Jasarat News:
2025-12-08@02:50:27 GMT

ڈھکن تو سب ہٹائے جائیں گے

اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251208-03-7
مظفراعجاز
پہلے اہل ِ نظر اور سخن فہم لوگ نظام کی خرابی پر کہا کرتے تھے کہ ’’ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟ لیکن اب سب بدل گیا ہے جب سے گلشن کی جگہ کنکریٹ کے شہری گلشنوں نے لی ہے اور باغ اُجاڑنے کا کام اُلوؤں کی جگہ بلدیاتی اداروں نے لے لیا ہے، اب ہر ادارے پر ایک اُلو کی جگہ ڈھکن رکھا ہوا ہے، اور ان ڈھکنوں کو جب تک زور لگا کر ہلایا نہیں جاتا یہ کوئی حرکت نہیں کرتے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، یہ کام بھی ننھے ابراہیم ہی کو کرنا پڑا۔ پھر گٹر کا ڈھکن نہیں تھا، پھر ایک معصوم جان گئی، اب سب ملزم اور مجرم کی تلاش میں ہیں، مئیر صاحب نے ایک دو دن ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا پھر ابراہیم کے گھر جاکر معافی بھی مانگ لی، یہ تو انہوں نے اچھا کیا، لیکن کیا نظام کی اصلاح کے حوالے سے کچھ کرنے کا عزم کیا ہے، اپنے مخالف کے ٹائون کو فنڈ دینے کا ارادہ کیا ہے، مخالفین کی یونین کونسل کو یا مخالف کونسلر کو فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے، اور فیصلہ بھی کیوں فیصلہ تو قانون کے مطابق موجود ہے کہ ہر یوسی، ہر ٹائون، ہر کونسلر کو فنڈز دیے جائیں، یہ دیتے نہیں، پھر معاملات کیسے چلیں گے۔ بچہ جان سے گیا اور ایک دن سے کم وقت میں ہزاروں ڈھکن لا کر حاضر کر دیے گئے، بلکہ لگا بھی دیے گئے۔ ایک ہی دن میں ہزاروں۔

ڈھکن!!! کمال سے بھی بڑا کمال، واٹر بورڈ والے تو کہتے تھے کہ دستیاب نہیں ہیں فنڈز نہیں ہیں اب ایک جھٹکے میں اتنے ڈھکن؟ اور الزام دوسروں پر۔ اور تو اور خود کے ایم سی کے ذمے دار نے اس اسٹور والے کو ذمے دار قرار دے دیا جس کے سامنے حادثہ پیش آیا، شہری ذمے داریوں کے حوالے سے تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اچل ذمے دار تو کے ایم سی، واٹر بورڈ اور ریڈ لائن منصوبے والے ہیں، کم از کم وہ تو یہ بات نہ کریں، ہاں اسٹور والوں کو بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور استعداد کا تو علم ہے پھر تو خود ہی لگا دینا چاہیے تھا، ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ کیس داخل دفتر ہی ہوجائے گا اور نہ ہوا تو بھی کسی کو سزا نہیں ہوگی، سزا تو معصوم ابراہیم کو، اس کے ماں باپ کو اور شہریوں کو بار بار ملتی ہے۔

گزشتہ کئی برس سے ہم توجہ دلاتے رہے ہیں کہ کراچی کا شہری نظام جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے، شہر کے اختیارات کی تقسیم ہی ایسی کی گئی ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور کئی کئی چکر کے بعد پتا چلتا ہے کہ آپ غلط جگہ پہنچے ہیں، یہ علاقہ کے ایم سی کے کنٹرول میں نہیں ہے یہاں کنٹونمنٹ کا سکہ چلتا ہے، اور اس کا دفتر کہیں دور ہے۔ شہر کا بہت بڑا حصہ کنٹونمنٹ کے کنٹرول میں ہے وہی وہاں سے ٹیکس وصول کرتا ہے، ایک اور بڑا حصہ ڈی ایچ اے کے پاس ہے اور وہاں ڈی ایچ اے کے قوانین چلتے ہیں، باقی بچا کھچا کے ایم سی کے پاس ہے، یہ باتیں تو کے ایم سی یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے تعلق رکھنے والے ذمے داران بتاتے رہتے ہیں، لیکن اس کے آگے کی کہانی بڑی دردناک ہے، شہری تینوں میں سے کسی بھی علاقے میں رہتے ہوں وہ شہری ہیں اور کم وبیش سب ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن جب ان کے مسائل حل کرنے کا وقت آتا ہے تو انہیں تھانے کی طرح حدود کے تعین کے چکر میں ڈال دیا جاتا ہے، یہ سڑک کے ایم سی کی ہے، گٹر کی خرابی واٹر بورڈ ٹھیک کرتا ہے لیکن علاقہ کنٹونمنٹ کا ہے اس لیے اجازت اس کی درکار ہوگی، اور اجازت سائل کو لینی ہوگی، یہ معاملہ صرف ان تین اداروں کی حدود کا نہیں ہے، کے ایم سی کے اندر بھی یہی چل رہا ہے، یہ کام ٹائون کرتا ہے، وہ کام یوسی کی ذمے داری ہے، اور فلاں کام کے ایم سی کا ہے، بجٹ اوپر سے آنا چاہیے، لیکن ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جاتی ہے، ٹائون والے یوسی کو اس کا فنڈ اس لیے نہیں دیتے کہ وہ دوسری پارٹی کے پاس ہے، اور کے ایم سی دوسری پارٹی کے ٹائون کو فنڈ نہیں دیتی، سارا دباؤ یوسی پر ہوتا ہے اور اس کو کے ایم سی اور ٹائون فنڈز نہیں دیتے، اور یوسی کے کونسلرز ہی میدان میں ہوتے ہیں انہی سے شکایات کی جاتی ہیں ان ہی کو مسائل حل کرانے ہوتے ہیں۔ یہ یوسی والے ہر وقت نشانے پر رہتے ہیں۔ دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی بلدیاتی اکائی کا ذمے دار اپنے علاقے کا گورنر، وزیراعلیٰ وغیرہ کی طرح ہوتا ہے اس پر ذمے داریاں ہوتی ہیں تو اسے بجٹ اور اختیار بھی ملتا ہے، اور یہ نیچے بھی جاتا ہے، لیکن پاکستان، اور اس کے سب سے بڑے شہر کراچی کا حال ہی نرالا ہے، اور اب تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کراچی کو تباہ کرنے میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی وغیرہ سے زیادہ ان کا ہاتھ ہے جنہوں نے ان دونوں پارٹیوں کو شہر پر مسلط کیا، یہ خود تو ڈی ایچ اے یا کنٹونمنٹ کے جزائر میں رہتے ہیں یا اسلام آباد میں، انہیں یہاں کی صورتحال کا حقیقی ادراک ہی نہیں ہوتا، سارا کام محض رپورٹس پر چلتا ہے۔

تین سالہ ابراہیم کی موت نے اس سارے نظام کا ڈھکن کھول دیا ہے اور ایک ایک ادارے پر رکھا ڈھکن بے نقاب ہوگیا ہے۔ کراچی کے اداروں کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے والے کردار بھی سامنے ہیں اور ان محکموں کی کارکردگی بھی، ایک دن میں جو ہزاروں ڈھکن ابراہیم کی موت کے بعد جادو سے حاضر ہوگئے وہ پہلے کیوں روک کر رکھے ہوئے تھے، واٹر کارپوریشن والے اس کا جواب نہیں دے سکیں گے، اور دے بھی نہیں سکتے کیونکہ اس کا جواب سب جانتے ہیں، جن افسروں کو لوگ ڈی جی، سی ای او اور چیئرمین کے ناموں سے جانتے ہیں ان کی اوقات اس سسٹم کے سامنے چپراسی سے زیادہ نہیں، اور عوام کے سامنے افسر بنے پھرنے والے یہ لوگ ایک خاص مقام پر اپنی بے عزتی کروانے میں کامیابی سمجھتے ہیں، بلکہ ان عہدوں پر ان ہی راستوں سے پہنچتے ہیں، گٹر کے ڈھکنوں کا معاملہ تو اتنا سنگین ہوگیا کہ اسسٹنٹ کمشنر، ڈی سی اور دیگر افسران بھی سرگرم نظر آئے۔ یا نظر آنے کی کوشش کرنے لگے، اس کی وجہ عوام کا غصہ، تھا وہ سیاسی دباؤ سے اتنا متاثر نہیں ہوتے، لیکن سوشل میڈیا اور عوام کے غصے نے اسے بھی متحرک کردیا جس کی ذمے داری گٹر کے ڈھکن نہیں ہیں۔ حکمراں طبقے کی کیفیت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شہلا رضا دو عشرے قبل اپنے دوبچوں سے اسی گٹر اور نالے والے واٹر بورڈ کی وجہ سے محروم ہوچکی تھیں لیکن سترہ برس کے مکمل کنٹرول کے باوجود ان کی پارٹی یہ نظام ٹھیک نہ کرسکی۔ خود موجودہ ڈپٹی مئیر کے علاقے میں یکے بعد دیگرے دوبچے گٹر میں گرکر جاں بحق ہوئے لیکن کچھ نہ کیا جاسکا۔ تو اب کیا ہوگا۔ کیا شہر کا بیڑا غرق کروانے والے واپسی کا سفر شروع کرنے پر تیار ہیں؟ اگر تیار ہیں تو خود شروع کردیں ورنہ جلد یا بدیر ڈھکن تو سب ہی اٹھائے جائیں گے۔

سیف اللہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے ایم سی کے واٹر بورڈ اور اس ہے اور

پڑھیں:

مودی حکومت کی ناکامی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، کانگریس

بھارت کی جن ریاستوں میں بھی انڈیگو طیارہ کی خدمات ہیں، وہاں ایئرپورٹس پر ایک ہنگامی حالت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی تشویشناک ویڈیوز اور تصویریں سامنے آئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں ایئر لائنز "انڈیگو" بحران کے درمیان کئی مسافروں کی درد بھری کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ کوئی اپنے والد کی آخری رسومات میں نہیں جا سکا تو کوئی اپنے ولیمہ کے لئے مقرر جگہ پر نہیں پہنچ پایا، کسی کی بزنس میٹنگ چھوٹ گئی تو کسی کا سامان اُس تک نہیں پہنچ سکا۔ بھارت کی جن ریاستوں میں بھی انڈیگو طیارہ کی خدمات ہیں، وہاں ایئرپورٹس پر ایک ہنگامی حالت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور تصویریں سامنے آئی ہیں، جس میں لوگ روتے اور سسکتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس طرح کے معاملوں پر اپوزیشن پارٹی کانگریس نے فکر کا اظہار کیا ہے اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

کانگریس نے اپنے ایکس ہینڈل پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں ایک شخص بتاتا ہے کہ وہ گزشتہ 3 دنوں سے بغیر کھائے پیے وقت گزار رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "میں 3 دنوں سے بغیر کھائے پیے اور بغیر سوئے پریشان ہو رہا ہوں۔ میری فیملی بنگلورو میں پھنسی تھی۔ انڈیگو والوں نے انہیں بھیج دیا، لیکن بیگ بنگلورو میں ہی چھوڑ دیا۔ اسی میں گھر کی چابی، پاسپورٹ اور کاغذات ہیں"۔ ویڈیو میں وہ انڈیگو کے ملازمین پر ناراض دکھائی دے رہا ہے اور وہاں پر کئی دیگر مسافر بھی ہیں جو مختلف مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ اس کی پریشانی کا حل کون نکالے گا۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور پوسٹ میں لکھا ہے کہ یہ مودی حکومت کی ناکامی ہے، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

انڈیگو ایئر لائن مسافروں کو امید دلا رہی ہے کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے، اور حکومت بھی ضرور قدم اٹھانے کا یقین دلا رہی ہے، لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک خاتون مسافر نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چنئی جانے کے لیے نکلی، لیکن گھر پہنچنے کا انتظام اب تک نہیں ہو پایا ہے۔ اس کے بچے انتظار کر رہے ہیں، لیکن خاتون گجرات کے احمد آباد ایئرپورٹ پر پھنسی ہوئی ہے۔ خاتون نے بتایا کہ اس کے بچے بار بار اس سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کب پہنچے گی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ انڈیگو ایئر لائن کوئی جانکاری دے ہی نہیں رہا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ 24 گھنٹوں سے زائد وقت سے ایئرپورٹ پر اِدھر اُدھر کے چکر کاٹ رہی ہے۔ دوسری ایئر لائنز میں کرایہ 50 ہزار تک پہنچ گیا ہے، جو وہ ادا نہیں کر سکتی۔

راجستھان کی ایک فیملی بھی ایئرپورٹ پر پھنسی ہوئی ہے۔ اس فیملی کا ایک رکن کینسر کا مریض ہے، جو صرف لیکوئڈ ہی استعمال کر سکتا ہے۔ یہ مریض بھی ایئرپورٹ پر لائن میں کھڑے رہنے کو مجبور ہے۔ اس نے بتایا کہ انڈیگو سے انھیں کوئی مدد نہیں مل رہی۔ مقامی ایئرپورٹ اسٹاف نے ان کے کھانے کا انتظام کیا ہے، لیکن ابھی تک فلائٹ کا انتظام نہیں ہو پایا ہے۔ اسی طرح 2 افراد کوچی جانے کے لئے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کی فلائٹ کینسل ہونے کے بعد آج دوپہر ایک بجے کی فلائٹ ری شیڈیول ہوئی، لیکن ایئرپورٹ پہنچنے پر پتہ چلا کہ فلائٹ کینسل ہو چکی ہے۔ ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ انڈیگو نے اب انہیں پیر کی دوپہر کی فلائٹ ری شیڈیول کر دی ہے اور کہا ہے کہ ایئرپورٹ پر آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ فلائٹ ٹیک آف ہوگی یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت کی ناکامی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، کانگریس
  • ’اربوں روپے وصول کرنے کے بعد کے ایم سی اور واٹرکارپوریشن کے پاس گٹر کے ڈھکن کے پیسے نہیں ہیں‘
  • 4 ارب میونسپل ٹیکس بجلی بلوں میں وصول کیے، گٹر پر ڈھکن لگانے کے پیسے نہیں، چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن
  • فرد اور ریاست کے تعلق کا مسئلہ
  • فوج پر تنقید ہم نے بھی کی لیکن ریڈ لائن کراس نہیں کی ، خواجہ آصف
  • ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے 30 سال، شاہ رخ خان اور کاجول کے کرداروں کا مجسمہ لندن میں نصب
  • پی ٹی آئی والے ہمیشہ ڈیل لے کر پچھلے دروازوں سے آتے ہیں: طلال چوہدری
  • لندن میں ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے مشہور کرداروں کے مجسمے کی رونمائی
  • گٹروں کے ڈھکن روز لگائے جاتے ہیں لیکن چوری ہوجاتے ہیں: مرتضیٰ وہاب