ترقی کا واحد راستہ آئین و قانون پر عملدرآمد ہے،شاہد خاقان عباسی
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور : سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سیاسی اختلافات ختم کرنے اور آئین کی بالادستی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ آئینی سربراہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں، حالانکہ وفاق اور صوبوں کو برداشت اور تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پشاور پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے گورنر راج کو انتہائی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک صوبے میں لگانا ہے تو پھر گورننس کے مسائل کے باعث باقی صوبوں میں بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کا واحد راستہ آئین و قانون کی پابندی ہے، کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر نہ سرمایہ کاری آتی ہے اور نہ ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔
سابق وزیراعظم کے مطابق ملک کا سب سے بڑا اثاثہ نوجوان ہیں جو تعلیم، روزگار اور کاروباری مواقع چاہتے ہیں، اس لیے سیاست کا مقصد کرسی نہیں بلکہ عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں کرنے کی۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہمارے معاشرے اور دین کے خلاف ہے۔ انہوں نے 27ویں آئینی ترامیم کو سیاست پر ’’کالا دھبہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ ایک دن تمام سیاسی جماعتیں انہیں واپس لینے پر مجبور ہوں گی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کو نظر انداز کرکے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، اس لیے تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا وقت کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
ہمیں ریاست کو کمزور کرنیوالے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے، سرفراز بگٹی
پریس کانفرنس کے موقع پر سرفراز بگٹی نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے صوبے کو امن اور ترقی کی ضرورت ہے۔ فورسز کیخلاف بات کرنا اور ہر وقت احتجاج کرنا مناسب نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ صوبے میں 100 کے قریب دہشتگردوں نے ریاست کے سامنے سرنڈر کیا اور یہ خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو قوم پرستی کے نام پر لاحاصل جنگ میں ڈالا گیا ہے، آپ یہ جنگ تشدد کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے یہ وڈیرا اور ان کے ساتھی 2010 میں سرنڈر ہوئے تھے، مگر 2018 میں دوبارہ پہاڑوں پر چلے گئے تھے، اب جب وہ دوبارہ آئے ہیں تو ہم نے انہیں دوبارہ گلے لگایا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس سال بلوچستان میں 900 واقعات ہوئے، جن میں 6 افسران سمیت 205 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 280 سویلین جانبحق ہوئے، آپریشنز میں 760 دہشتگرد بھی ہلاک کیے گئے۔
وزیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ 8 سے 10 دہشتگرد افغان تھے، جن کی لاشیں آج بھی یہاں پڑی ہیں۔ افغانستان میں پنپنے والی دہشتگردی پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو قوم پرستی کے نام پر لاحاصل جنگ میں ڈالا گیا ہے، آپ یہ جنگ تشدد کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ بیانیوں کا مقبول ہونا اہم نہیں، ہمیں حق پر کھڑا ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں لوگ سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں ریاست کو کمزور کرنے والے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ میرے دو چچازاد بھائی پاک فوج میں ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نظر کا بیٹا فرانس میں پڑھ رہا ہے، اور دوسرے مقبول لیڈر کا بیٹا لندن میں ہے، لیکن ہمارے جو بیٹے یہاں ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے خلاف پراپیگنڈا کرنا چاہیے؟
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ جو مسلح نوجوان واپس آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ریاست کے دروازے کھلے ہیں۔ ترقی میں عدم مساوات پورے ملک کا مسئلہ ہے، اسے تشدد کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے صوبے کو امن اور ترقی کی ضرورت ہے۔ فورسز کے خلاف بات کرنا اور ہر وقت احتجاج کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہیں اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے فورسز کے خلاف پراپیگنڈے کی مذمت کی۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں صرف انٹیلی جنس آپریشنز ہو رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں ہو رہا۔ دہشتگردوں کو معافی دے کر جیلوں سے چھوڑا گیا، جس سے وہ دوبارہ ریاست پر حملہ آور ہوئے۔