Express News:
2025-12-01@22:07:20 GMT

آپ کا دماغ اغوا ہو رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT

ایک ماں اپنے بچے سے جو پہلی کلاس کا طالب علم ہے، کہتی ہے کہ ’’ بیٹا میں پڑوس میں جا رہی ہوں جب تم اپنے اسکول کا ہوم ورک کر لو تو فریج سے چاکلیٹ نکال کر کھا لینا۔‘‘ بچہ یہ سن کر کاپی پنسل پھینک دیتا ہے اور رونا شروع کردیتا ہے۔ ’’ مما ! پہلے مجھے چاکلیٹ دو، میں پہلے چاکلیٹ کھاؤں گا، ہوم ورک بعد میں کروں گا۔‘‘

 جب بچہ کچھ بڑا اور سمجھدار ہوجاتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے لگتا ہے اور ماں یہی بات اس سے کہتی ہے کہ ’’ بیٹا! میں پڑوس میں جا رہی ہوں تم ہم ورک کر لو تو فریج سے چاکلیٹ نکال کر کھا لینا۔‘‘ بچہ ماں کو جواب دیتا ہے ’’ ٹھیک ہے اماں ! آپ جائیں بے فکر ہو جائیں‘‘ لیکن جب ماں گھر سے باہر جاتی ہے تو بچہ پہلے فرج سے چاکلیٹ نکال کے کھاتا ہے بعد میں ہوم ورک کرتا ہے۔

یہی بچہ جب اور بڑا اور زیادہ سمجھدار ہو جاتا ہے اور ماں اس سے یہی بات کہتی ہے کہ ’’ بیٹا میں پڑوس میں جا رہی ہوں تم اپنا ہوم ورک مکمل کر لو تو فریج سے چاکلیٹ نکال کر کھا لینا۔‘‘ بیٹا جواب دیتا ہے ’’ ٹھیک ہے اماں، آپ جائیں میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ اور بچہ ایسا ہی کرتا ہے ہوم ورک کرنے کے بعد چاکلیٹ کھاتا ہے۔

ایک ماہر نفسیات نے انسان کی ذہنی پختگی کے حوالے سے تین مرحلے بیان کیے ہیں۔ ماں اور بچے کی اس کہانی میں تینوں مرحلے واضح طور پر سمجھے جا سکتے ہیں یعنی پہلے مرحلے میں انسان جب بچہ ہوتا ہے تو بالکل ہی نا سمجھ ہوتا ہے اور ہر چمکتی چیز کو اچھا سمجھتا ہے اور جب وہ دوسرے مرحلے پر پہنچتا ہے تو کافی سمجھدار ہو جاتا ہے اور ہوشیاری دکھانے لگتا ہے لیکن جب تیسرے مرحلے پر پہنچتا ہے تو ذہنی لحاظ سے مکمل طور پر سمجھدار یعنی میچیور ہو جاتا ہے۔

گویا تیسرے مرحلے میں ایک انسان اپنے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور کسی چمکتی چیز کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ لیکن اگر ایسا ہوکہ تیسرے مرحلے کے انسان کو یعنی جو مکمل سمجھدار انسان ہو، اس کو ذہنی طور پر پہلے مرحلے پہ لا کر کھڑا کردیا جائے تو یقینا اس کے فیصلے پھر اس بچے کی طرح سے ہوں گے جو اپنی ماں کے کہنے پر بجائے بعد میں چاکلیٹ کھانے کے، ہوم ورک سے پہلے ہی چاکلیٹ کھانا چاہتا ہے اور کاپی پنسل پھینک دیتا ہے۔

ہم اپنی زندگی میں بھی بڑے ہونے کے بعد اس طرح کے فیصلے نہیں کرتے جو کبھی ہم اپنے بچپن میں کرتے تھے۔ بچوں اور بڑوں کے فیصلے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

تھوڑی دیر کے لیے سوچیں، اگر آپ کا ذہن بھی کچھ دیر کے لیے بچوں کی سطح پر آجائے تو آپ کیسے فیصلے کریں گے؟ آپ کہیں گے یقیناً یہ تو خام خیالی ہی ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن نہیں جناب ایسا ہوتا ہے اور ہمارے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔

ماہرین نفسیات کی بہت ساری ایسی ریسرچ سامنے آچکی ہیں کہ جس کے تحت ایک بڑے شخص کے ذہن کو قابو کیا جا سکتا ہے اور بچے کی ذہن کی سطح پر لایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مختلف تحقیق سے میڈیا اور مارکیٹنگ والوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک بالغ شخص کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس سے کسی بچے کی طرح سے فیصلے کروا لیے جاتے ہیں اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ کھیل مشرق اور مغرب ہر جگہ یکساں ہو رہا ہے۔

مارکیٹنگ اور پبلک ریلیشن سے وابستہ لوگ ہر قسم کے نفسیاتی حربے استعمال کر کے انسانی ذہن کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں اور انھیں وہی فیصلہ کرنے پہ مجبور کرتے ہیں جو وہ خود چاہتے ہیں اور اس کی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں مثلاً امریکا میں مارکیٹنگ کے ایک بڑے ماہر ایڈورڈ برنے، نے کمپین چلائی کہ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے سگریٹ میں جو سرخ رنگ کا تمباکو جل رہا ہوتا ہے وہ دراصل ’’ ٹارچ آف فریڈم‘‘ ہے اور جو خواتین اور مرد فریڈم کو پسند کرتے ہیں وہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔

پبلک ریلیشن کے اس ماہر نے اپنی کمپین سے پہلے اچھی طرح تحقیق کر لی تھی کہ مغرب میں فریڈم کے تصور کا انقلاب آرہا ہے اور خواتین و مرد سب ہی فریڈم کو پسند کررہے ہیں اور مذہبی تعلیمات سے فرار حاصل کر رہے ہیں، لٰہذا فریڈم کے نعرے کو استعمال کر کے سگریٹ کی فروخت کو بڑھایا جا سکتا ہے، چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا اور اس کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد سگریٹ نوشی کرنے لگی اور سگریٹ کی کمپنیاں جو اپنے کاروبار سے مایوس ہو کر کچھ اور کاروبار کرنے کا سوچ رہی تھی، وہ ایک دفعہ پھر منافع بخش کاروبار کرنے لگیں۔

اگر ہم پاکستان کی مثال لیں تو اس کی ایک بہت اچھی مثال ٹھنڈیمشروبات کی ہے ہم میں سے اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ٹھنڈے مشروبات گردوں کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق اگر خالی پیٹ ٹھنڈے مشروبات پی لیں تو اس سے اچانک موت بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں سب سے زیادہ ٹھنڈے مشروبات رمضان کے مہینے میں فروخت ہوتے ہیں اور لوگ سحر و افطار میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ظاہری سی بات ہے کسی نے تو ہم سب کے ذہن کو کنٹرول کیا ہے اور اس حد تک کنٹرول کیا ہے کہ ہم اپنی صحت کے خلاف سخت ترین فیصلہ کرتے ہوئے ٹھنڈے مشروبات سحر اورافطار میں بھی استعمال کرتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ جب ہم اشتہار دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ مارکیٹنگ والوں نے اور اشتہار بنانے والوں نے جو پیغام ہم تک پہنچایا ہے، اس میں بہت سارے نفسیاتی حربے استعمال کیے ہیں جو ہمارے ذہن کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔

آئیے! چند ایک تیکنک کو جانتے ہیں جو اس ضمن میں استعمال کی جاتی ہیں مثلاً ایک خریدیں ایک فری، یا اتنا فیصد زیادہ، یا 50 فیصد رعایت حاصل کریں۔ اس قسم کی تیکنک میں لالچ دیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ جو کسی چیزکی ضرورت نہیں رکھتے نہ ہی خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر  لالچ کی اس تکنیک میں آکر وہ کوئی بھی چیز اس لیے خرید لیتے ہیں کہ قیمت کے لحاظ سے انھیں فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔

اسی طرح یہ نفسیاتی حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ تاثر دینا کہ اگر آپ نے یہ چیز استعمال کی تو آپ کا شمار بھی اچھی لائف ( لیونگ اسٹینڈرڈ) گزارنے والوں میں ہوگا یا یہ چیز تو مالدار اور اونچے گھرانوں کے لوگ استعمال کرتے ہیں، چنانچہ اس تاثر سے بھی بہت سے لوگ یہ دکھانے کے لیے کہ ان کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، اشیاء کو خرید لیتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔

مثلاً بہت سے لوگوں کے پاس موبائل فون ہوتا ہے، جس سے ان کی ضرورت پوری ہو رہی ہوتی ہے مگر مارکیٹ میں نئے آنے والے موبائل کو بلاضرورت خرید لیتے ہیں۔ یہ سب مارکیٹنگ کے حربوں کا کمال ہوتا ہے کہ وہ اچھے خاصے بالغ افراد کے ذہن کو کسی بچے کے ذہن کی سطح کے برابر لاکھڑا کرتا ہے کہ بس اب تو یہی چاہیے۔ یہ تو چند سیدھی سادی مثالیں یہاں بیان کی گئی ہیں، حقیقت میں تو پبلک ریلشن اور مارکیٹنگ کا پورا ایک وسیع علم ہے جس پر سیکڑوں کتابیں بھری پڑی ہیں جن میں انسانی ذہنوں کو متاثر اور قابو کر کے اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنا ہے، گویا جیسے کسی کا دماغ اغوا کر لیا جائے اور پھر وہ دماغ اغواء کار کی مرضی سے چلے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استعمال کرتے ہیں جاتا ہے اور استعمال کر استعمال کی لیتے ہیں ہیں اور ہوتا ہے دیتا ہے سکتا ہے ہوم ورک کرتا ہے بچے کی کے ذہن ذہن کو رہا ہے اور اس

پڑھیں:

چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے اجراء کی مدت مقرر نہیں، تاخیر سے آئینی یا انتظامی خلا نہیں ہوتا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کی جانب سے حال ہی میں قائم کیے گئے چیف آف دی ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کے عہدے کے باضابطہ نوٹیفکیشن پر غور جاری ہے، تاہم حالیہ ترامیم کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ نوٹیفکیشن کے اجراء کی کوئی قانونی مدت مقرر نہیں کی گئی، اور اس میں تاخیر سے کوئی آئینی یا انتظامی خلاء بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پاک فوج کی کمان مکمل طور پر اور بدستور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کے پاس ہے، جو اس وقت 27ویں آئینی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے پر بھی فائز ہیں اور اس ترمیم میں دی گئی تمام استثنیٰ اور تحفظات کے حامل ہیں۔ آرمی ایکٹ کو 27ویں ترمیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے منظور کردہ پاک آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2025ء واضح طور پر کہتا ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت اس وقت دوبارہ شروع ہوگی جب آرمی چیف کیلئے بیک وقت سی ڈی ایف کے دہرے عہدے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ ترمیم کے مطابق نئے ڈھانچے کے تحت ہونے والی پہلی تقرری ایک نئی مدت کا آغاز کرے گی، آئینی ترمیم کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ عہدیدار کو نوٹیفکیشن کے اجراء کی تاریخ سے شروع ہونے والی مکمل پانچ سالہ مدت مل جائے گی۔ قانون یہ بھی واضح کرتا ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کی جاری مدت کو نوٹیفکیشن کے شائع ہونے والے دن سے ’’از سر نو شروع‘‘ (Deemed to have Recommenced) ہونے والا عہدہ تصور کیا جائے گا۔ حالیہ قانون سازی میں چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے حوالے سے کوئی لازمی مدت مقرر نہیں کی گئی، جس سے حکومت اور عسکری قیادت کو یہ لچک ملتی ہے کہ وہ مرحلہ وار اقدامات اپنی سہولت کے مطابق انجام دے سکیں۔ جب تک نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا، آرمی چیف مکمل اختیارات کے ساتھ اپنی کمان اور آپریشنل کنٹرول برقرار رکھتے ہیں، جس میں کوئی خلل نہیں آتا۔ ترامیم کے تحت، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا نیا عہدہ قائم کر دیا گیا ہے، جو نئے بنائے گئے چیف آف دی ڈیفنس فورسز کے ماتحت ہوگا۔ کمانڈر کا تقرر، دوبارہ تقرر اور عہدے میں توسیع (ہر ایک تین سالہ مدت کیلئے) وزیر اعظم کے مکمل اختیار میں ہوگی اور انہیں عدالتی نظر ثانی سے بھی محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ تبدیلیاں مسلح افواج میں ’’کثیرالجہتی انضمام، تنظیمِ نو اور بہتر مشترکہ صلاحیت‘‘ کو یقینی بنانے کیلئے ہیں۔ یہ مقاصد پاکستان آرمی ایکٹ کی ترمیم شدہ شق 8A میں واضح طور پر درج ہیں۔ اب جبکہ آئینی اور قانونی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے، سب کی نظریں حکومت کے زیر التواء نوٹیفکیشن پر ہیں جو جاری ہوتے ہی نئے کمانڈ اسٹرکچر کا باضابطہ آغاز کرے گا اور پاکستان کے نئے دفاعی نظام کے تحت آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا از سر نو تعین کرے گا۔ اسی دوران، وزیر دفاع خواجہ آصف نے سی ڈی ایف کی تعیناتی کے حوالے سے نوٹیفکیشن کے متعلق قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا۔ حکومت نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کا عہدہ تخلیق کیا تھا۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر بیان جاری کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سی ڈی ایف نوٹیفکیشن کے حوالے سے غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ انداز سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ سب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اس ضمن میں کام شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم جلد واپس آ رہے ہیں۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں نوٹیفکیشن مناسب وقت پر جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ قیاس آرائیوں کیلئے کوئی گنجائش موجود نہیں۔
انصار عباسی

متعلقہ مضامین

  • نائیجیریا؛ سہاگ رات کو دلہا کے گھر سے دلہن اپنی 12 سہیلیوں سمیت اغوا
  • دھمکیوں سے معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا، رانا ثنا
  • ایڈز کے خلاف آگاہی کا عالمی دن: ’بیماری سے زیادہ معاشرے کے رویے کا خوف ہوتا ہے‘
  • باڈی اگر فِٹ ہو تو دماغ بھی ’جوان‘ رہتا ہے
  • چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے اجراء کی مدت مقرر نہیں، تاخیر سے آئینی یا انتظامی خلا نہیں ہوتا
  • پیرآباد فرنٹیئر کالونی میں 10 سالہ مریم مبینہ طور پر اغوا، مقدمہ درج
  • زمین پر قبضہ کا معاملہ مجرم کی موت اور سزا سے ختم نہیں ہوتا، عدالت عظمیٰ
  • کیا آپ اس بچی کو پہچانے، جو آج کی مشہور اداکارہ ہے؟
  • اسکول جاتے ہوئے اغوا کی گئی 14 سالہ طالبہ کو ملزم ورغلا کر کہاں لے گیا؟ ویڈیو دیکھیں