ترمیم توکردی لیکن لوکل باڈیزکا نظام مضبوط بنانے میں ناکام رہے۔

اسی کے نتیجے میں سندھ کے اہم شہر کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ، انتظامی اور بنیادی سہولتوں کے شدید مسائل کا شکار ہیں۔

 لہٰذا آج اصل ضرورت یہ ہے کہ لڑائی وسائل کی منصفانہ تقسیم پر لڑی جائے نہ کہ نسل پرستی کی بنیاد پر۔ نسل پرستی ہمیشہ اصل مسائل کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔ ہمیں اس کے خلاف سخت موقف اپنانا ہوگا۔

ان تینوں سوشلسٹ خیالات کے دوستوں کی رائے کو ہم جب آج کی سیاست کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاں اکثر و بیشتر سیاست کے تجزیہ نگار اور انسانی حقوق کے دانشور انسان کی جمہوری آزادی کا حل جمہوری نظام یا جمہوریت کو قرار دیتے ہیں۔ 

جو انسانی خواہشات اور آزادی پسند ہونے کے ناتے، سننے اور دیکھنے میں بہت اچھا لگتا ہے، مگر جمہوری نظام اپنی بنیادی ضرورت یعنی رائے کی مکمل آزادی اور مد مقابل کے اختلافی نکتہ نظرکو سننے پر اب تک مستحکم نظر نہیں آتا۔

جب کہ دنیا کے جدید ترقی یافتہ ممالک میں بھی جمہوریت اپنے اصل جوہرکے ساتھ آج تک نافذ نہیں ہو سکی ہے، جب کہ آج کے عالمی حالات میں مزید الجھ گیا ہے، عوام کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے موجودہ دنیا کا رائج جمہوری نظام کا نفاذ کس طرح کیا جائے گا یا وہ کونسی قوت ہو گی جو اس جمہوریت کے وہ تمام تقاضے بروئے کار لے آئے گی جو عوام کو مکمل جمہوری سوچ اپنانے کا حق دیں گے اور عوام کو نہ صرف جمہوری آزادی دلائیں گے۔

بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی طرح عوام کے جمہوری و انسانی حقوق سلب نہیں ہونگے اور اگر کوئی طالع آزما عوام کی جمہوری آزادیوں کو ختم کرنے کی طرف جائے گا تو جمہوری نظام کس طرح اس طالع آزما کے عوام دشمن اور جمہوریت دشمن ارادوں کو ناکام بنائے گا؟

اس گھمبیرتا کا سادہ سا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ عوام جمہوری آزادی کی دفاع کے لیے سیاسی جدوجہد کرے اورکسی بھی طالع آزما سے لڑ کر اپنے جمہوری حقوق لے یا چھینے لے۔

جمہوری آزادی کی سلامتی کے لیے اس سیاسی جدوجہد کی دلیل کو اگر مکمل مان لیا جائے اور اس پر عوام کو متحرک بھی کردیا جائے تو سوال پھر یہ ہے کہ جمہوری حقوق کی جدوجہد میں کتنے فیصد عوام حصہ لے رہے ہیں اورکتنے فیصد عوام اس جمہوری جدوجہد سے پرے ہیں لاعلم ہیں یا سیاسی شعور سے بے بہرہ ہے؟

اس جمہوری جدوجہد کے سارے گورکھ دھندے میں جمہوری حقوق مانگنے والے قلیل تعداد میں ہوں تو وہ کس کا نقصان ہے، اور یہ نقصان کیوں ہو رہا ہے یا اس پر ’’ جمہوریت پسند‘‘ متحرک دوست کیونکر توجہ نہیں دے رہے یا عوام کے بڑے طبقے کو جمہوری حقوق حاصل کرنے پر کیوں نہیں جوڑ پا رہے۔

مذکورہ اور اس سے متصل اور بہت سے سوالات کا جب تشفی بخش جواب نہیں ملتا تو عوام جمہوریت پسند ہونے کے بجائے صرف جینے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں اور وہ کسی بھی نظام میں دلچسپی کے بجائے جوں کی توں صورتحال میں خود کو زندہ رکھنے کے انتہائی کم قیمت سمجھوتے پر راضی ہو جاتے ہیں جو انتہائی خطرناک رجحان اور تشویش ناک صورتحال ہوتی ہے۔

نسل پرستی کے پھر سے سر ابھارنے کے عوام دشمن رجحان کو تاریخی و سماجی طور سے سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے، جس پر صدیوں سے غور و فکر ہوتا رہا ہے اور ’’ نسل پرستی‘‘ کے خاتمے کے لیے دنیا میں سرمایہ دار قوتیں اربوں ڈالر کے فنڈز مختلف اداروں اور این جی اوز میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔

مگر دنیا میں نہ ہی انسانی حقوق مستحکم ہو پا رہے ہیں اور نہ ہی کسی بھی خطے میں عوام کو ان کی جمہوری و سیاسی آزادی مل پا رہی ہے، بلکہ نسل پرستی کے زہر کو تنگ نظر قوم پرستی کے خوش کن نعرے کی سیاست کے کپڑے پہنا کر نہ صرف جمہوریت کو کمزور اور بے وقعت کیا جا رہا ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اب تک نسل پرستی کے عذاب سے نہیں نکل سکے ہیں۔

جس کی سب سے بڑی مثال امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ، مودی، دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں سب سے کمزور شکل نسل پرست قوم پرستی کا وہ انداز ہے جو بنیادی طور سے نسل پرست تو ہے مگر اس نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے قوم پرستی کی سیاست شروع کر رکھی ہے۔

پاکستان میں نسل پرستی کا کھیل بنیادی طور پر اقتدار پر قابض ان طاقتور قوتوں کے حق میں جاتا ہے جو جمہوری حقوق عوام کو نہیں دینا چاہتیں، پاکستان کی سیاست میں یہ قوتیں سر عام نسل پرستی کی مخالفت کرتی نظر آئیں گی۔

مگر دوسری جانب یہی اقتداری قوتیں عوام کو جمہوری حقوق نہ دینے کے لیے عوام کو مذہبی، لسانی، فرقہ واریت پر تقسیم کر کے کہیں اسے لسان کی بنیاد پر قوم پرستی کا نام دیتی ہیں تو کہیں یہ طاقتور قوتیں عوام میں مذہبی شدت پسندی کے گروہ تیار کر کے نسل پرستی کی ایسی بھیانک شکل عوام کے سامنے لاتے ہیں کہ عام فرد اپنی بقا و سلامتی کی فکر میں گرفتار ہو کر جمہوری حقوق اور جمہوری سیاست سے بھی دور ہو جاتا ہے ۔

 سماج میں منفرد اور طاقتور ہونے کا خیال ہی دراصل نسل پرستی کا وہ بنیادی جرثومہ ہے جو آج تک انسانوں کی نسل کشی، برادری، زبان، زمین، مذہبی برتری اور طاقتور ہونے کی بنیاد پر دنیا بھر میں کی جا رہی ہے جب کہ جس کو روکنے یا ختم کرنے کا کوئی مربوط طریقہ آج بھی جدید و ترقی یافتہ ممالک دریافت نہیں کر پائے ہیں جس سے طاقتور حکمران مسلسل دنیا کی محکوم عوام کے جمہوری، سیاسی اور انسانی حق کو ’’ جمہوریت‘‘ کا نام لے کر چبا رہے ہیں۔ 

لٰہذا جب تک نظریاتی سیاست کی جڑیں دوبارہ سے پاکستانی سماج میں نہ اگائی جائیں گی، ملک میں حکمران قوتیں نسل پرستی کا زہر اپنے پالے ہوئے تنگ نظر قوم پرستوں کے ذریعے نسل میں منتقل کرکے انھیں جمہوریت اور سیاست دونوں سے دور کر کے حکمران طبقے کا تر نوالہ بنا دیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جمہوری ا زادی نسل پرستی کے نسل پرستی کا جمہوری حقوق جمہوری نظام کی بنیاد پر قوم پرستی جمہوری حق کی جمہوری کی سیاست پرستی کی عوام کے عوام کو کسی بھی ہیں اور اور اس اور ان کے لیے

پڑھیں:

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سیاسی جماعتوں کیلئے ریڈ نوٹس ہے، لیاقت بلوچ

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سیاسی جماعتوں کیلئے ریڈ نوٹس ہے۔

تفصیلات کے مطابق لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ سیاسی پارلیمانی جمہوری رویہ میں پرامن مزاحمت اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹریفک قوانین نافذ ہوں لیکن انسانوں، خواتین، نوجوانوں کی تذلیل نہ کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں بند قیدی اور سیاسی جماعت کے قائد کی قید کے حوالے سے ہمیشہ مہذب باوقار طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ 

نائب امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ ہر ادارہ آئین، قانون اور جمہوری اقدار کا پابند ہے۔ سیاسی قیادت اور جماعتوں کے درمیان بڑھتے فاصلے اسٹیبلشمنٹ کو اور زیادہ طاقتور کرتے ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں حکومت کرنا نہیں چاہتے، ٹیکنوکریٹک انتظام کی حمایت کرتے ہیں، حماس
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سیاسی جماعتوں کیلئے ریڈ نوٹس ہے، لیاقت بلوچ
  • انسانی حقوق کی آگاہی مہم میں محکمہ اطلاعات سندھ کا کردار بہت اہم ہے ،آغا فخر حسین
  • عمران خان  کہتے ہیں کہ ملک بھی اُن کا ہے اور فوج بھی، ادارے کا سیاست میں کردار نہیں ہونا چاہیے، علی محمد خان
  • فیس بک کی محبت کا بھیانک اختتام، 7 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے
  • میرپورخاص،صوبائی محتسب اعلیٰ سندھ محمد نصیر جمالی کھلی کچہری میں عوام کے مسائل سن رہے ہیں
  • صوبے کے قدرتی وسائل پر پہلا حق سندھ کی عوام کا ہے، کاشف سعید شیخ
  • جو قومیں اپنی ثقافت کو بھلا دیتی ہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں، سردار عبدالرحیم
  • پاک فوج ہماری،عمران خان کی میرٹ پر رہائی بنتی ہے، اسد قیصر